کالمز

گلگت بلتستان کے صوبائی الیکشن 2020

 تحریر:دردانہ شیر

گلگت بلتستان کے صوبائی الیکشن رواں سال ہونے جارہے ہیں اور ابھی سے ہی خطے میں الیکشن مہم شروع ہوگیا ہے بعض سیاسی جماعتوں نے باقاعدہ طور پر سیاسی جلسے شروع کر دیئے ہیں جبکہ یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ یکم مارچ سے صوبائی حکومت کے تمام اختیارات بھی منجمید کرنے کی اطلاعات ہیں اور امکان یہ ہے کہ جولائی میں نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس کے بعد بیورو کریسی میں بھی بڑے پیمانے پر تبادلے ہونگے ابھی سے ہی مختلف سیاسی جماعتوں کے موسم پرندوں نے حکمران جماعت میں شمولیت اختیار کرنا شروع کر دیا ہے اور گلگت بلتستان میں مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت ختم ہونے کے دن قریب آرہے ہیں حکمران جماعت کے کئی سیاسی لیڈر اندورن خانہ کپتان کی ٹیم میں شامل کرنے کی تیاری شروع کر رکھی ہے مگر اب تک دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف نے گلگت بلتستان کی تعمیر وترقی کے لئے کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا ہے جس کی تعریف کی جائے وزیر اعظم عمران خان گلگت دورے پر آئیے مگر کوئی اعلان کئے بغیر واپس چلے گئے جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے کارکنوں میں بھی بڑی مایوسی پھیل گئی ہے اس سال اکتوبر میں ہونے والے صوبائی الیکشن میں بھر پور حصہ لینے کے لئے اندرون خانہ الیکشن مہم کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس کے لئے تینوں اہم سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) پاکستان پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی میں سخت مقابلے کی توقع کی جاسکتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی خبریں آرہی ہے کہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی میں سیاسی اتحاد کا بھی امکان ہیں بہر حال الیکشن کے دن قرئب آتے ہی سیاسی جوڑ توڑ میں بھی تیزی آئیگی

صوبے میں (ن) لیگ کی حکومت کے پانچ سال پورے ہونے میں صرف چارمہینے باقی رہ گئے ہیں جس کے بعد خطے میں الیکشن کی تیاریاں ہونگی اور ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ،پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار میدان میں کود پڑینگے عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے بلندوبانگ دعوے کرکے خطے کے عوام سے ووٹ لیا جائے گا اور پھر وہی ہوگا جو پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں ہوا بلند بانگ دعوے کرکے اقتدار میں آئینگے اور کامیاب ہونے کے بعد حکومت بنالینگے اور اس کے بعد عوام کے مسائل بھول جائینگے مگر گلگت بلتستان کے عوام کو ان دونوں پارٹیوں کے منشور اور عوام سے کئے گئے وعدے اب بھی یاد ہیں خطے کے عوام نہیں بھولے ہیں آنے والے الیکشن میں گلگت بلتستان کے عوام نے وقت کے حکمرانوں سے اپنا پورا حساب لینا ہے اور بہتر احتساب عوام ہی کرسکتے ہیں اور وہ ہے ووٹ کا درست استعمال پاکستان مسلم لیگ (ن) کی گلگت بلتستان میں حکومت بنے پانچ سال ہونے کو ہیں اس عرصہ میں خطے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے حوالے سے راقم نے حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف بھی کی جہاں کسی علاقے کو نظر انداز کیا گیا اس کی بھی نشاندہی بھی اپنے مختلف کالموں میں کیا ہے گلگت بلتستان میں جب صوبائی الیکشن ہوئے تو بدقسمتی سے غذر سے مسلم لیگ (ن) کو ایک سیٹ پر بھی کامیابی نہیں ملی اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ غذر کے عوام نے اس پارٹی کو ووٹ نہیں دیا ہومسلم لیگ (ن) کے تینوں امیدواروں نے اپنے مخالف امیدواروں کا ڈٹ کا مقابلہ کیا جبکہ حلقہ نمبر ایک میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اپنے مخالف امیدوار سے چند ہی ووٹوں سے ہارگئے تین نشستوں میں سے ایک بھی سیٹ پر کامیابی نہ ملنے کی وجہ سے حکمران جماعت نے بھی اس ضلع کو یکسر نظر انداز کرنا شروع کر دیا حالانکہ اس وقت آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو غذر گلگت بلتستان کا تیسرا بڑا ضلع ہے مگر جب خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی سیٹوں کی بات آگئی تو بھی غذر کو نظر انداز کیا گیا مشیروں کی بات چلی تو بھی غذر کا کوئی نام شامل نہیں تھا حکمران جماعت نے اپنے تین سال پورے کرنے کے چند ماہ قبل سینئر سیاسی شخصیت و مسلم لیگ کے رہنما غلام محمد کو مشیر لیا جبکہ مسلم لیگ نے اپنے دور اقتدار کے دو سال پورے کرنے کے بعد فداخان فدا کو وزیر بنایا اور یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مسلم لیگ نے اپنے دور اقتدار کی نصف مدت میں غذر سے کسی بھی منتخب نمائندے یا سنیئر سیاسی شخصیت کو اپنی کابینہ میں صرف اس وجہ سے نمائندگی نہیں دی کہ غذر سے (ن) لیگ کا کوئی امیدوار کامیاب کیوں نہیں ہوا حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی جب جی بی میں حکومت بنی تو سب سے پہلے کابینہ میں نمائندگی غذر کو ملنی چاہئی تھی وہ اس لئے کہ مشرف کے دور اقتدار میں یہ غذر ہی تھا جس کے عوام نے گلگت بلتستان میں (ن) لیگ کو زندہ رکھا تھا پرویز مشرف دور میں مسلم لیگ (ن) کو گلگت بلتستان میں زندہ رکھنے والے اس وقت کے ممبر قانون ساز اسمبلی سلطان مدد ہی تھے جس نے اس وقت کے حکمرانوں کی طرف سے کئی عہدوں کا لالچ دینے کے باوجود پارٹی سے غداری نہیں کی اور جب نواز شریف کی ملک میں حکومت نہیں تھی ان کو غذر بلایا اور اپنی مدد اپ کے تحت بنایا گیا سلپی پل نواز شریف کے نام کر دیا اس پل کو سلطان مدد نے کس طرح تعمیر کیا یہ غذر کے عوام جانتے ہیں مگر وہی ہوا کہ مسلم لیگ کی گلگت بلتستان میں حکومت بنی تو پارٹی کے لئے ہرقسم کی قربانی دینے والے سلطان مدد کو وقت کے حکمرانوں نے مکمل طور پر نظر انداز کیا بلکہ ان کو پارٹی ٹکٹ بھی اس وقت دیا گیا کہ ان کے مخالف امیدوارں نے الیکشن کمپین مکمل کرلی تھی اور تو اور وفاق یا گلگت بلتستان کے کوئی پارٹی کے سرکردہ رہنما نے ان کے حلقے کا دورہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا جس کے بعد مایوس یہ اہم سیاسی لیڈر نے اپنی پارٹی کو خیرباد کیا اور اپنی الگ سیاسی پارٹی بنائی پانچ سالوں میں مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے غذر کی تعمیر وترقی کے لئے کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا جس کی تعریف کی جائے ہاں وزیراعلی کی طرف سے کچھ اعلانات ضرور ہوئے جس کے مطابق گلگت سے گاہکوچ تک کے کے ایچ طرز کا روڈ بنانے کی نوید سنائی وزیراعلی حافظ حفیظ الرحمان نے کہا تھا کہ جنوری 2017کے پہلے ہفتے میں گلگت غذر روڈ پر کام شروع ہوگا مگر تاحال کام تو دور کی بات ٹینڈر تک نہیں ہوا ہاں یہ ضرور ہوا کہ گلگت سے گاہکوچ تک وہ سڑک جو سیلاب کی زد میں آگئی تھی اس کی مرمت کے لئے کچھ رقم مختص کر دی گئی اور جہاں تارکول اکھڑ گیا ہے وہاں پر ٹاکی لگانے کے لئے کچھ رقم فراہم کردی گئی ہے اور بتایا جارہا ہے کہ غذر سے گاہکوچ تک روڈکا ٹینڈرہونے والا ہے اب عوام یہ سوال کر رہے ہیں کہ کہاں گئے حکمرانوں کے وہ وعدے،گلگت غذر روڈکو سی پیک میں شامل کرنے کی وہ باتیں اور کدھر ہے وہ پھنڈر 87میگاواٹ پاور پراجیکٹ غذر کے عوام سوال کرتے ہیں کہ کدھرگیا گلگت گاہکوچ ایکسپریس وئے کا وہ منصوبے جس میں وزیر اعلی نے گلگت بلتستان کے ترقیاتی بجٹ سے یہ شاہراہ مکمل کرانے کی غذر کے عوام کو نوید سنائی تھی کب ہوگا شیر قلعہ ار سی سی پل کی تعمیر مکمل وزیر اعلی نے کہا تھا کہ ہم پی پی پی کے لیڈروں کی طرح جھوٹے اعلانات نہیں کرتے شیر قلعہ پل جون 2019میں مکمل کراکے دیکھا دونگا مگر کدھر ہوا یہ پل مکمل، وزیر اعلی گلگت بلتستان نے گوپس یاسین کو ضلع بنانے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ نوٹیفکشین بھی جاری ہوا مگر وہی ہوا جس کی امید تھی اعلان کردہ دیگر ڈسٹرکٹ کی طرح گوپس یاسین بھی ضلع نہیں بن سکا آج غذر کی چاروں تحصیلوں کی سڑکیں آثار قدیمہ کا منظر پیش کر رہی ہے صرف گلگت سے گاہکوچ تک روڈ کی مرمت ہوئی ہے جس سے عوام کو سفر کے دوران ادھا گھنٹے کی مسافت کم ہوئی تھی وہ ہنزل سے بسین کے درمیان بنائے گئے سپیڈ بیکرز نے پوری کی سالانہ غذر کے راستے ہزاروں کی تعداد میں سیاح شندور آتے ہیں اور اس خستہ حال شاہراہ کی وجہ سے یہاں آنے والے سیاح مایوس ہوجاتے ہیں اور غذر کو سیاحوں کی جنت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا یہاں کی ترقی کا دارومدارسیاحت پر ہے مگر گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت نے گلگت چترال روڈ کی تعمیر کے حوالے سے بھی سوائے عوام کو بیوقوف بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا بس صرف وعدے اور وعدے،وعدے ہی رہے چونکہ الیکشن اب زیادہ دور بھی نہیں ہے اور ووٹ کا صیح استعمال ہی بہترین انتقام ہے غذر کے ساتھ ہونے والی امتیازی سلوک کا صلہ وقت کے حکمرانوں کو بہت جلد ملے گا

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button