معاشرتی درندگی
سعید الرحمن
نجیب اللہ ولد قاسم کا تعلق تانگیر سے تھا چند سالوں سے وہ گلگت کے نواحی علاقے سکارکوئی میں رہائش پذیر تھے۔دو وقت کی روٹی کمانے کیلئے وہ محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ سکارکوئی کے ایک نجی سکول میں صفائی بھی کیاکرتے تھے جس کی انہیں معقول سی تنخواہ ملتی تھی۔ یہی نہیں اسکے دو بچے بھی اسی سکول میں زیر تعلیم تھے جن سے فیس نہیں لی جاتی تھی۔ سکول کے پرنسپل کے مطابق نجیب اللہ کی جس گیارہ سالہ بچی کے ساتھ حادثہ پیش آیاہے اس کا نام زمرد ہے اور وہ انہی کے سکول میں اول جماعت کی طالبہ ہیں۔ گھریلو حالات کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں نجیب اللہ کے دونوں بچے پچھلے کئی ماہ سے سکول گھر کے کپڑوں میں آیاکرتے تھے۔سکول کے اساتذہ کو جب انکے گھر کے حالات کا اندازہ ہوا تو اپنی تنخواہوں سے بچوں کیلئے نئی وردیاں اور کتابیں خریدیں تاکہ بچوں کی تعلیم متاثر نہ ہو۔ اسکے علاوہ مقامی لوگوں کے مطابق نجیب اللہ کا گھر دریا کنارے ہے جو پچھلے دنوں دریامیں پانی کے تیز بہاؤ کی نذر ہو گیا اور اسکے بیوی بچے کھلے آسمان تلے رہ گئے۔ نجیب اللہ نے اپنے گھر کی نئی تعمیر ات کیلئے حکومتی اداروں کے دروازے کھٹکھٹائے مگر وہا ں سے سوائے دھتکار کے اسے کچھ حاصل نہیں ہوا۔
قارئین! نجیب اللہ جیسے واقعات دراصل ہمارے معاشرے کااصل چہرہ عیاں کرتے ہیں مگر پھر بھی ہم سبق نہیں سیکھتے کیونکہ ہمیں ایسے واقعات کا احساس نہیں۔ بس جب تک معاملہ گرم ہوتاہے سوشل میڈیا پر ایک ایک پوسٹ لکھ کر اپنے احساسات ظاہر کردیتے ہیں۔ادارے بھی اسی وقت حرکت میں آجاتے جب اعلی حکام کی طرف سخت نوٹس لیاجاتاہے۔اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کچھ نہیں کرنا تو دفاتر میں بیٹھ کر تنخواہیں کس بات کی لے رہے؟
گزشتہ تین دنوں میں اپنی نوعیت کے دو انتہائی بڑے حادثات ایک ہی گھر میں پیش آئے ہیں ذرا سوچئے اس گھر میں کیسا سماں ہوگا۔پہلے گھر دریا کی بے رحم موجوں کی نذر ہوگیا پھر اسکی گیارہ سالہ بچی پہلے اغوا ہوئی پھر اغواکاروں کی زیادتی کا نشانہ بن گئی۔نجیب اللہ جو پہلے ہی گھر کے معاملے میں سرکاری اداروں کے چکر کاٹ چکاتھا ایسے میں اسکے لئے بچی کی زیادتی کا معاملہ دل دہلادینے والا تھا۔ اس نے مقامی تھانے میں رپورٹ درج کروالی مگر وہاں سے بھی اسکو رسوائی ہی ہاتھ آئی۔دو دن گزرے پھر تیسرے دن کا سورج طلوع ہوا تو نجیب اللہ کا حوصلہ جواب دے چکا تھا اس نے ادھر اودھر دیکھا مگر کہیں سے کوئی امید اور آس نظر نہیں آئی دریائے گلگت میں چھلانگ لگا کر تمام مظالم سے چھٹکارہ حاصل کرلیا۔
یوں تو ہمارے یہاں اتنے سارے ادارے ہیں جو نجیب اللہ جیسے کئی لوگوں کے گھرتعمیرکرواسکتے ہیں مگر خواب غفلت سے انکو فرصت ہی نہیں۔ حکومتی ادارے اپنی جگہ مگر سماجی ادارے جو کروڑوں روپے سالہاسال مختلف پروجیکٹس پر لگالیتے ہیں جبکہ نجیب اللہ کیلئے وہ بھی کچھ نہیں کرسکے۔ اب جب میڈیا نے خبر ہر طرف پھیلائی ہے تو ہر قسم کاادارہ فعال ہوگیا ہے مگر انکے اب فعال ہونے کا کیا فائدہ جب نجیب اللہ کے گھروالوں کی دنیا اجڑ ہی چکی ہے۔
گزشتہ چند دنوں میں یکے بعد دیگرے ایک ہی گھر میں اتنے سارے واقعات پیش آئے مگر کہیں کسی کے بھی کان میں جوں تک نہیں رینگی۔ جب اسکا گھر دریا برد ہوگیاتھا تب ہی اسکو حکومت کی طرف بروقت امداد ملتی تو شاید نجیب اللہ کو ادارون سے مایوسی نہ ہوتی۔ اس کیس کے بعد بچی کے اغوا اور زیادتی والے معاملے پر بھی اگر متعلقہ ادارہ جلدیہی کوئی حرکت کرتا تو شاید وہ خودسوزی نہیں کرتا۔سچ پوچھئے تو نجیب اللہ پر اللہ کی زمین تنگ کردی گئی تھی۔ اتنے ہولناک واقعات سے بڑے بڑے لوگ ہل جاتے ہیں یہ تو بے چارہ سادہ سا اللہ کا بندہ تھا۔نجیب اللہ کی خودسوزی چیخ چیخ کرکہہ رہی ہے کہ آواز دو انصاف کو انصاف مرگیا۔۔۔۔نجیب اللہ کی موت کچھ سوالات ہمارے لئے چھوڑ گئی کہ کیا بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے درندے یونہی آزاد پھریں گے؟ کیا گلگت بلتستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے ناکام ہوچکے ہیں کہ بچیوں کی عصمتیں بھی اب محفوظ نہیں؟ اگر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتارہاتو لوگوں کو اداروں پر سے اعتبار اور ان سے امید ختم ہوجائے گی اسکے بعد ہر فرد خود ہی اپنا انصاف کرے گا جو انتشار کا سبب بن جائے گی۔
اتنا سب ہونے کے بعد وزیر اعلی گلگت بلتستان کی آنکھیں کھل گئیں اور لگے ہاتھوں جوڈیشل انکوائری بٹھادی ساتھ میں یہ بھی کہا کہ بچی سے زیادتی کرنے والوں کی گرفتاری میں دیر کرنے والے پولیس اہلکار وں کو بھی نہیں بخشا جائے گامگر اب ملزمان کو پکڑ کرانکو سزا دی بھی گئی تو کیا نجیب اللہ کے ساتھ انصاف ہوگیا۔۔۔؟ اسکا جواب سیدھا سا ہے۔۔۔نہیں۔۔۔۔ کاش وزیر اعلی صاحب آپ کی آنکھیں نجیب اللہ کی خودسوزی سے پہلے کھل جاتی تاکہ ایک گھر کا سایہ یوں نہ مٹتا۔