کالمز

بڑھتی ہوئی خود كشیاں اور ان كا سدباب

تحریر : حافظہ علی

سمجھ نہیں آتا خود كو بے موت مارنے والے غلط ہیں یا ان كو مرتے هوئے دیکھ تماشا دیکھنے والے۔ اس طرح کی صورتحال ہوگٸی ہے کہ انسانی عقل دنگ ره جائے۔ اب ذرا اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ ہم ذیادہ جدید ہو گٸے ہیں یا ہماری سوچ ذیادہ پرانی۔ بڑی کشمکش سے گزر رہی ہوں خود کو ہی اندر سے کھوکھلا محسوس کر رہی ہوں۔ یہ سوچ کے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، ایسے معاشرے میں جہاں ظلم اور جرم دیکھ کر آنکھیں بند کرکے برداشت کرتے ہیں لیکن مجال ہے کوٸی اس وحشیانہ طرز کو روکنے کی کوشش کرے یا اور پھر جو انسان اس چیز کو برا سمجهے، ہمارا معاشرہ اس انسان کو برا سمجھتا ہے جو ظلم اور جرم کے خلاف بات کرتا ہے ہمیں أس ظلم سے زیادہ أس انسان سے مسلہ ہوتا ہے ، جو اسطرح كے مسائل اور معاشرتی خرابیوں كی نشاندہی كرتے ہیں۔

خود سوچیں کیا ہم اتنے کھو گٸے ہیں اس کھوکھلی دنیا میں کہ اب ہمیں کسی چیز کی اہميت نہیں رہی یہاں تک کی انسانی ذندگی کی بھی نہیں؟ أمیدد ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے معمول کی زندگی گزارنے کے لیے کافی ہوتی ہے، کیا ہمارے پاس امید تک باقی نہیں رہی جس کے چلتے ہم خودکشی جیسے حرام فعل اختیار کر رہے ہیں؟ سمجه نہیں آتا ہم آٸے دن خودکشی کیوں کر رہے۔ کیا ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم سب ایک دن اس طرح وحشیانہ مر کر ختم ہو جاٸیں اور دنیا کے لیے اپنی ایک دستور، ایک مثال قائم کر کے جانا چاہتے ہیں؟ یہ کہ دنیا ہمیں خودکشی کرنے والی قوم کی حثیت سے یاد کرے ۔ ہم کیوں ان سب کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ پہلے خود کو خود کشی کرنے سے تو روک لے۔ اگر معاشرے میں ایک بہن خودکشی کرتی ہے تو کیوں ایک ماں ،ایک باپ، ایک بھاٸی اپنی بیٹی ،بہن سے کیوں یہ نہیں پوچھتا کہ کیا آپ کو بھی کوٸی مسلہ تو نہیں ہے؟ کیا آپ اپنے ذندگی کے حالات سے خوش ہیں؟۔ کیا آپ میں سے کسی نے یہ پوچها ہے؟ یہ بظاہر چھوٹی بات نظر آرہی لیکن یقين جانیں یہ چھوٹا سے اقدام بہت موثر ثابت ہوسکتا ہے، خود کو اور دوسروں کو اس جاہلانہ فعل سے روکنے کے لیے۔ جب ایک بیوی اپنے شوہر کو اور شوہر اپنی بیوی کو سمجهے گا تو کیوں ہوگی اس طرح کا احمقانہ کام معاشرے میں۔ جب ایک انسان خود کو خوش دیکھ اپنے پڑوسی کی پریشانی کی وجہ دریافت کرنے کی کوشش کرے تو کیوں کوٸی بے موت مرے گا۔ ہمیں اس بات کو سمجهنا ہو گا کوٸی بھی مجبوری ، نا امیدی کسی معصوم جان سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی۔ یہاں ہمیں توجہ مسلے کے حل پہ کرنا چاہٸے نہ کہ خود کی جان لینے کے کوشش کرنا۔ لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنا بھی وقت نہیں ہے کہ ہم خود کو سمجهے ، اپنے ساتھ والے انسان کو سمجهے، بےغافل چلتے جاتے ہیں ۔ خود كشی ایک شعوری اور لاشعوری سوچ كا وه درمیانی راسته ہے جو معاشرتی بے حسی اور آپس میں ایک دوسرے كے جذبات كی قدر نه كرنے اور جبر كی صورت میں ہی وقوع پزیر ہوجاتاہے ۔

چھوڑ دے یہ حکومت ، قانون ، ادارے جو خودکشی کے روک تھام کے لیے کام کر رہیں ہے یا نہیں اس بات سے ہمیں کوٸی واسطہ نہیں ہونا چاہے ہے بلکہ ہمیں یہ سوچنا چاہٸیے کہ ہم خود کیا کر رہے۔ کسی کو روٹی، کپڑا، مکان فراہم کرنا کافی نہیں ہوتا، دینا ہے تو أس کو اپنا وقت دو ، کسی کی احساسات کو سمجھو، سب سے اہم بات اس کو انسان سمجو۔ خدا کا واسطہ الللہ اور رسول کو مانتے ہو تو ڈنڈھورا پیٹنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی دعوے کرنے کی ضرورت ہے، ضرورت ہے تو صرف اس بات کی ہے کہ ہم الللہ اور رسولﷺ کے بتائے ہوٸے احکامات پر کتنا عمل کر رہیں ہیں، جسں میں خودکشی حرام قرار دیا ہے ۔ جب کہ ہم اپنی مشکلات کا حل اس حرام فعل کو سمجهتے ہیں۔ اپنے اور اپنے بچوں کے درميان اتنا فاصلہ رکھنا چاہٸے کہ بچے خود کے ساتھ ہوئے ہر أس چھوٹی سی چھوٹی اور بڑی سے بڑے حادثے کا ذکر سب سے پہلے والدین سے کرے۔ اس لیے کہ جب بچوں کو حادثات پیش آٸے تو ماں باپ ان کے راستہ نہ بٹکنے کی وجہ بنے۔

اپنے بچوں کو امتحان میں ٹاپ کیسے کرنا ہے یہ سیکھنے کے بجاۓ ان کی ذندگی آپ کے لیے کتنی اہم, کتنی عزیز ہے یہ سمجهنا چاہئے، جب وہ امتحان میں ناکام ہو جائے تو أس بے بسی کے عالم میں اپنے ماں باپ کی سیکھائی ہوئی سیکھ أن کے لیے اُمید کی کرن بنے اور وہ خودکشی جیسے فعل سر انجام دینے کے بجاۓ خود کا حوصلہ بن سکے۔

اپنی بیوی کو انسان سمجهے، رشتہ احساسات پہ مبنی ہونا چاہٸے ، شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کا حوصلہ بننا چاہٸے، نہ کہ ایک دوسرے کی جان لینے کی وجہ بنا چاہٸے، اس پیارے سے رشتے کو احساسات پہ قائم رکھنا چاہٸے نہ ہی زور زبردستی پہ ۔ بچوں کے لیے ماں باپ الللہ کی رحمت ہے بچوں کو اپنے ماں باپ سے عاجزی سے پیش آنا چاہٸے اور ماں باپ کی امیدوں کو اور ان کے توقعات کو سمجھنا چاہٸے۔

ایک ہی جگہ رہنے والے جانوروں میں بھی اتحاد اور رحم ہوتا ہے۔ کیا ہم اشرف الا مخلوقات ہو کے بھی ایک دوسرے کے لیے احساسات کو نہیں سمجھ سکتے ہیں؟ ایک انسان کے خودکشی کرنے کے بعد، ایک اانسان کی مجبوری أس کو مرنے پہ مجبور کرتی ہے اور اس کے بعد افسوس کرنے کا کیا فاٸدہ؟ جب کہ وقت رہتے ان سے ان کا حال جانے کی کوشش کرسکتے تھے ۔ ایک ہی معاشرے میں رہنے والے انسان ہے ہم اشرف الامخلوقات ہیں ہم ، مسلمان ہیں ہم ،کیوں نہ اس معاشرے کو ایک ساتھ لے آگے بڑھے ہم سب ۔ دور کرنا چاہٸے یہ دریا، پانی، آگ، بندوق اور گولی وغیرہ جن کے ذریعے انسان اپنی جان لیتا ہے اور ان سب مساٸل اور مشکلات کو محبت، پیار ، قبولیت، افہام و تفہیم، اتحاد، اتفاق اور انسانيت سے تبدیل کریں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button