عصر حاضر میں، عالم اسلام کو درپیش سب سے بڑا چیلنج
موجودہ زمانے میں سب سے اہم چیلنج جو امت محمدی اور اس کے سکالرز، دانشور حضرات ، مفکرین کو درپیش ہے اور رہے گا وہ ہے دین اسلام کی( قرآن و حدیث/ سنت کی روشنی میں) ایسی تشریح جو نہ صرف قابل عمل ہو بلکہ عصر حاضر کے تمام تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہو۔ متصادم نہ ہو۔ جو مسلمانوں کو دقیانوسیت و پستی کی طرف دھکیلنے کی بجائے، دنیوی ، عقلی ، روحانی اور اخلاقیات کے میدان میں آگے کی طرف لیکر جائیں۔
حدیث شریف میں آتا ہے :-
” زمانے کو برا مت کہو ، زمانہ خود خدا ہے ” ۔
ہمیں دوسروں کو بدلنے ، انھیں برا بھلا کہنے اور اپنی سستی و ناکامیوں کا ملبہ یہود و نصارٰی اور دیگر پر تھوپنے کی بجائے اپنے حالات کا باریک بینی اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے خود کو تبدیل کرنا ہوگا۔
جیسے حکیم الامت فرماتے ہیں :-
خود بدلتے نہیں قرآن بدل دیتے ہیں
کس درجہ ہوئیں فقیہانِ حرم بے توفیق
دینی تعلیمات اور پرانے قبائلی روایات میں فرق کرکے دین کی اصل روح کے مطابق عمل کرنا ہی وقت کی ضرورت ہے۔ اسلامی کلچر میں کچھ چیزیں ایسی شامل کردی گئی ہیں جن کا براہ راست دین سے کوئی تعلق نہیں لیکن ہم نے انھیں مذہب سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کرتے آئے ہیں جس کی وجہ سے بیشمار مسائل جنم لے رہے ہیں۔
اس نکتے کو چند مثالوں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلآ ایک مسلم خاتون کو قرآن کی ھدایت کی روشنی میں شائستہ لباس پہنا، جسم کو مناسب طریقے سے ڈھاپنا/ سر پر دوپٹہ رکھنا ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت کیلے سب سے بہتر لباس حیا کا لباس ہی ہوتا ہے (جس کا تعلق ظاہری لباس سے زیادہ کردار سے ہے) لیکن سر سے پاؤں تک خود کو چھپائے رکھنا جیسے افغانستان اور پاکستان کے بعض قبائلی کلچر میں دیکھنے کو ملتا ہے ( جس کا ہم احترام کرتے ہیں) لیکن اس کا تعلق قبائلی روایات سے تو ہوسکتا ہے دین اسلام سے ہرگز نہیں۔
دور حاضر میں عورت جہاں مرد کے شانہ بشانہ کھڑی زندگی کے ہر شعبے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے وہاں اس قسم کا بھاری بھر لباس زیب تن کرکے کسی آفس / فیلڈ یا بحثیت ایک گلوبل شہری / Global Citizen اپنی زمہ داریاں احسن طریقے سے سر انجام دینا نہ صرف مشکل ہے بلکہ زمانہ اس کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
دین اسلام جو عقل و شعور اور فہم و ادراک کا مذہب ہے کوئی ایسا حکم نہیں دے سکتا ہے جس پر عمل کرنا اکثریت یا تقریبآ 95 فیصد انسانوں کیلے ممکن ہی نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں واضح طور پر فرماتے ہیں:-
” دین میں کوئی جبر نہیں ہے ” پھر یہ سب کچھ کیا ہے ؟
اسی طرح دین اسلام کا ایک مخصوص طبقہ بالخصوص طالبان عورت کی تعلیم کے حوالے سے بہت سخت موقف رکھتے ہیں۔ یہ بھی ایک قبائیلی راویہ ہے، دین سے کوئی تعلق نہیں۔ جیسے پاکستان اور افغانستان کے بعض علاقوں میں آج بھی عورتوں کو علم کے نور سے دور رکھا جارہا ہے۔ جبکہ دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
اسی طرح کچھ عرصے پہلے تک ٹی وی ، ریڈیو ، لاؤڈ اسپیکر ، سائنسی علوم کو غیر اسلامی قرار دے کر ان کا استعمال ممنوع تھا۔ وقت نے ثابت کردیا کہ یہ ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ تھا جس کا دین سے کوئی لینا دینا نہیں۔ البتہ اس قسم کے رویوں نے امت کو شدید نقصان پہنچایا۔ خصوصاً جدید علوم کی دنیا میں مسلمانان برصغیر آج تک اس کا خمیازہ بھگت رہیے ہیں۔
دین اسلام ایک آفاقی پیغام ہے۔ جس کی تعلیمات ہر دور کیلے قابل عمل ہے جو عقل، فہم ، شعور، جدید علوم و فنون سے متصادم نہیں ہوسکتا ہے، بلکہ یہ آب رواں کی طرح اپنا راستہ خود نکالتا رہتا ہے۔
چونکہ قرآن اللہ کا آخری پیغام ہے اور نبی کریم ختم النبین اور آپ کا وجود تا قیامت انس و جنس، ہر طبقہ و مزہب سب کیلے باعث رحمت ہے، تو پھر دین اسلام اور اس کے ماننے والے دنیا کے سامنے اسلام کا وہ چہرہ / تشریح پیش کریں جو نسبتاً آسان ، عام فہم ہو ، جس پر عمل کرنے کیلے دنیا مجبور ہو جائیں۔ ایسی تشریح جس کے اندر دور جدید کے پیچیدہ مسائل کا حل موجود ہو۔
مسلمانوں کو بحثیت پیروکار سب سے پہلے خود کو اس کا عملی نمونہ پیش کرکے دیکھانا ہوگا۔ محض ” پدرام سلطان بود ” کا ورد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ دنیا جزباتی رویوں کی بجائے حقیقت پسندی کو قبول کرتی ہے
آج مغربی دنیا میں تقریباً 90 اور امریکہ میں 96 فیصد لوگ بالخصوص عیسائی مذہب کے پیروکار اپنے مذہب کا مطالعہ نہیں کرتے ہیں، چہ جائیکہ وہ اسلام اور قرآن کیلے وقت نکالیں ۔ یہ کام ہم مسلمانوں نے ہی کرنا اور اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہے کہ یہی دین برحق ہے اور زمانے کے ہر دکھ، پریشانی و الام کا تریاق اور دیگر چیلنجز سے نمٹنے کی طاقت صرف اسی کے اندر موجود ہے۔ لیکن اس کیلے سب اپنے آپ کو درست کرنا ہوگا۔
اہل مغرب قرآن پڑھے یا نہ پڑھے لیکن وہ مسلمانوں اور ان کا کردار / رویوں کو بہت ہی باریکی سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہمارا کردار ایسا ہونا چاہیے جو دین محمدی کیلے عزت کا باعث بنے۔ جو مگنٹ کی طرح لوگوں کو کھینچ کر دین حق کی طرف لے آئیے ، نہ کہ لوگوں رحمت اللعالمین کے خوبصورت اور روشن دین سے متنفر کردیں۔
بخدا اہل مغرب بہت ذہین اور ابن الوقت واقع ہوئے ہیں۔ اگر آپ دنیا کو موجودہ ظالمانہ نظام کا متبادل کوئی کامیاب معاشی و سیاسی نظام دے سکتے ہیں تو نہ صرف وہ اس پر لبیک کہیں گے بلکہ دل و جان سے قبول بھی کریں گے۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت اور نفسیات کا حصہ ہے کہ انسان اپنے مسائل و دکھوں کا جلدی کوئی حل چاہتا ہے۔ بس شرط صرف اتنی سی ہے کہ مسلمان اپنا وضع / پیش کردہ نظام سب سے پہلے اپنے آپ یعنی مسلم ممالک میں نافذ کریں، کامیابی کی صورت میں پھر مغرب کو دعوت حق دیں۔ انھیں بتادیں، یہی ہے وہ آفاقی نظام جو دنیا اور اخرت دونوں میں کامیابی کا ضامن ہے۔ آپ کو عملی طور پر یہ سب کچھ کرکے دیکھانا ہوگا۔ اس حوالے سے حکیم الامت ڈاکٹر علامہ اقبال کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ کافی دل خراش ہے۔
جب موصوف سابقہ سوویت یونین کے ڈکٹیٹر کی دعوت پر ماسکو پہنچے تو دوران گفتگو انھوں نے علامہ سے ایک سوال پوچھا، "اپنے نبی کریم کی کوئی اچھی بات ہمیں بتادیں ” اقبال رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے فصاحت و بلاغت سے بھر پور ایک لمبی تقریر کی۔ لینن سب کچھ سننے کے بعد آخر میں مختصر سا سوال پوچھنے لگا "
کیا آپ کے نبی کریم کے فرمودات کو عصر حاضر میں کسی مسلم ملک نے کامیابی کے ساتھ نافذ کیا ہے ؟
یہ سوال اقبال کیلے کسی دھماکے سے سے کم نہیں تھا۔ سر نیچے کرکے نفی میں جواب دے دیا اور آنکھوں میں آنسوں لیے کمرے سے باہر نکل آیا۔
دنیا آپ کی باتوں سے زیادہ کردار و کرتوت دیکھتی ہے۔ بزرگ صحیح فرماتے ہیں ” اصل بات تو عمل کی یے ، اچھی باتیں تو دیواروں پر بھی لکھی ہوئی ملتی ہیں” ۔ آج ملت اسلامیہ کو گفتار کی بجائے کردار کے غازی چاہیے۔
ہمارے علماء ، مفکرین اور دانشوروں کو چاہیے کہ وہ ریسرچ اور اجتہاد کے ذریعے دین اسلام کے راستے میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کریں اور اسے بطور رول ماڈل اور متبادل نظام کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کریں ۔ تاکہ اس Planet کو ہم زیادہ سے زیادہ محفوظ اور بہتر رہنے کی جگہ بناسکیں۔