کالمز

ادارہ دارالابلاغ و الارشاد ایک منفرد ادارہ

تحریر :  ابوالحسین سیسکوی 
معصوم علیہ السلام فرماتے ہیں جس نے مخلوق کا شکریہ اداء نہیں کیا گویا اس نے خالق کا شکر اداء نہیں کیا۔
 شکریہ کے سب سے زیادہ حق دار علماء گلگت بلتستان ہیں جنہوں نے دین مبین کی شمع اس بستی میں روشن کرنے کےلیے خون جگر پی کراپنی پوری زندگیاں وقف کی ہیں
اس پسماندہ علاقے سے نکل کر مختلف مراحل اور مشکل راستوں کو طے کرکے علوم دین اور تعلیمات محمد وآل محمد کے دریاء میں غوطہ زن ہوئے اور اپنے آپ کو ان نورانی تعلیمات سے معطر کرنے کے بعد اپنی قوم کو پسماندگی ،جہالت،دنیاداری جیسے دلدل سے نکالنے کی خاطر علماء گلگت کی زحمات ناقابل فراموش ہیں
انہیں میں سے ایک ہستی کی خدمات کوصفحہ قرطاس پر بصورت تحریر پیش کرنے کی جسارت کررہاہوں میرے پاس اتنے الفاظ نہیں کہ میں کماحقہ اپنے مافی الضمیر کو بیان کرسکوں ۔ *بس یہی کہ یوسف کی خریداروں میں بھی ہوجائے میرا نام* ۔
افق بلتستان پر چمکتا دمکتا ہوا علمی روشن ستارہ جو اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تعلیمات محمد وآل محمد پورے ملک میں عام کرنےکےلیے دن رات ایک کررہا ہے اسکا نام اور تصویر بلتستان کے کونے کونے میں، وطن عزیز پاکستان کی جان شھر کراچی میں اور سوشل میڈیا کے توسط سے پوری دنیا میں نظر آتی ہے اللہ تعالی نے کمال صلاحیتوں سے بہرہ ور کر رکھا ہے آپ تنظیمی حوالے سے بہت فعال بچپن ہی سے تھےاور ہیں اسی صلاحیت کی پرورش کرتے ہوئے اپنی صلاحیت کا لوہا منوانے میں کامیاب ہوئے اور تنظیمی فعالیت کے ساتھ ساتھ بہترین ادارے کا سنگ بنیاد رکھنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔جسکے توسط سے *پیغام اہلبیت*(علیہ السلام) کو عام کرتے ہوئے *خدمت جیسی سنت* پر کما حقہ عمل پیرا ہیں۔ آپ کا نام یقینا اس *حدیث* کی مصداق نظر آتا ہے جس میں *والدین* کو اچھے اور سوچ بچار  کیساتھ نام رکھ لینے کی تاکید فرمائی ہے کیونکہ وہ نام بچے پر اپنا اثر چھوڑتا ہے یقینا *آپ کا نام جواد جس نے رکھا اسکو میرا سلام* ۔جواد عربی زبان کالفظ ہے جسکا معنی اردو میں سخی بنتاہے موصوف میں موجود نمایاں صفت بھی یہی ہے ۔
آپکی خدمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ان تمام کو دیکھکر انسان انگشت بدندان ہوکر رہ جاتاہے *بہت سے پروگرامز کو بچشم خود مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔*
 آپکی خدمت کو بیان کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ قوم وملت کےلیے غیر معمولی صفات پر مشتمل *ادارے کے قیام* کرنے میں جو گٹن مراحل سے گزرے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتا ۔اور ادارہ بھی ایسا جو بہت ساری خوبیوں سے آراستہ اور مزین ہو وہ تو قوم و ملت کےلیے عظیم سرمایہ اور نایاب تحفہ ہونے میں کسی کو ذرہ برابر شک نہیں ۔
حدیث کی روشنی میں بہترین اور خوش قسمت وہ ہے جو عالم باعمل ہو یا کم از کم علم دوست ہو لیکن جناب *قبلہ جواد نوری صاحب* عالم باعمل ،بلند نگاہی،عوام دوستی،منصف مزاجی، اور علم دوستی کے بہترین مصداق ہیں اسکی بہترین مثال وہ حضرات ہیں جنہوں نے کراچی سے میٹرک کی ڈگری لیں ہیں ان میں قبلہ محترم کی  نمایاں کوشش دخل ہے *ایک حاضر سروس سرکاری ملازم* کا دعوی ہے کہ اُس وقت نوری صاحب کی رہنمائی نہ ہوتی تو یقینا اس مقام کو نہ پاتا اور بھی بہت سے شواہد ہیں جنکی تفصیل کے لیے ایک مضمون نہیں بلکہ پوری کتاب چاہئے ہوتی ہے اسکی تصدیق قبلہ صاحب کے ہمسفر بہتر طر پر کرسکتے ہے۔
اسی طرح غریب و خستہ حال *اسٹوڈنٹس* کو حدالامکان وظیفہ دینا،رہاہش و اسباب خورد و نوش فراہم کرنا،تعلیمی پروگرامز منعقد کروانا،(بچوں کو شعور دلانے کے خاطر باقاعدہ بچوں کے درمیان *اسپورٹس مقابلہ* منعقد کرانا جو کہ میرے مشاہدات کے مطابق دینی ادارے کی طرفسے *منفرد انداز تفکر* ہے جسکا اندازہ دوسرے مراکز دینیہ کو شاید ہو)۔
اور جو بچے اپنے تعلیمی میدان میں *نمایاں کارکردگی* دیکھائیں انہیں نفیس انعامات سے نوازتا ہے جسے نہ فقط بچوں میں شعور آجاتا ہے بلکہ والدین بھی علمی میدان میں سعی کرنے پر مجبور ہوجاتےہیں ۔
 *تعلیمی میدان* میں سب سے اعلی اور /ناقابل فراموش /تحفہ وہ *ہاسٹل* ہے جو تیزی کیساتھ تعمیری مراحل سے گزر رہا ہے جو پوری قوم وملت کو عوج ثریا تک لے جانے میں لاینکر حصہ داری کریگا ۔
اسی طرح ان نادار ،غریب و مسکین سادات تک ضروریات زندگی پہنچانا ہے جو غربت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں جوکہ *سورہ کوثر* کا مصداق ہیں /وہ اولاد *زھراء (سلام اللہ علیھا)* ہیں اور انہوں نے اپنے لہو سے شجرہ اسلام کی آبیاری کی ہے ان ہستیوں کی خدمت یقینا خاندان *عترت کی غلامی* کا نام ہے ۔
 اور مظلوموں کی فریاد پر لبیک کہنا ادارے کا دوسرا نام ہے۔
نادار و مفلس *مخلوق خدا* کا ہاتھ پکڑ کر *خدائے مخلوق* کی رضاء حاصل کرنا ہے جو انبیاء الہی کا شیوہ اور اولیاء کی تبلیغ کا اہم پہلو ہے ادارےکا  نعرہ بھی یہی ہے کہ
 *خالق کو راضی کرو اور مخلوق کی خدمت کرو*
اسی طرح عبادت خدا میں حصہ دار ہونا یعنی پورے علاقے شگر میں ان *تمام مسجدوں* تک باقاعدگی سے افطاری کا سامان پہنچانے میں جو زحمات اٹھانا پڑتی ہیں جو سوئی سے پہاڑ کھودنے سے کچھ کم  کام نہیں ہوتا ،سحری کااہتمام کرنا اور *معتکفین* کےلیے بہترین سہولیات فراہم کرکے متروک سنتوں کو احیاء کروانا جہاد فی سبیل کے عین مترادف ہے۔
اسی طرح مختلف روپ میں پیغام حق عام کرنے میں ادارہ ہذا کا کردار قابل رشک ہے ۔ علماء کرام اور مبلغین عظام کی پزیرائی فرما کر انکی ہمت بڑھانے کا نرالہ انداز ہو یا  عید کے موقع پر عیدی کی صورت میں لوگوں کی خوشی کو دبالا کرکے دعا لینے
کاخوبصورت طریقہ ہو یا پھر *قربانی کا گوشت* گھر گھر تک پہنچاکر دسترخوانوں کو لذیذ بنوا کر فلسفہ تبلیغ ابراھیمیء کی تشہیر ہویا پھر *متأثرینِ حادثات* کے حضور امدادی پیکیج لےکر انکے زخموں کا مرحم بن کر زندہ ضمیری کا ثبوت پیش کرنے کا مقام ہو ۔ہر روپ میں انداز نرالہ کا کیا ہی کہنا ۔
اسی طرح *کلام خدا* کی طرف دعوت دینا *تاریخ باشہ* میں وہ پہلا کام جسکا ابھی تک کسی کو احساس نہیں اسکی احیاء کروانا میری نظر میں ادارے دارالابلاغ والارشاد پاکستان کی کامیابی کاراز اسی میں مضمر ہے یہ کہ پورے علاقے میں *قرآنی  مقابلے* کے پرگرامز برپاکروانا توفیق خداوندی کے بغیر کہاں ممکن ہوتا ہے جس میں دور دراز سے مؤمنین کی شرکت دیکھنے کو ملتی ہے جیسا کہ 2سال پہلے اسی پروگرام کی فسٹ پوزیش *جامعہ المصطفی العالمیہ اسلام کے طالب(حافظ کل قران جناب برادر اکبر علی رجائی صاحب )* نے حاصل کیا ۔
پچھلے چند سالوں سے مقابلہ حسن قرأت جاری ہے انشاءاللہ تا ابد جاری و ساری رہےگا۔
میرے قلم کی نوک باریک ہے اور میرے پاس اتنے الفاظ کہاں موجود ہیں جو میرے جزبات کا پرچار کرسکے۔
ہماری دعا ہے خداوند متعال *ادارہ دارالبلاغ والارشاد پاکستان* کو دن دگنی ترقی عنایت فرمائے
ہمیں بھی انہیں کے قدم بہ قدم چل کر *تعلیمات اہلبیت رسول صلعم* کو عام کرنے کی توفیق دے
آمین آمین ثم آمین
 *ہے علم عطر معطر گلاب ہیں علما*
 *ہے علم بارش رحمت سحاب ہیں علماء*
 *اٹھے جہاں سے تو عزت مآب ہیں علما ء*
 *چلے جہاں سے تو عالی جناب ہیں علماء*
 *ہمیں نجات کارستہ نہیں دکھاتے ہیں*
 *انہیں کے نقشِ قدم باب خلد جاتے ہیں*
جاری۔۔۔۔۔۔
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button