کالمز

دیوانوں کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیب کتروں سے ہشیار رہیے

ہر نئی چیز کو چھیڑنے، چھونے اور استعمال  کرنے سے ڈر لگتا ہے ۔ غلط بٹن دبانے یا صحیح بٹن کو غلط دبانے سے دھماکہ بھی  تو  ہوسکتا ہے ۔  لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ آجکل غسل خانوں میں بھی ایسی کنڈیا لگی ہوتی ہیں جنہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے ایک بڑے المیے سے کم نہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے  کہ ہماری اور ہماری عمر سے اوپر کے خواتین و حضرات کو اپنے ساتھ شاپنگ بیگ لیکر شہروں کی سیر کو جانا چاہیے ۔ یہ خیال مجھے گرین لائن ریل گاڑی میں اُس وقت دامن گیر ہوا جب مجھے کراچی کےلیے ریل گاڑی میں چوپیس گھنٹوں کے سفر کا اتفاق ہوا  ۔ ریل گاڑی کےخود کار بیت الخلا کے اندر بند رہنے کے ڈر سے  گھنٹوں مینیول بیت الخلا ٔ کے لیے ترستا رہا ۔ آخر کار ہلکی حاجتِ رفع کی طلب اتنی شدت پکڑ لی کہ گرین لائن جیسی آرام دہ ریل گاڑی میں اگر کہیں فطری بھونچال بھی آتی تو مجھے تھوڑی سی شرمندگی محسوس ہوتی ۔ صبر کا پیمانہ جب لب ریز ہوا تو میرے دانت نا دانستہ طور پر ایک دوسرے سے ٹکرانے  اور پٹخنے لگے ۔ ساتھ بیٹھے ایک مسافر نے کہا ”  بھائی جان لگتا ہے کہ تیز بخار چڑھا ہے " فوراً بیگ کھول کے پیراسٹامول کی دو گولیاں پانی کے ساتھ تھمادیں ۔ میرے پاس پیراسٹامول نہ کھانے کا کوئی جواز موجود نہیں تھا۔  میں نے جب گولیاں منہ میں رکھیں تو میرے مہربان  ہمسفر نے ہمدردانہ تلقین کی ” بھائی  ایسے نہیں نگلنا ہے ، خوب چبا کے حلق سے اُتارو اور پانی جتنی ہو سکے  زیادہ پی لو  ، جلد اثر ہوگا "  میرے دوست کی تمام باتیں ٹھیک تھیں سوائے  ” پانی زیادہ پی لو”  جیسے جملے کے جو کہ میرے لیے بے حد زہریلا تھا کیوں کہ اس جملے  کے پیچھے آنے والے  واقعات کی سوچ  بے حد گمبھیر تھی۔   ایک تو میں رفع حاجت کے شدید احساس سے کانپے جا رہا تھا اور اوپر سے  زیادہ سے زیادہ پانی پینے کا مفت مشورہ بھی دیا جا رہا تھا جو  مجھ پر قیامت بن کے گزر رہا تھا ۔ پانی پینے کے ایک دو منٹ بعد زور اتنا آیا کہ میرا سر چکرانے لگا ۔

 

موبائیل کھول کے فرنٹ کیمرے  کے اسکریں میں اپنی شکل ملاحظہ کرنے کی کوشش کی  تو میرے ماتھے اور آنکھوں کے ارد گرد بے شمار نئی لکیریں تشکیل پا چکی تھیں۔ میں بہ یک وقت  موبائیل میں اپنا حلیہ بھی دیکھ رہا تھا اور دونوں ذانوبھی ایک خاص ردھم میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا رہا تھا بلکہ زانوں خود بخود ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو رہے تھے ۔ ایک نا مانوس  اور غیر مرئی خوف طاری تھا ۔ اس حالت میں میں  اپنے رب سے اس مصیبت سے چھٹکارے کی دعا بھی نہیں مانگ سکتا تھا کیوں کہ میں نے کسی سیانے سے سنا تھا کہ دعا مانگنے یا نماز پڑھنے کےلئے جسمانی طہارت بڑی  معنی رکھتی ہے ۔ مجھے جب احساس ہوا کہ اب پانی سر کے اوپر سے گزر رہا ہے تو میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ سیدھا رو بہ لیٹرین ہوا ۔ وہاں بھی مسافروں کی ایک بڑی قطار لگی ہوئی تھی ۔ مجھے پہلی بار ایک چالاکی سوجھی، میں نے توجہ سے اندر باہر ہونے والوں کی حرکات و سکنات کو غور، توجہ اور تدبر سے جائزہ لینا شروع کیا ۔  میرے مشاہدے میں یہ آیا کہ کوئی اندر جاتا تو دروازے کے باہر ایک لال بتی جلتی اور کوئی باہر نکلتا تو دروازے کے کھلنے کے ساتھ ایک سبز بتی جلتی ۔  یہ بتی ہر دو منٹ میں تبدیل ہوتی تھی یا لوگ  ہر دو منٹ میں اپنی حاجت رفع کرتے تھے۔

اس بحث سے قطع نظر، میرا فلسفہ یہ بتا رہا تھا کہ یہ سائنسی کمالات کا دروازہ ہے  اور اسے دو منٹ کے لئے  فکس  وقت دیا گیا ہے  یوں یہ دو منٹ کے لئے بند ہوتا پھرخود بخود کھلتا ہے  اور جس کی قسمت اچھی ہو وہ اپنی حاجت ان مقررکردہ دو منٹوں میں مکمل کر کے باہر نکلتا ہے ورنہ وقت کی پابندی کے ساتھ ساتھ اپنی عزت بچانے کے واسطے کام ادھورا ہی چھوڑ کے باہر نکلتے ہوں گے۔  اندر جانے کےلئےمیرے سامنے کی لائن ختم ہوئی تو میں نے اندر جانے سے پھر بھی اجتناب کیا ۔ پیچھےانتظار میں  کھڑے ایک مسافر نے میرے  کندھے پر ہاتھ رکھا ، میں معاً پیچھے مڑا اُن کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو انہوں نے اپنی بھوئیں اوپر اُٹھا کر مجھے لیٹرین کے اندر جانے کا اشارہ کیا ۔ میں نے لیٹرین کے دروازے کی طرف  شہادت کی انگلی کے اشارے سے پہلے اُسے اندر جانے کی درخواست کی ۔  اِس آدمی کے اندر جانے کے بعد میں لیٹرین کے دروازے کے بالکل قریب کھڑا تھا  میری اور لیٹرین کی قربت اتنی تھی کہ اندرے کے آدمی سے سرزد ہونے والی باد شکم  سے میری سماعتیں برابر  محظوظ  ہو رہی تھیں ۔میں نے تنقیدی نگاہوں سے حالات کا جائزہ لینا شروع کیا ۔  جو مجھے سرخ اور سبز بتیاں نظر آ رہی تھیں وہ اصل میں ہاتھ سے چلنے والی کنڈی کے دو رنگین  سرے تھے جسکا ادھا حصہ سرخ تھا اور ادھا سبز اُسے اندر سے بند کرنے سے باہر سرخ نظر آتا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ  دروازہ بند ہے اور اندر کوئی  مصروف عمل ہے ۔ اب مجھے بات مکمل طور پر سمجھ آئی تھی  لیکن جس وقت میں نے اپنے پیچھے کھڑے آدمی کو جگہ دی تھی تو اُس وقت اُس کے پیچھے انتظار میں کھڑے آدمی نے شاید یہ سوچا تھا کہ آگے والا بندہ ، یعنی میں، ریل گاڑی کا ملازم ہے اور صفائی کے عہدے پر فائز ہے ورنہ اتنی طویل مدت سے یہاں کھڑے رہنے کا اور کوئی معقول جواب  تو نہیں ہونا چاہئے  ۔ لہذا اُس نے مجھے بائی پاس کرکے اندر جانے  کی  سر توڑ کوشش کی لیکن  میں اب کام  سیکھ چکا تھا لہذا میں طوفان بن کے اندر گھس گیا ۔ میں نے  دروازہ بند کرنے کی ساری ٹکنالوجی کو دقیق النظری سے دیکھا تھا لہذا میری وجہ سے پہلی بار ریل گاڑی کا بیت الخلا تین منٹ کےلیے باہر سے معطل رہا ۔ مجھے اُس احساس ہوا کہ خوشی کامیابی سے ملتی ہے سوال یہ نہیں کہ کامیابی کتنی بڑی ہے سوال یہ ہے کہ آپ  کہاں تک اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں ۔  اس کے بعد میں نے دل میں تہیہ کیاکہ کسی  بھی نئی ٹکنالوجی کی آزمائش سے گزرنے سے  پہلے اُس کا تجربہ کرنا لازمی ہے ۔

اس بار جب اسلام آباد گیا تو میٹرو بس  کے بارے میں ادھر ادھر پوچھ کچھ کی۔ میں نے سنا تھا کہ یہاں بھی جدید ٹکنالوجی نصب ہے ۔ میں نے اپنی لاج آُپ رکھنے کے واسطے بڑوں سے  نہیں بلکہ گھر کے چھوٹے چھوٹے بچوں سے میٹرو کے سفر کے بارے میں مختلف انداز سے استفسار شروع کیا ۔  ایک بچے سے پوچھا ” اچھا بتائیں کہ میٹروں میں سفر کرتے ہوئے آُپ کیا کیا کرتے ہو؟ مجھے سارا کچھ کہانی کی صورت میں بتا ؤکیوں کہ یہ تمہارا ایک امتحان ہے "  بچے کی بتائی ہوئی کہانی میں نے اپنے موبائل میں ریکارڈ کیا ۔ اگلے دن اپنے اچھے دوست ظہیر الدین بابر جوکہ عمر میں مجھ سے چھوٹا ہے لیکن رشتے میں میرا چچا لگتا ہے ، سے  درخواست کی کہ  پنڈی تک میٹروکا سفر اختیار کیا جائے ۔ موصوف کے ساتھ میں ہمیشہ بے تکلف رہتا ہوں لہذا انہیں اپنا مسئلہ بتادیا اور ساتھ یہ بھی التجا کی کہ میٹرواسٹیشن میں جانے کے آداب  اور ٹکٹ دینے والوں سے رسم و راہ وغیرہ سے مانوس ہونے کےلئے ضروری ہے کہ وہ مجھ سے آگے آگے  چلے تاکہ میں ہر مہم کو اُن کی دیکھا دیکھی  آساسنی سے سر کرسکوں ۔ انہوں نے  شیشے کے اندر بند ایک خاتوں کو مبلع تیس روپے رائج ولوقت پاکستانی تھما دیے اور دو زرد انگ اور گول شکل کے پلاسٹک کے بنے کارڈ لےلیے ۔  گاڑی کے انتظار گاہ کی جانب جاتے جاتے  مجھے تمام طریقہ کار بتاتے رہے ۔ کارڈ اپنے انگوٹھے پر رکھ کے کہا کہ کارڈ کو ایسے ہی پکڑ لو جیسے میں نے پکڑا ہوا ہے ۔ میں نے حکم کی تعمیل میں کوئی کوتاہی نہیں کی  ۔  ایک  گلی سے آگے گیے تو ایک دوشیزہ اور ایک نوجوان سرکاری وردی میں کھڑے تھے ۔ دو مشینیں لگی ہوئی تھیں جن کے بیچ میں سے ایک تنگ گزر گاہ تھی اور مشینوں کے بالکل درمیاں چمکدار لوہے کی دو  سلاخیں اُس راستے میں حائل تھیں اور  راستہ بند تھا ۔ ظیہر الدین بابر نے  اپنا ٹکٹ مشین کے اوپر رکھدیا اور گزر گئے ۔ میں نے بھی رکھدیا لیکن راستہ نہیں کھلا لہذا میں وہاں رکے رہا ۔ میں رکے رہا اور لوہا نہیں ہٹا اورجانے کا راستہ بند رہا ۔ غالباً ایک منٹ گزرنے کے بعد ڈیوٹی پر تعینات نوجوان  مسکراتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہا ” سر آپ کا ٹائم ختم ہوا اب آپ کو دوبارہ ٹکٹ لینا پڑے گا "  واپس ہونے سے پہلے ظہیر الدین بابر جوکہ مجھ سے پہلے یہ رکاوٹ پار کر چکے تھے، بولے کہ دوبارہ ٹکٹ لے کے آؤ اور اُسے مشین کے اوپر رکھنے کےفوراً بعد  گزر آو لوہے کی  سلاخ  خود بہ خود گھوم کر آُپ کو جگہ دے گی ۔ میں واپس ہو گیا اور ٹکٹ لے کے آیا اور بتائے ہوئے ٹوٹکے پر عمل کرتے ہوئے مشین کے پار ہوگیا ۔ ایسا لگا  جیسے بہت ہی مشکل مہم سر کی  ہو۔  گاڑی میں بیٹھنے کے بعد اپنی چاروں طرف دیکھا تو بیٹھے ہوئے تمام مسافر علاقے کے شرفا  معلوم ہوئے لیکن ایک چیز جو آج تک دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے وہ یہ کہ گاڑی کے اندر ایک اعلان بار بار ہوتا رہا ۔ "اگلا اسٹیشن فلاں فلاں جگہ  ہے۔ اپنے سامان کا خیال رکھیے اور جیب کتروں سے ہشیار رہیے "  مسافروں  کی نسبت یہ بھیانک اعلان سن کے میں نے اپنی جیب پر فوراً  ہاتھ رکھدیا اور چاروں طرف نظریں دوڑائیں تو ایسا معلوم ہونے لگا کہ ہم سب چور ، ڈاکو اور اُچکے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ 30 منٹ کا سفر تھا اور اس پورے سفر کے دوران میرے دونوں ہاتھ میری جیب پررہے ۔ پھر بھی شکر کا مقام یہ تھا کہ یہ اعلان اُردو زبان میں ہوتا رہا اگر انگریزی میں ہوتا اور خدا ناخواستہ کوئی باہر کا آدمی بیٹھا ہوا ہوتا تو وہ ضرور یہ سوچتا کہ پاکستان کا ہر آدمی چور ہے صرف اوپر والے ہی نہیں  ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button