کالمز

انسانی حقوق کا عالمی دن اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی زمہ داریاں

تحریر: رجب علی قمر

دنیا بھر خٰاص کرترقی پذیر ممالک میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اور وسائل کی کمی کے باعث جہاں جرائم میں اضافہ ہوتا ہے وہاں انسانی حقوق کے مسائل بھی درپیش ہیں۔ترقی پذیر ممالک میں حکومتوں کی کمزور پالیسیوں اور ناانصافیاں انسانی حقوق کی پامالی کاموجب بن جاتی ہیں۔اقوام متحدہ دنیا کے مختلف ممالک کا عالمی فورم ہے دنیا کے مسائل اور حکومتوں کی کارکردگیوں پر گہری نظرہوتی ہے۔کرہ ارض میں ہونے والی تبدیلیوں،بین الاقومی قوانین،عالمی انصاف،دنیا بھر میں پیدا ہونے والے تناضات سمیت دیگر شعبوں میں ممبرممالک کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تھا اس وقت دنیا کے زیادہ تر ممالک اقوام متحدہ کے ممبر ہیں۔اقوام متحدہ نے اپنے قیام سے اب تک بین الاقومی سطح پر قوانین ترتیب دیے تاکہ دنیا بھر کے مختلف مقامات میں ہونے والے تناضات کا خاتمہ کیا جاسکے۔اقوام متحدہ بین الاقومی سطح پر ایسے قوانین کا اجرا کررہی ہے جوکہ تمام ممبر ممالک کے لیے قابل قبول اور ان ممالک کو ان قوانین کا ہر حال میں احترام کرنا ہوتا ہے۔لیکن اقوام متحدہ نے اب تک ایسے کارہائے نمایاں انجام نہیں دیا جس سے اقوام متحدہ کے ترقی پذیر ممبر ممالک کو فائدہ حاصل ہو۔ اور ان کے دیرینہ تناضات حل ہوں۔ دنیا بھر کے ممالک کی طرح پاکستان بھی اقوام متحدہ کا ممبر ملک ہے اور پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے تمام چارٹرز اور قوانین پر من وعن عمل درآمد کیا ہے اور اپنے ملک میں عمل درآمد کو یعقنی بنایا ہے۔اسی طرح انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر کے ایسے جن ممالک میں شامل ہے جہاں انسانی حقوق کی مکمل پاسداری کی جاتی ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کو ملکی قوانین میں ممتاز حثیت حاصل ہے اور اقوام متحد ہ کے چارٹر سے ہم آہنگ انسانی حقوق پر مکمل عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے قوانین کے مطابق انسانی حقوق کے سرکاری سطح پر کارہائے نمایاں انجام دیا گیا ہے اورملک میں متعدد غیر سرکاری تنظمیں بھی اس سلسلے میں بھرپور انداز میں کام کررہی ہیں پاکستان کے کونے کونے میں انسانی حقوق کے حوالے سے تنظمیں کام کررہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹرز پر پاکستان مکمل عمل درآمد کررہا ہے لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان مسلہ کشمیر گزشتہ ۲۷ سالوں سے اقوام متحدہ کے زرئعیے حل طلب مسلہ ہے لیکن اقوام متحدہ اب تک بھارت کو مجبور نہیں کرسکا کہ وہ اقوام متحدہ کے قرار داوں کی روشنی میں کشمیر میں رائے شماری کرائے۔ کشمیرکے مظلوم اور محکوم عوام ۷۲ اکتوبر ۷۴۹۱ سے اب تک کشمیر میں غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں اور اب تک دنیا بھر میں کئی چھوٹے ممالک نے آزادی حاصل کیں لیکن کشمیر کے عوام اب بھی اپنی آزادی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں لیکن اقوام متحدہ اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کشمیر کے حوالے سے مسلسل خاموشی اختیار کررکھی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں اب تک بھارتی افواج نے لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا ہے اور ہزاروں عورت کی عصمت دری کرچکی ہے بچوں کی بھاری تعداد کو قید کیا گیا۔بھارتی حکومت نے کشمیر کے عوام کی تحریک آزادی کو دبانے کے لیے عرصہ دراز سے فوجوں کی بھاری تعداد کو کشمیر میں رکھا ہوا ہے۔اس سال پانچ اگست کو بھارت نے کشمیر کو اپنا مکمل ناجائز حصہ بنانے کے لیے اپنے آئین سے ان شقوں کو بھی نکال باہر کردیا جس میں کشمیر کو خصوصی حثیت حاصل تھی اور گزشتہ چار ماہ سے کشمیریوں پر عرصے حیات تنگ کردیا گیاہے۔ پوری وادی گزشتہ چار ماہ سے لاک ڈاؤن ہے اور جدید سہولیات، انٹرنیٹ،موبائل اور یہاں تک کہ لینڈ لائن ٹیلفونوں کا رابط بھی منقطح کر دیا گیاہے کشمیر کے تمام گلی کوچوں میں بھارتی حکومت کی طرف سے آٹھ لاکھ سے زیادہ فوجی تعینات ہیں۔ کشمیری بچے سکول نہیں جاسکتے،بیمار ہسپتال نہیں پہنچ سکتے اور خوراک کی قلت کا مسلہ الگ درپیش ہے اور شدید سردی میں لوگوں کو الگ مشکلات درپیش ہیں۔ عصر حاضر میں سب سے زیادہ مشکلات کشمیری عوام کو ہیں لیکن اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کے انسانی حقوق کے ادارے مکمل خاموش ہیں اور بھارتی حکومت پر ان ممالک کی طرف دباؤ بڑھانے کے لیے موثر کام نہیں کیا گیا۔بھارتی حکومت کھل کروادی کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کی مرتکب ہورہی ہے۔ اور کشمیری عوام نہایت بے سرو سامانی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ تین دھائیوں میں کشمیر میں جاری تحریک میں نہایت شدت پیدا ہوئی ہے اور تحریک آزادی کشمیر میں شامل نوجوان کشمیریوں کا مطالبہ ہے کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک اور انسانی حقوق کی تنظمیں کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کا نوٹس لے اور بھارت اپنے وعدے کے مطابق کشمیری عوام کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے لیے رائے شماری کرائے تاکہ کشمیری عوام اپنا مستقبل کا فیصلہ خود کرسکے۔ کشمیری عوام نے ہمیشہ اپنا مستقبل مملکت خداداد پاکستان سے وابستی کررکھی ہے اور پاکستان کو اپنی منزل سمجھتے ہیں۔ بھارتی حکومت کی کوشیش ہے کہ کشمیریوں کا قتل عام کرکے کشمیر میں ہندوؤں کو بھاری تعداد میں بسایا جایا جس طرح مقبوضہ فلسطین میں یہودیوں نے فلسطینوں کو بے دخل کرکے دنیا بھر کے یہودیوں کا آباد کرایا گیا ہے۔ بھارتی حکومت بھی اس فارمولے کے تحت کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کررہی ہے۔ لیکن کشمیر میں جاری تحریک حریت آزادی کو بھارتی حکومت دبانے میں مکمل ناکام رہی ہے لاکھوں کشمیریوں کو موت کے گھاٹ میں اترانے کے باوجود تحریک آزادی کشمیر اسی جذبے سے جاری و ساری ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں اور ان کے حق کے لیے ہمیشہ آواز بلند کرتے رہینگے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button