اخوان الصّفا پہ ایک طائرانہ نظر
تحریر: کریم مدد
اسلامی دنیا میں علم و حکمت اور فلسفے کے حوالے سے دسویں صدی عیسوی کا عراق خاص اہمیت رکھتا ہے. عباسی حکمران علم دوست اور علم پرور سمجھے جاتے تھے اس لیے تشنگان علم عراق کا رخ کرتے اور اپنی علمی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی صلہ پاتے. مسلمانوں کا دیگر تہذیبوں کے ساتھ ہر سطح پہ رابطے استوار ہو رہے تھے. یونانی فلسفے تک مسلمانوں کی رسائی ہو چکی تھی اور یونانی فلسفے کا ایک بڑا حصہ عربی میں منتقل ہونے کے بعد عام مسلمانوں کے لیے دستیاب تھا. منطق و استدلال سے بھرپور یہ علم مسلمانوں کی طبیعتوں پہ متضاد انداز میں اثر انداز ہوا. آزاد خیال مسلمان یونانی فلسفے کو ہاتھوں ہاتھ لے رہے تھے. ہر معاملے کو منطق کی کسوٹی پر پرکھا جاتا. یہاں تک کہ عقائد اور شریعت کو بھی فلسفے کی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی جاتی اور منطق و استدلال کی بٹھی سے گزارا جاتا. دوسری طرف روایت پرست مسلمان تھے جو اس علم کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے. وہ یونانی فلسفے کو اپنے عقائد کے لیے خطرہ قرار دے کر اس کی بھر پور مذمت کرتے تھے اور آزاد خیال مسلمانوں کو دین سے خارج سمجھتے تھے. یہی وہ دور تھا جب یونانی فلسفے کو لے کر جگہ جگہ بحث مباحثے ہو رہے تھے, مضامین لکھے جا رہے تھے, کتابیں تالیف کی جارہی تھیں, تقاریر ہو رہی تھیں, خطبے دئیے جارہے تھے اور فتوے جاری ہورہے تھے. اسی پس منظر میں بعداد سے دور بصرہ کے مقام پہ ایک خفیہ انجمن وجود میں آتی ہے جو تاریخ میں اخوان الصفا کے نام سے معروف ہے. اس انجمن کے سیاسی عزائم زیادہ واضح نہیں ہیں لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ وہ اپنا ایک نظام حکومت چاہتے تھے. مذہبی لحاظ سے یہ انجمن شیعہ اسلام کی اسماعیلی شاخ کی نمائندگی کرتی تھی. ان دونوں عزائم سے صرف نظر کرتے ہوئے اس انجمن کی علمی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس نے شریعت محمدیہ اور یونانی فلسفے میں خلیج پاٹنے اور تعلق پیدا کرنے کی کوشش کی. انجمن کی علمی بنیاد اس خیال پر رکھی گئی تھی کہ شریعتِ اسلامیہ جہالت و گمراہی سے آلودہ ہو چکی ہے اور اس کی صفائی صرف فلسفے ہی سے ممکن ہے… اور جس وقت فلسفۂ یونان اور شریعتِ محمدیہ میں امتزاج پیدا ہو جائے تو اُس وقت کمال حاصل ہو جائے. اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس انجمن نے ایک باقاعدہ, منظم اور قابل رشک و تحسین پروگرام مرتب کیا. اخوان الصفا کے اس پروگرام کے سرسری جائزے سے ہی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ لوگ اپنے دور کے بڑے دماغوں میں شامل تھے, انہوں نے اپنے دور کے حساب سے جدید تعلیم حاصل کی تھی اور اپنے مقصد کے ساتھ مکمل طور پہ مخلص تھے.
اخوان الصفا چونکہ ایک خفیہ انجمن تھی اس لیے خفیہ طریقے سے ہی نئے افراد کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دی جاتی تھی. انجمن میں کسی نئے فرد کو شامل کرنے سے پہلے اس کے حوالے سے مکمل معلومات حاصل کی جاتی تھیں, اس کے اخلاق کو آزمایا جاتا تھا اور اس کے اعتقادات و عقائد کے بارے سوالات کیے جاتے تھے. ہر طرح سے اطمنان حاصل کرنے کے بعد ہی کسی کو انجمن میں شامل کیا جاتا تھا. انجمن میں شامل کرنے کے لیے نوجوانوں کا انتخاب کیا جاتا تھا اور اپنے داعیوں کو خاص ہدایت کی گئی تھی کہ جہاں تک ہو سکے بوڑھے لوگوں کو دعوت نہ دی جائے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ فرسودہ بوڑھوں کی اصلاح ممکن نہیں, وہ بچوں کے جیسے فاسد خیالات, ردی عادات اور وحشی اخلاق کے حامل ہوتے ہیں.
اخوان الصفا میں شامل افراد کی تعلیم کے چار مراتب تھے. پہلا درجہ پندرہ سے تیس سال تک کے نوجوانوں کے لیے مخصوص تھا. اخوان کاخیال تھا یہ اہل صنعت کا درجہ ہے اور عمر کے اس حصے میں قوت ناطقہ پر وارد ہونے والے احساسات میں قوت عاقلہ امتیاز کرنا شروع کر دیتی ہے. اس درجے میں شامل افراد کو قانونِ فطرت کے مطابق تعلیم دی جاتی اور جوہر نفس کی صفائی, حسنِ قبول اور سرعتِ تصور اس درجے کی خصوصیات گردانی جاتی.
دوسرا مرتبہ تیس سے چالیس سال کی عمر کے افراد کی تعلیم کے لیے تھا. اخوان نے اس درجے کے افراد کو اہل سیاست کہا ہے جب تیس سال کی عمر کے بعد قوت عاقلہ پہ قوت حکیمانہ وارد ہوتی ہے. اس درجے کی نمایاں خصوصیات اخوان کی مراعات کا تحفظ, سخاوتِ نفس, شفقت اور رحم ہیں. اس درجے میں شامل افراد کو اخیار کہا گیا ہے.
تیسرا مرتبہ چالیس سے پچاس سال تک کی عمر کے افراد کے لیے مختص ہے جب انسان میں قوت ناموسیہ پیدا ہوجاتی ہے. یہ پیامبروں اور بادشاہوں کا درجہ گردانا گیا ہے جس کی اہم خصوصیات میں اوامر نواہی, امداد, دفع عناد اور دشمن کے ساتھ لطف و مدارت اور نرمی کا سلوک ہے. اس درجے کے افراد کو فضلائے کرام سے بھی یاد کیا گیا ہے.
چوتھا اور آخری درجہ پچاس سال کی عمر کے بعد کے افراد کے لیے ہے جو پچھلے تینوں درجوں سے گزر چکے ہوں.. اس درجہ کے حامل افراد قوت مَلَکیہ کے حامل ہوتے ہیں. یہ تسلیم و رضا اور تائید الہی کا مرحلہ ہے. اسی قوت ملکیہ کے طفیل حق تعالی کا علانیہ مشاہدہ ممکن ہے اور عالم ملکوت کی جانب پرواز انسان کا مقدر بن جاتی ہے.
یہ ایک مثالی پروگرام تھا جس پر عملدر آمد کے لیے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے اخوان الصفا ہر بارہ دنوں میں ایک رات خفیہ مجلس منعقد کرتے تھے جہاں کسی اجنبی کو شریک ہونے کی ہرگز اجازت نہیں تھی. ان مجالس میں فلسفہ و حکمت, شریعت اور دیگر علوم پر بحث کی جاتی. شریک مجلس افراد کو نصیحت کی جاتی کہ کسی بھی علم سے نفرت نہ کریں, کسی کتاب کا مطالعہ ترک نہ کریں اور کسی مذہب سے تعصب نہ کریں. ان پوشیدہ مجالس میں جن موضوعات پر مباحثہ ہوتا ان کو ضبط تحریر میں لایا جاتا اور راتوں رات مختلف جگہوں, مسجدوں مدرسوں اور چوراہوں پہ چسپاں کیا جاتا تاکہ عوام تک ان خیالات و موضوعات کی ترسیل ہو سکے. عربی زبان میں تحریر کردہ یہی رسالے رسائل اخوان الصفا کہلاتے ہیں.
اخوان الصفا کا دعوی ہے کہ ان کا علم چار اقسام کے علوم سے ماخوذ ہے. اول الہامی کتب جن کی بنیاد وحی پر ہے. دوم وہ کتابیں جو حکما و فلاسفہ کی تصنیف کردہ ہیں. سوم مظاہر و مناظر فطرت اور موجودات و نظام کائنات اور چہارم وہ نقوش الہیہ جو نفوس انسانی میں ودیعت کی گئی ہیں.
رسائل اخوان الصفا کا فلسفہ بھی چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے. پہلے حصے میں چودہ رسالے علم ریاضی پہ ہیں. اس حصے میں شامل ہر رسالے میں علم ریاضی کے کسی ایک موضوع پر اظہار خیال گیا گیا ہے. مثلاً پہلا رسالہ بحث در عدد پہ ہے دوسرا رسالہ ہندسہ پہ.. اسی طرح نجوم, موسیقی, جغرافیہ اور نسب وغیرہ اس حصے کے موضوعات ہیں.
دوسرے حصے میں سترہ رسالے طبعی جسمانیت یا طبیعات پر ہیں جن کے چند ذیلی عنوانات میں مادہ, صورت, حرکت, زمان ومکان, پیدائش, فساد, معدنیات, نباتات و حیوانات, زندگی اور موت کی ماہیت وغیرہ شامل ہیں.
تیسے حصے میں عقلی نفسیات کے متعلق دس رسالے شامل ہیں جن میں عقل و معقول, ماہیتِ عشق, ماہیتِ بعث اور علل و معلومات وغیرہ پر بحث کی گئی ہے.
چوتھے حصے میں گیارہ رسالے احکام الہی کے متعلق ہیں جن میں اخوان الصفا کے عقائد پر سیر حاصل بحث موجود ہے.
گمان غالب ہے کہ یہ رسائل 983 عیسوی تک مکمل ہو چکے تھے. تمام رسالوں کا ایک خلاصہ جامعہ کے نام سے بھی لکھا گیا ہے جو اخوان کے ترقی یافتہ ممبروں میں تقسیم کیا جانا تھا. بعض روایات کے مطابق جامعہ کا مزید ایک اور خلاصہ بھی کیا گیا جس کو رسالتہ الجامعہ کا نام دیا گیا یوں کل ملا کے یہ ترپن رسائل بنتے ہیں.
رسائل اخوان الصفا آج بھی دنیا کی پہلی قاموس یعنی انسائیکلو پیڈیا سمجھی جاتی ہے. گو کہ ان رسائل سے قبل بھی اسلامی دنیا میں عقلیت پسندی کی روایت موجود تھی لیکن اس کی نوعیت انفرادی قسم کی تھی. اجتماعی لحاظ سے اسلامی دنیا میں عقلیت پسندی اور مباحثِ فلسفہ کی روایت اخوان الصفا نے شروع کی. اس انجمن کی سرگرمیں کے طفیل ہی مسلمانوں کے درمیان فلسفیانہ اور علمی و عقلی مباحثوں کا ماحول نشو و نما پانے لگا. یہ علمی ابال زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا. روایت پرست سوچ غالب آگئی اور اخوان کا یہ مثالی پروگرام اپنے مقاصد مکمل طور پر حاصل کرنے میں ناکام ہوا. ان رسائل کو مذہب سے متصادم قرار دے کر ضبط کیا گیا اور جلایا گیا. ان پہ پابندیاں لگائی گئیں لیکن یہ پھر بھی کسی نہ کسی طرح موجود رہے. ایک ہزار سال کے زمانی فاصلے کے بعد آج ان رسائل کی حیثیت محض تاریخی رہ گئی ہے پھر بھی اسلام کی علمی وعقلی روایت کو سمجھنے کے لیے ان رسالوں پہ آج بھی کام ہو رہا ہے. دنیا کی مختلف زبانوں میں ان کا ترجمہ ہو چکا ہے. ساٹھ کی دہائی میں اسماعیلی ایسوسی ایشن کراچی نے ان رسائل کو اردو میں ترجمہ کرنے کےیے جون ایلیا کی خدمات حاصل کیں جنہوں نے یہ ذمہ داری بطریق احسن نبھائی لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پہ وہ ترجمے ابھی تک سامنے نہیں آسکے. مضمون کا اختتام جون ایلیا کے ان الفاظ سے کرتے ہیں جو انہوں نے اخوان الصفا کی نمائندگی کرتے ہوئے لکھے ہیں.
"ہم نادیدہ افقوں سے اٹھنے والے بادلوں کا انتظار کر رہے ہیں کہ ہمیں سمتوں کو دھونا تھا۔آبشاروں سے ہزاروں چھتنار پیڑوں اور پودوں کو دھونا تھا جو تاریخ کی گرد افشانی سے آلودہ ہیں۔ تمہارے اور اپنے آنسووں سے بے سود گلہ مندیوں کے چہروں کو دھونا تھا۔ شاخوں کو اور صدہا سال سے ان کی جنبشوں کے آہنگ پر چہچہانے والے پرندوں اور ان کے پروں اور ان کے منقاروں کو دھونا تھا۔ ہواوں اور شعلوں کو دھونا تھا۔ بادلوں میں کوندتی ہوئی بجلیوں کو دھونا تھا۔ ہمیں اس دنیا کو دھونا تھا جس میں ہماری آج کی تاریخ کی نسلیں سانس لیتی رہی ہیں۔ ہمیں یزداں، اہرمن اور انسان کو دھونا تھا۔ مگر کچھ بھی نہ کرسکے”۔