کالمز

جعفر شاہ کے 10مطالبات،شمس میر کے 20سوالات

تحریر: سید تنویر حسین

گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر سید جعفر شاہ نے چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کے نا م ایک خط لکھاجس میں انہوں نے اپنے دورہ استور اور بلتستان ریجن کے موقع پر عوام کی جانب سے کئے گئے مطالبات اور شکایات سے آگاہ کیا۔ مطالبات  میں استور میں عید گاہ،گوریکورٹ اور چھونگڑہ لنک روڈ کی تعمیر،شونٹر پاس کے لئے فنڈز مختص،کے آئی یو کیمپس کا قیا م،سکردو میں نئے بس سٹینڈ کے پاس پولیس اسٹیشن کا قیام،غواڑی میں 10بیڈ کا ہسپتال اور 30میگاواٹ منصوبے کے لئے فنڈز کی فراہم،خپلو میں بلتستان یونیورسٹی کے کیمپس شامل ہیں۔ چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کے نام لکھے گئے خط کی کاپی منسٹر پی اینڈ ڈی،وائس چانسلر کے آئی یو،وائس چانسلر بلتستان یونیورسٹی اور آئی جی پی کو ارسال کر دی گئی ہے۔جعفر شاہ کے دس مطالبات سامنے آنے کے اگلے ہی روز مشیر اطلاعات گلگت بلتستان شمس میر نے رد عمل دیتے ہوئے جعفر شاہ پر صوبائی حکومت کے خلاف استعمال ہونے کا الزام لگا دیا۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے جعفر شاہ کے دس مطالبات کے بدلے انہوں نے مرکزی حکومت سے 20سوالوں کے جواب مانگ لئے ہیں۔مشیر اطلاعات نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت بتائے گلگت بلتستان کی 10ہزار نئی آسامیوں کو منسوخ کیوں کیا گیا؟ گلگت بلتستان کونسل کے فنڈز کیوں ہڑپ کیا؟چھ بڑے ہسپتالوں کی تعمیر کے منصوبے کو وفاقی ترقیاتی پروگرام سے کیوں کاٹا گیا؟کے آئی یو کے 5 کروڑ روپے فنڈز کیوں کاٹے؟سی پیک میں گلگت بلتستان کی نمائندگی کیوں ختم کی گئی؟گلگت بلتستان کے ترقیاتی بجٹ 19ارب روپے سے کم کر کے 13ارب کیوں کیا گیا؟کے آئی یو،غواڑی پن بجلی منصوبہ،عطاء آباد ہنزہ پن بجلی منصوبہ،کے آئی یو اور چھلمش پن بجلی منصوبے کو وفاقی ترقیاتی منصوبوں کی لسٹ سے کیوں نکالا گیا؟نواز شریف کا دیا گیا شونٹر روڈ،استور منصوبہ وفاقی ترقیاتی پروگرام سے کیوں آوٹ کیا گیا؟گلگت میڈیکل کالج کو کیوں التواء کا شکار کیا؟ گلگت سیورج منصوبے کے فنڈز وفاقی ترقیاتی پروگرام سے کیوں کاٹے گئے؟ہینزل پاور منصوبہ کی تعمیر میں تاخیری حربے کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ وزیر اعظم نے دیامر بھا شا ڈیم کی ادائیگیوں کے 25ارب روپے کس کھاتے میں مہمند ڈیم کو بخش دئیے؟گلگت بلتستان کے طلباء و طالبات کے لئے لیپ ٹاپ سکیم اور یونیورسٹی کے پانچ کروڑ گرانٹ ختم کر کے یونیورسٹی کو مالی مشکلات سے دو چار کیوں کیا گیا؟  بلتستان یونیورسٹی کو ایوارڈ یافتہ فنڈز فراہم نہ کر کے عدم استحکام سے دو چار کیوں کیا جا رہا ہے؟شاہراہ قراقرم اور ہنزہ کے متاثرین کی ادائیگیوں کے لئے وفاقی حکومت فنڈز کیوں فراہم نہیں کر رہی؟گلگت بلتستان سپریم اپلیٹ کورٹ میں ججز کی تعیناتیوں میں جان بوجھ کر وفاقی حکومت کیوں تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے؟سول سروس ریفارمز میں گلگت بلتستان کے اعلیٰ آفیسرز کو ملک میں مواقع کیوں نہیں دئیے جا رہے ہیں؟ گلگت بلتستان کے انتظامی نظام میں نئے اضلاع کے قیام کے خلاف وزیر اعظم اور پی ٹی آئی حکومت کیوں سازشیں کر رہی ہے؟وزیر اعظم وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کو ایک بار پھر با اختیار بنانے کے مذموم عزائم کیوں رکھتے ہیں؟ وفاقی حکومت گلگت بلتستان کو فیڈریشن کا باقاعدہ حصہ بنانے اور سر تاج عزیزکمیٹی اصلاحات سے کیوں نظریں چرا رہی ہیں؟مشیر اطلاعات شمس میر نے وفاقی حکومت سے ان سوالوں کا جواب مانگ لیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سوالوں کے جواب میں وفاقی حکومت کا کوئی وزیر یا پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان کے صوبائی قیادت کی جانب اسے اس حوالے سے کیا رد عمل سامنے آتا ہے۔شمس میر کے 20سوالوں اور جعفر شاہ کے دس مطالبات کے بعد عوام میں تشویش کی ایک نئی لہر دوڑ چکی ہے۔عوام حیران و پریشان ہیں کہ ایک جماعت جو بر سر اقتدار ہے اس کے صوبائی صدر صوبائی حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے جبکہ صوبے میں قائم حکومت کے صوبائی وزیر خود کو بے بس ظاہر کر کے وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کے صوبائی قیادت سے سوالات پہ سوالات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔عوام پریشان ہے کہ آخر وہ سوال کرے تو کس سے کرے صوبائی حکومت وفاق کے سامنے بے بس ہے اور بر سر اقتدار جماعت کے صوبائی صدر صوبائی حکومت کے سامنے مطالبات رکھ رہا ہے جبکہ صوبائی حکومت مطالبات کے بدلے سوالات سے کام چلا رہی ہے۔اگر صورت حال یہ ہو تو عوام کو مایوسی کے سواء کچھ نہیں ملتا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی سیاستدان ذاتی اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر سب سے پہلے علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر کام کریں۔گلگت بلتستا ن میں بہت سے ایسے مسائل موجود ہیں جنہیں ملکر کر حل کیا جا سکتا ہے علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے پارٹی بازی سے بالاتر ہو کر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔بد نیتی اور ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کا انجام یقینا براہوتا ہے۔ہمیں امید ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی قائدین اور خاص طور پر گورنر گلگت بلتستان راجہ جلال حسین مقپون ان چند ماہ میں صوبائی حکومت کے ساتھ ملکر علاقے کی ترقی کے لئے کام کرینگے اور اپنے کئے ہوئے وعدے کے مطابق وفاق اور صوبے کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرینگے۔دیگر صورت ایک سلسلہ ایک دوسرے کو نیچ دیکھانے اور ایک دوسرے کو نا کام کرنے کا ہی رہا تو اس کا نقصان علاقے کو ہو گا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدھے راستے پر گامزن رہنے کی ہدایت دے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button