کالمز

یو م سوگ

تحریر : شہزاد حسین الہامی

بابوسر بس حادثے کے بعد سوشل میڈیا اور الیکٹرونیک میڈیا میں خبر جنگ میں آگ کی طرح پھیل گئی اور پورے گلگت بلتستان سمیت پورے ملک کی فضا میں سہوگ کا عالم چھا گیا ۔ ابتدائی معلومات جو سوشل میڈیا کے زریعے دیکھنے کو ملی کہ مشہ بروم کی بس جو سکردو سے روالپنڈی کی طرف جا رہی تھی بابو سر کے قریب حادثے کا شکار ہوئی اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق 26افراد اس حادثے میں جان کی بازی ہار گئے جب کہ 12کے قریب افراد اس حادثے میں زخمی ہوئے ہیں جاں بحق ہونے والوں میں بچے خواتین سمیت پاک فوج کے جوان بھی شامل ہیں ۔ اس حادثے کے بعد بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے ، گزشتہ دنوں بھی ضلع غذر کی بس کو بھی حادثہ ہوا تھا اور کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہوا تھا قوم اس حادثے کو بھول نہیں پائی تھی کہ آج یہ دوسرا المناک حادثہ رونما ہوا ۔ گلگت بلتستان میں آئے روز اس قسم کے حادثے رونما ہوناروز کا معمول بن چکے ہیں ،گلگت بلتستان سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں عوام اس روڑ سے سفر کرتی ہے جو کہ اب موت کا کنواں بن چکا ہے ۔ سب سے پہلے اس روڑ کی حالت کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے مگر گزشتہ دورے حکومت میں اس روڑ کو بہتر بنانے کے لئے کام ہوا اس کے بعد اس روڑ کو مزیدبہتر بنانے کے لئے کام کرنے کی ضرورت تھی مگر اس پر کوئی منصوبہ نہیں ،سی پیک منصوبے کے بعدخطے کی عوام خوش تھی کہ اس سی پیک کی وجہ سے یہ شاہراہ مزید بہتر ہوگئی مگر اس پر گزشتہ کئی سالوں سے کوئی کام نہیں ہو سکا ، ساتھ ہی نہ ہی موجودہ حکومت کے پاس کوئی منصوبہ زیر غور ہیں ، گلگت بلتستان کی آبادی بیس لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہے اورگلگت بلتستان کا وفاق کے ساتھ رابطے کا واحد راستہ یہی روڑ ہے اس کے علاوہ بھی دیگر منصوبے ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت تھی مگر پی ایس ڈی پی میں ان منصوبوں کو شامل نہیں کیا گیا ، زیر غور منصوبوں میں غذر تا چترال روڑ اور استور سے آزادکشمیر شنٹر پاس منصوبہ بھی زیر غور تھا مگر وفاق کی جانب سے ان دونوں منصوبو ں کو شامل نہیں کیا گیا جو کہ خطے کے عوام کے ساتھ سنگین مذاق کے مترادف ہیں ،گلگت بلتستان کی عوام اور سیاسی جماعتوں کو چاہیں کہ وہ خطے کی تعمیر وترقی کے لئے مشترکہ طور پر کام کریں تاکہ گلگت بلتستان ترقی کی طرف گامزن ہو سکے ۔ یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ گلگت بلتستان میں عوامی کو سفر کرنے کے متبدل راستوں کے ساتھ ساتھ آمدرفت کے دیگر زراءع جہاز اور ٹرین سروس کے منصوبے بھی علاقے میں ہونے چاہیں مگر افواس کے ساتھ کہنا پڑا رہا ہے کہ گلگت بلتستان میں صرف پی آئی اے کی اب تک اجارہ داری قائم ہے جو کہ گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ نا انصافی کے مترادف ہے پورے ملک میں نجی ائیرلائن سروس جاری ہے جب کہ گلگت بلتستان میں صرف پی آئی اے کے علاوہ کسی بھی نجی سروس نہیں ہونا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ، گلگت ائیرپورٹ کو مزید بہتر اور بڑا بنانے کے اعلانات سابق دورہ حکومتوں میں ہوا مگر آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا اور موجودہ ائیرپورٹ کی زمینوں کی اب تک عوام کو معاوضہ نہیں ملنا بھی عوام کے لئے باعث تشویش ہیں ،پی آئی اے کے ساتھ ساتھ دیگر ائیرلائن کمپنیوں کو بھی گلگت بلتستان میں سروس چلانے کی اجازت دینی چاہیں تاکہ عوام کی مشکلات میں کمی آئے اور ساتھ ہی سیاحت کو بھی فروغ ملے سکے ۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں ٹرین سروس کے لئے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے ، گلگت بلتستان میں اب تک ٹرین سروس کا کوئی وجود نہیں ، ٹرین سروس سے ایک طرف عوام کو سفر کرنے میں آسانی ہوگئی تو دوسری طرف چین سے سرمایہ کاری کرنے والے تاجر برادی کی مشکلات بھی کم ہونگی ،بات ہو رہی تھی بابو سر حادثے کے بعد صورت حال کی تو حادثے کے بعد دیامر کے عوام اورپاک فوج کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے بروقت امدای کاموں میں حصہ لیا اور زخمیوں کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ دیامر کے عوام نے ہسپتال میں زخمیوں کے لئے خون کے عطیات دیں جو کہ قابل تعریف ہے ،دیامر کے عوام مہمان نواز ہیں مگر اس حادثے کے بعد دیامر کے عوام نے ثابت کر دیا کہ وہ ایک زندہ قوم بھی ہے ، اس حادثے کے بعد پاک فوج کی جوانوں نے امدای کاموں میں حصہ لیا اور خود فورس کمانڈر ایف سی این اے احسان محمود نے موقع پر پہنچا کر زخمیوں کو اور جان بحق ہونے والوں کو گلگت منتقل کر دیا جس پر گلگت بلتستان کی عوام فورس کمانڈر کو خراج تحسین پیش کرتی ہے ،فورس کمانڈر گلگت بلتستان کے عوام کے لئے مسیحا کی حثیت رکھتے ہیں ، قارئین کو یاد ہو گا گزشتہ حادثے میں بھی فورس کمانڈر موقع پر پہنچ گئے تھے اور زخمیوں کو فوری طور پر سی ایم ایچ منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ زخمیوں کا سی ایم ایج میں فری علاج کا اعلان بھی کیا تھا ، اس حادثے میں بھی فورس کمانڈر رسیکیو1122کی طرح فوری طور پر حادثے کے مقام پر پہچا گئے اور فورس کمانڈر نے رسییکوالہکار کی طرح خود امدادی کاموں میں حصہ لیا اور زخمیوں کو اپنے ساتھ بیٹھا کر گلگت منتقل کر دیا ، فورس کمانڈر ایف سی این اے نے گلگت بلتستان میں کم عرصے میں عوام کے دلوں کوجیت لیا ہے ۔ ہماری دعا ہے کہ فورس کمانڈر گلگت بلتستان کی عوام کی اسی طرح خدمت کرتے رہے ، آخر میں اس امید کے ساتھ اجازت چاہوں کہ گلگت بلتستان کی موجود حکومت اور وفاقی حکومت گلگت بلتستان کے عوام کے لئے متبادل سفری زراءع اور سٹرکوں کو بنانے اور موجودہ شاہراہ کو مزید بڑا اور بہتر بنانے کے لئے سنجیدہ اقدمات کرینگے تاکہ آئیندہ اس قسم کے حادثوں میں کمی آئے اور ساتھ ہی اس روڑ پر چلنے والی بسوں کی کنڈیشن سمیت پی آئی اے کے طیاروں کی کنڈیشن پر بھی توجہ دینگے اور دیگر ائیرلائن کی کمپنیوں کو بھی گلگت بلتستان میں سروس شروع کرنے کے لئے اقدامات کرینگے اور ساتھ ہی رسییکو1122کے ادارے کو مزید فعال اور مستحکم کرنے کے لئے بھی اقدمات کرینگے جب بھی کہیں پر کوئی حادثہ ہوا رسیکیو کے ملازمین بروقت پہنچا جاتے ہیں مگر گزشتہ تین ماہ سے ان ملازمین کو تنخواہیں نہیں ملی حکمران اس طرف بھی توجہ دینگے

آخر میں گلگت بلتستان کی عوام سے ایک اپیل بھی ہے کہ جب بھی کہیں پر اس قسم کا حادثہ ہو تو فوری طور پر زخمیوں خصوصا بچوں اور خواتین کی تصویریں سوشل میڈیا میں وائر کرنے سے اجتناب کریں ، حادثے میں زخمی او ر جان بحق ہونے والوں کے اہل خانہ اور لواحقین کے سامنے جب اس قسم کی تصویر پہچا جاتی ہے تو پھر ان کی حالت کیسی ہو گئی اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں ،

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button