کروڑ پتی بچہ اور خیمہ دارکُتے کی کہانی
زیرنظرتصویریں حالیہ دنوں گلگت بلتستان میں آنے والے زلزلے سے متاثرہ ایک گاوں کی ہیں، جو گزشتہ دنوں مذکورہ علاقے میں آفت سے متاثرہ آبادی کی درجہ بندی کے دوران موبائل کی آنکھ سے محفوظ کی گئی ہیں۔
پہلی تصویر ایک دس سے بارہ سالہ بچے کی ہے ۔ بچے نے پاوں میں پاسٹک کے جوتے بغیر جراب کے پہن رکھے ہیں۔ اوپر سے ہلکی پھلکی برف اور کیچڑ باآسانی پاوں میں داخل ہوتی نظرآرہی ہے۔ حیرت کی بات تو یہ کہ ماہ جنوری کی خون جمادینے والی سردی میں برفیلے پہاڑوں سے اٹھنے والی تندوتیز ہواوں کے باوجود بچہ ہلکے سے بنیان میں سینا تان کر ایسےگھوم رہا ہے جیسے برفانی چیتا شکار کے لئے نکلتا ہو۔
قدرتی آفت کے نقصانات کا جائزہ لینے دردرکی ٹھوکریں کھانا ہمارا فریضہ تھا لیکن بچے نے بھی کافی فاصلے سے ہمارا پیچھا نہ چھوڑا۔ وہ دل ہی دل میں کوئی حسرت لئے بیٹھا تھا جو ہم سے شئیر کرنے کے لئے کسی خاص موقع کی تلاش میں تھا۔ ایک ڈھلوان سی جگہ پر میں قدرے آہستہ چلا تو بچے نے پکڑہی لیا۔
"چچا ہمارا نام بھی لکھوناں”۔ بچے نے انتہائی عاجزانہ گزارش کردی تو قدم رُک گئے۔ پیچھےمڑکردیکھا تو بچے کے چہرے پر خاموش مسکراہٹ طاری تھی۔ ساتھ میں کچھ لڑکے بھی نظر آئے۔ ٹھٹھرتی سردی اور بھوک سے نڈھال دل بہلانے کے لئے میں بھی بچوں میں گویا ہوا۔ تعارفی کلمات کی ابتدا اسی بچے سے ہوئی مگر نام یاد نہ رہ سکا۔ بچہ سرکاری نہیں گورنمنٹ اسکول میں جماعت دوئم کا طالب علم ہے۔ انگریزی، اُردو کے حروف تہجی زبانی حفظ ہیں، ریاضی پر بھی عبورحاصل ہے جس کا اندازہ آگئے کے سطور میں آپ بخوبی لگا پائیں گے۔
بچہ ضد کررہا تھا کہ ہم ان کے والد گرامی کا نام متا ثرین کی فہرست میں قلمبند کریں۔ آخرکار میں نے اس ضد کی وجہ پوچھی۔ کہنے لگا چچا ہمیں بھی تو کچھ ملے گا ناں۔ میں نے استفسار کیا مثلاًکیا ملے گا۔ بچہ بولا مثلاً ٹینٹ۔ بچے کے اس جواب پر دوسرا ساتھی چونک کر بولا چچا اس کے باپ کے پاس ڈیم کے پیسے بے تحاشہ ہیں۔ وہ دیکھو اس کا گھر کہہ کر آگے ایک عالیشان کوٹھی کی طرف اشارہ کیا۔
اتنے میں ہماری ٹیم کے دیگر ساتھی بھی پہنچ گئے جو تھوڑے سے فاصلے پر کچھ گھروں کی اسسمنٹ کرنے گئے تھے۔ چند قدم آگے چلے ہی تھے کہ بچے کے ایک ساتھی نے اس عالیشان کوٹھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ اس کا گھر ہے۔ ہماری ٹیم میں شامل مقامی رضاکار بچے کے مطالبے پر ہنس پڑے مگر ہم بچے کو تسلی دینے کے لئے گھر کا جائزہ لینے پہنچ گئے۔ وللہ ! چاردیواری پر بھی کوئی دراڈ پڑی ہو تو۔ مطالبہ ناممکنات میں سے تھا لہذا ہم نے بچے سے معذرت کرکے اپنا راستہ لے لیا۔
بچے نے پھر بھی ہمارا پیچھا نہ چھوڑا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر ضدکرنے لگا کہ ان کے والد کا نام ضرور درج کیا جائے، انہیں ٹینٹ کی اشدضرورت ہے۔ ہم نے سوال کیا کہ والد صاحب کو ڈیم کے پیسے کتنے ملے تھے؟ بچہ تو پھر بچہ ہوتا ہے، سیدھے سادھے الفاظ میں بولے نوے لاکھ کی کوٹھی بنائی، ایک لاکھ روپے کسی رشتہ دار کو امانتاً دیئے گئے ہیں۔ باقی صرف ایک کروڑ ساٹھ لاکھ روپے رہ گئے ہیں۔ بچے کی اس تفصیل پر ہماری ہنسی نکل آئی اور خداحافظ کہہ کر روانہ ہوئے۔
اب آتے دوسری تصویر کی طرف۔ شام ڈھلتے ہی ہم شاہراہ قراقرم پر واقع ایک ہوٹل پہنچ گئے۔ ابھی کھانا کھارہے تھے کہ ایک بزرگ تشریف فرما ہوئے۔ عرض کیا یہاں ساتھ ہی ایک گھر کو زلزلے کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا ہے اور اوپر تو بُرا حال ہے۔ کھانے سے فراغت پر ایک ساتھی بزرگ کے ساتھ قریبی محلے کا جائزہ لینے گیا۔ واپسی پر بزرگ اپنی کار لئے اوپر گاوں کی جانب ہم سفر ہوئے۔
اوپر والے گاوں میں کچھ گھرانوں کو واقعی میں نقصان پہنچا تھا جن کو ہم نے بغور جائزہ لینے کے بعد نقصانات کی فہرست میں شامل کیا۔ آگے چل کر بزرگ نے بھی بچے والی حرکتیں شروع کردیں۔ ایک ایسے گھر لے گیا جس کا کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔ ادھر ادھر جھانکا مگر کہیں پر بھی کوئی نقصان نظر نہیں آیا۔ اتنے میں گھرکا مالک نمودار ہوا۔ بولا جناب زلزلے کے باعث اس قدر نقصان ہوا کہ ایک کمرہ تو رہنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ استفسار کیا باقی کتنے کمرے سلامت ہیں؟ بولا تین کمرے۔ "اور وہ سامنے والا مکان کس کا ہے” ؟ ہم نے بات کو آگے بڑھا کر پوچھا۔ جواب دیا وہ بھی میرا ہی ہے۔
ہم نے اپنا لازمی سوال دہراتے ہوئے پوچھا سرکار کی طرف سے کوئی امداد؟ تو مکان مالک بولے وہ آپ کے پیچھے لگے ٹینٹ کے سوا کچھ نہیں ملا۔ پیچھے مڑکردیکھا تو ٹینٹ میں ایک کتا مزے کی نیند سو رہا تھا۔ ہم مکان مالک اور بزرگ کا شکریہ ادا کرکے منزل کی جانب روانہ ہوئے۔
بات یہاں صرف ایک بچے یا آدمی کی نہیں جو سرکاری وغیرسرکاری اداروں کے سامنے اپنی مفلسی کی داستان بیان کرکے خیرات میں ایک ٹینٹ یا کچھ سامان وصول کریں۔ معاملہ پورے معاشرے کا ہے۔ عوام کا ہے، امیر غریب کا ہے، بے حسی کا ہے، بے بسی کا ہے۔ سچ اور جھوٹ کا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے معاشرے اور لوگوں کی اجتماعی نفسیات کی عکاس ہے۔
ایک ایسے میں معاشرے میں جہاں عوام مادیت پسندی کے دھنگل میں اپنی تمام تر زمین وجائیداد کو بنجروبرباد چھوڑحکومت کی طرف سے گندم پر دی جانے والی سبسڈی کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنادے، وہاں پر کسی فرد کا ذاتی امداد کے لئے ہاتھ پھیلانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ افسوس اس نظام پرہے جو لوگوں کو محنت و مشقت سے کمائی ہوئی حلال کی روزی کمانے کا ہنر سکھانے کی بجائے مفت کی امداد کی خاطر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا نے پر مجبور کرتا ہو۔
گلہ مگر اس لئے نہیں کہ جہاں ملک کا وزیراعظم قدرتی آفت کے متاثرین کی امداد کے نام پر دی جانے والی سونے کی ہار کا حقدار نکلتے ہوں، جہاں سرکار کےگریڈ سترہ سے اوپر کے افسران بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کے مستحق ٹھہرتے ہوں وہاں پر امدادی سامان کی فراہمی کا تقاضا ایک معصوم بچے کا حق یا کسی کپڑے کے بنے ٹینٹ میں سکون کی نیند ایک کتا کی قسمت میں کیونکر نہ ہو۔