کالمز
قدرتی آفت کے اثرات
تحریر: محبوب حسین بیگل
قدرتی آفات قدرتی طور پر رو پرور ہوتے ہے اور تمام مخلوقات کی زندگی کو متاثر کرکے رکھتے ہے۔ ان میں تمام جاندار ایشاء جو جان رکھتے ہیں جیسے انسان،چرندپرند، حشرات، جانور، جنگلات، درخت، اور فصلیں اس آفت کی زد میں اکر تباہ و برباد ہو سکتے ہے۔قدرتی آفت کسی بھی قدرتی خطرات جیسے سیلاب،ٹورنیڈو، سمندری طوفان، آتش فشاں، زلزلے یا برفانی تودے وغیرہ سے منسلک اثرات کا نام ہے جو ماحول پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں کہ قدرتی وسائل، مالی اور جانی نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ قدرتی آفت کے نتیجے میں ہونے والا نقصان کی شدت اس ماحول سے منسلک آبادی کا آفت کے برپا ہونے یا اس سے نبرد آزما ہونے کی خاصیت پر منحصر ہوتا ہے۔قدرتی آفت کے بارے میں یہ نظریہ دراصل اس بنیاد پر قائم کیا گیا ہے کہ کسی بھی آفت کا اس خطے میں زندہ اشیاء کی موجودگی اور آفت کے برپا ہونے کے نتیجہ میں منسلک بے بسی کے ساتھ کس درجہ کا تعلق ہو سکتا ہے
تکنیکی لحاظ سے قدرتی آفت کی تعریف دراصل آبادیوں کی موجودگی اور ان کو متوقع آفات سے خطرات کے دائرہ میں ہی ممکن ہے۔ مثال کے طور پر غیر آباد خطے میں انتہائی شدید ترین برف باری بھی تکنیکی لحاظ سے قدرتی آفت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ اسی تکنیکی تعریف کی بنا پر لفظ “قدرتی“ محققین کے مابین اختلاف کی وجہ ہے، کیونکہ کسی بھی تکنیکی آفت کا صرف انسان سے متعلق ہونا ہی کسی طور پر بھی قدرتی آفت نہیں کہلایا جانا چاتا۔ اگر دیکھا جائے تو آفت جو بھی ہو وہ ہمارے ماحول اور اس میں بسنے والے تمام مخلوق کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں۔
یہ آفات دو طرح کے ہوتے ہے، ہیومن میڈ ڈئزاسٹر اور دوسرا قدرتی ڈئزاسٹر۔ دونوں آفات تمام مخلوقات کے لیے بہت خطرناک اور اسکے دیرپا نتائج ہوسکتے ہے۔ انسانی زندگی کو نیست و نابوت کر کے رکھتے ہے۔
قدرتی آفات مندرجہ زیل ہے۔ زلزلے، سیلاب، لینڑسیلائڈنگ، سونامی، برسات، آندھی، Volcanose, Avalanches,،Tornado, Wildfire,Cyclone, وغیرہ شامل ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے آفات مندرجہ زیل ہے، کیمیکلز، فکڑریوں اور انڈسٹریوں سے اٹھنے والی گردغبار، مختلف ہتیار، خطرناک ادویات کا استعمال، گاڈیوں سے نکلنے والی دھواں اور بہت سارے آفات ہے جو انسانی زندگی کو مفلوچ کرکے رکھتی ہیں۔
دونوں آفات انسانی زندگی کو متاثر کر کے رکھتی ہے۔ قدرتی آفات نگہبانی طور پر یا اچانک اسکتے ہے جس میں بنی نوع انسان کی تمام تر زاویوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جس میں جائداد، فصلیں، پراپرٹی، انفاسٹریکچر۔ انسانی زندگی پر بہت برے اثارات مرتب ہو سکتے ہے۔
قدرتی آفات مکمل طور پر انسانی زندگی کو نیست و نابوت کر کے رکھتی ہے۔پورے دنیا میں موسمی تبدیلیوں کے پیچھے کچھ اثرات ہو سکتے ہیں، دنیا کی آبادی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسکے اثرات بھی موسم پہ اثر کر سکتی ہیں۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کے ضروریات بھی بڑھ رہے ہے۔ جس میں مشینوں کا ایجاد، مختلف زہریلے کیمیکلز، اور ادویات کا استعمال، فیکٹریوں اور انڈسٹریوں سے اٹھنے والی گردغبار، ٹیکنالوجی کا استعمال ان تمام کی استعمال کی وجہ سے ہمارے ماحول پہ گہرا اثر کرتا ہیں۔ اور انہی عوامل کی وجہ سے ہماری پانی بھی آلودہ ہو رہی ہے اور ہمارا ماحول بھی انہی عامل کے زیر اثر اسکتا ہے۔ اور ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ دنیا میں موسم یک دم تبدیل ہوتی ہوئی نظر ارہی ہے، بہار کے موسم میں گرمی کی شدت میں شدید اضافہ ہوتا ہے تو موسم سرما میں یک دم ٹھنڈ پڑ جاتی ہیں۔ یہ سارے گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہوتا ہے۔
جب بھی نگہبانی آفت یا قدرتی آفت رونما ہوتے ہے تو اسکے اثرات انسانی زندگی کو بہت زیادہ متاثر کر کے رکھتی ہے۔پچھلے کچھ دنوں سے گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں دھواں دار برف باری کی وجہ سے انسانی زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ چار دنوں سے جاری برف باری کی وجہ سے تمام شاہراہیں مکمل طور پر بند ہونے سے اشیائے خردونوش، ادویات اور مختلف ضروریات کے اشیاء قلت کا سامنا ہے
گلگت بلتستان کے دوردراز علاقوں میں مواصلاتی نظام، بجلی کا نظام، نیٹ ورک کا نظام کمیونیکیشن کا نظام انفاسٹرکچر کا نظام بری طرح متاثر ہو کر رہ گئی ہے۔ تو دوسری جانب بنیادی ضروریات کی چیزوں میں قلت کا سامنا ہے۔ حکومت، NGOs اور مخر حضرات سے التماس ہے کہ دل کھول کر ان افراد کی خدمت کریں جو اس نگہبانی آفت کے زیر اثر ائے ہے۔
جہاں تک ممکن ہو حکومت NGOs اور عوام نے ملکر کافی حت تک شاہراوں کی بحالی کا کام کیا ہے اور مزید بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
گلگت بلتستان کے دوردراز علاقوں میں مواصلاتی نظام، بجلی کا نظام، نیٹ ورک کا نظام کمیونیکیشن کا نظام انفاسٹرکچر کا نظام بری طرح متاثر ہو کر رہ گئی ہے۔ تو دوسری جانب بنیادی ضروریات کی چیزوں میں قلت کا سامنا ہے۔ ان میں کھانے پینے کے ایشیاء، ادویات، یوٹیلٹی کے سامان وغیرہ شامل ہے حکومت، NGOs اور مخر حضرات سے التماس ہے کہ دل کھول کر ان افراد کی خدمت کریں جو اس نگہبانی آفت کے زیر اثر ائے ہے۔دورداراز کے علاقوں میں روڑ کا نظام بہتر نہ ہونے سے اور ہسپتالوں میں ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے شہری کافی مشکلات کا سامنا کر رہے ہے، لہزا حکومتی اداروں اور غیرسرکاری اداروں سے پرزور اپیل ہیں کہ وہ شہریوں کی بنیادی سہولیات کو بروقت پہنچانے اور مہیا کرنے میں صف اول ہو کر کام کریں۔
گورئمنٹ کی اپنی شہریوں پہ بہت سارے زمہ داریاں عائد ہوتے ہے ان میں روٹی، کپڑا، مکان اور تعلیم وغیرہ شامل ہے۔ اور اس ملک میں جتنے بھی غیر سرکاری ادارے کام کر رہے ہے انکا بھی بنیادی فرض بنتی ہیں کہ وہ اپنی شہریوں کی جو بھی بنیادی حقوق ہیں انکوں حکومت الوقت کے ساتھ اور تمام بیروکریٹس، مزہبی رہنماوں اور اسکالز کے ساتھ مل کر انکی تمام تر ضروریات کو انکے گھر کے دہلیز پر پہنچانا ان تمام اداروں کا فرض اور زمہ داریوں میں شامل ہے۔اگر تمام ادارے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنی اپنی زمہ داریوں کو فرض اور عبادت سمجھ کر سر انجام دینگے تو ملک اور علاقہ دونوں مثبت طریقے سے اگے بڑھنگے اور ترقی کی طرف سفر گامزن ہوگا ملک میں خوشحالی ائیگی، امن برقرار رہے گی اور جو بھی مسائل اور مشکلات درپیش آئے انکا مل کر مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
حالیہ برف باری کی وجہ سے پورے گلگت بلتستان میں سردی کی شدت میں اضافہ ہوا ہیں اور سردی انتہا کو پہنچی ہے جسکی وجہ سے کئی مہلک بیماریاں لاحق ہونے کے خدشات ہے۔ اسلئے تمام سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی مفت علاج کو یقینی بنائے تاکہ عوام کو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ ائیں دن سردی کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے دوردراز کے عوام کے لیے گورئمنٹ اور غیر سرکاری ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اپنا فرض اور عبادت سمجھ کے گاوں گاوں اور شہر شہر میں فری کیمپ کا بندوبست کر کے شہریوں کے علاج کو یقینی بنائے۔
لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہے۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور بھی اس آفت کی زد بھی آئے ہے۔ زیادہ برف باری کے بعد دھوپ نکلنے پر اگلے چار یا پانچ دن لینڈسلائڈنگ اور برفانی تودے کا خطرہ ہے۔ لہزا ایسے علاقوں کے لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کریں بحکم NDMA ۔ گلگت بلتستان کے اکثر اضلاع بہت زیادہ برف باری کی لپیٹ میں اچکے ہے۔ بنیادی ایشاء خردونوش کی قلت کا سامنا ہیں لہزا سرکاری اور غیر سرکاری ادارے ہنگامی طور پر ان پسماندہ اور دورداراز کے علاقوں کے لیے سہولیات مہیا کریں