کالمز
میڈیا کی خاموشی عوام کی سوچ سے بالاتر ہے
حسُین عباس
حال ہی میں گلگت میں دو افسوسناک واقعات پیش آئے. جس میں ایک 15 اگست کو حراموش کے مقام پر پل کے ٹوٹنے سے گاڑی دریا میں جا گری. گاڑی میں 9 افراد سوار تھے جن میں6 لوگوں کو زخمی حالت میں دریا سے نکالا گیا اور ان زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا. باقی تین لوگ دریا میں بہ گئے جن کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے.
لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ اس پل کو تعمیر کیے کچھ ہی مہینے ہوئے ہیں. کیا یہ پل اتنا کمزور بنایا گیا تھا کہ صرف 9 لوگوں کا وزن بھی برداشت نہیں کر سکا. یا پھر نا قص میٹیریل استعمال کر کے کرپشن کے زرئعے بے گناہ لوگوں کے خون کا سودا کیا گیا.
اس بارے میں اچھی خبر یہ سننے میں آئی ہے کہ گورنمنٹ نے اس واقعہ کا نوٹس لے لیا اور پی ڈبلیو ڈی کے دو افسروں کو معطل کر دیا ہے. ایسے لوگوں کے ساتھ ہونا بھی یہی چاہیے تاکہ اس سے باقی افسران اور ٹھیکیدار بھی عبرت حاصل کر سکے.
دوسری جانب ہیلی پیڈ میں 13 اگست کی رات ہر سال کی طرح جشن آزادی منانے کے لیے ایک تقریب منعقد کی گئی.اس پروگرام میں تمام لوگوں کو کھلی دعوت دی گئی. جس میں ہزاروں کی تعداد میں محبِ وطن گلگت کے لوگوں نے شرکت کی. جو حقیقی معنوں میں اپنے آپ کو پاکستانی بھی نہیں کہلا سکتے. اس کے باوجود اپنی دھرتی سے محبت کے جزبے نے ان کو اس تقریب میں شرکت کرنے پر مجبور کر دیا.
اپنے دوستوں کے ہمراہ مجھے بھی وہاں جانے کا اتفاق ہوا. ھم جب اس جگے میں پہنچے تو رونے اور چیخنے کی آوازیں آرہی تھی. جب میں نے گیٹ سےاندر دیکھا تو عجیب منظر تھا. ایک بہت بڑی دیوار لوگوں کے ہجوم کے اوپر گر گئی تھی. بوڑھے، بچے اور جوان سب اس دیوار کے زد میں آگئے تھے. اپنی مدد آپ کے تحت وہاں موجود لوگ زخمیوں کو نکال رہے تھے. زخمی لوگوں کی شناخت تک نہیں ہو پارہی تھی. میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں ہے جن سےان ماؤں کا درد بیان کر سکو جو اپنے بچوں کو ڈھونڈتی ہوئی واویلا کر رہیں تھے. خیر کچھ ہی دیر بعد آرمی ایمبولینس اور رئسکیو کے افراد مدد کے لیے پہنچ گئے.اس واقعہ میں ذرائع کے مطابق 8 افراد شہید ہوئے تھے اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے.
اب حیرت کی بات تو یہ ہے اس تقریب کے جو منتظمین تھے انہوں نے اتنے لوگوں کو دعوت کیوں دی اگر وہ مینجمنٹ نہیں کر سکتے.
کیا اس دیوار میں بھی حراموش پل کی طرح نا قص میٹیریل استعمال کیا گیا تھا یا پھر اس کو انتظامیہ کی غفلت سمجھا جائے. جس طرح پی ڈبلیو ڈی کے افسران کو ان کی کارکردگی کی وجہ سے معطل کیا گیا. اسی طرح ہیلی پیڈ حادثے میں شامل اُس انتظامیہ کی انکوائری ہوگی؟ یا پھر اسے بھی قدرتی آفت سمجھ کر انتظامیہ اور گورنمنٹ کی کارکردگی پردہ ڈالا جائے گا.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے حادثات کے باوجود ہمارا میڈیا ٹس سے مس نہیں. غلطی سے بھی کسی بھی چینل کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس خبر کو چلا لیں. شاید اُس وقت ہمارے میڈیا کے نمائندے کشمیر آزاد کروانے میں مصروف تھے جس کی وجہ سے ان افسوسناک واقعات کو نظرانداز کر دیا گیا.
پاکستان کے دوسرے کسی صوبے یا شہر میں کوئی بھی چھوٹا سے چھوٹا واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی خبر فوراً میڈیا پہ آجاتاہے. تو پھر یہاں کے لوگوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیوں کیا جاتا ہے. کیا یہاں کے لوگ انسان نہیں؟ کیا ان غریب لوگوں کے خون کی کوئی اہمیت نہیں؟
ان سوالوں کا جواب نہ تو حکومت کے پاس ہے نہ ہی میڈیا کے پاس.