کالمز

پچھتاوے  سے خود کو  بچائیں

تحریر : علی مدد
ایک سٹیڈی کے مطابق عصر حاضر  میں بڑھتے ہویے نفسیاتی امراض کی ایک  اہم وجہ وہ  پچھتاوے ہیں جو انسان اپنے  مقصد حیات کو صحیح طرح نہ سمجھنے ، روحانی اور جسمانی ترجیحات میں عدم توازن، دنیوی زندگی کے آرام و آسائش /  چکاچوند اور اس کے سحر میں گرفتار ہونے کی  وجہ سے جنم لیتے  ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان Regrets  کی intensity اور  بھی  بڑھ جاتی ہے.  حتیٰ کہ انسان موت کے آغوش میں چلا جاتا ہے۔
          کہتے ہیں کہ ایک عام انسان  کے مقابلے میں ایسے افراد  جو بظاہر  دنیوی طور پر زیادہ  کامیاب نظر آتے ہیں لیکن اپنی زندگی میں عدم  توازن کی وجہ سے خود کو پچھتاوے کے دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔ خاص کر Job  / Business سے جب ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں اور عمر  بزرگی کو پہنچتے ہیں تو یہ بیماری ان کو چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے۔
             اس مختصر آرٹیکل کا مقصد اپنے قارئین بالخصوص وہ یوتھ جو خوش قسمتی سے  دنیوی لحاظ سے ترقی کی منزلیں طے کررہے ہیں، جو بڑے اور  اہم عہدوں پر براجمان ہیں، جن کے سامنے ابھی  پوری زندگی پڑی ہوئی ہے، کیلے پیغام دینا ہے کہ وہ چاہیے تو ان Regrets سے سیکھ کر اپنی باقی   زندگی کو متوازن ، خوشگوار اور بامقصد بناسکتے ہیں۔ جو زندگی میں اعتدال ہی سے ممکن ہے۔
             پچھتاوے کی لسٹ کافی لمبی ہے۔ ہم نے چند ایک اہم  کا یہاں زکر کیا ہے:-
1. کاش  اپنے پروفیشن / دنیوی کاروبار کے ساتھ ساتھ اپنی فیملی، بزرگ والدین،  بیوی، بچوں کو بھی مناسب وقت دیتے۔
 کہتے ہیں کہ جو انسان گھر میں / فیملی، بچوں کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتا ہے اسے  دنیا کی کوئی مادی شے خوشی نہیں دے سکتی ہے۔
2. مخلص دوست بالخصوص بچپن کے، انمول تحفہ ہوتے ہیں۔ گاہے بگاہے ان سے مل کر ان کا دکھ درد اور  خوشیاں بانٹتے۔
مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے مطابق سب سے زیادہ غریب وہ شخص ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔
3. کاش اپنے آپ کو بھی وقت دیتے ۔ مادی آسائشوں کے ساتھ ساتھ اپنی روح کی بھی کچھ خبر لیتے۔ کچھ وقت تنہائی میں گذار تے ہویے اپنے رب سے محو گفتگو ہوتے۔ جو دیا ہے اور جو نہیں دیا ہے دونوں پر شکر ادا کرتے۔ کیونکہ بعض اوقات  رب کے نہ دینے میں بھی حکمت و خیر پنہان  ہوتے ہیں۔
4. صبح نور کے وقت جاگ کر  پرندوں کی چہچہاہٹ، پھولوں کی مہک ، سورج کا طلوع ہونا، چاندنی رات اور ٹمٹماتے ستاروں کی چھپن چھپائی ٫ فطرت کی رعنائیوں سے بھی لطف اندوز ہوتے۔
5. کاش رشتہ دار جن سے صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے، ان سے ملتے۔ ان کے ضرورتوں کا پوچھتے، روٹھوں کو مناتے  ۔ ان کے دکھ درد و خوشیوں میں شریک ہوتے۔ کہتے ہیں کہ صلہ رحمی سے عمر میں برکت آجاتی ہے۔ جوائین  فیملی سسٹم خوشی و خود اعتمادی  کا خزانہ ہے اگر گھر والوں کے رویے بہتر ہو تو۔
6. کاش ہر وقت دوسروں کی خوشامد / خوش کرنے کیلے الٹی سیدھی حرکتیں نہ کرتے،  اپنے  ضمیر کی آواز بھی سنتے اور فیصلے کرتے۔ غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کرتے  اور حق کا ساتھ دیکر صدیقین کے صف میں شامل ہوجاتے۔
7. یہ دولت ، گھر ، کار، بینک بیلنس تو سہی لیکن ان کا بھی حق ادا کرتے جن کے بارے میں قرآن کا حکم ہے۔ جیسے اقربا، ہمسائے ، غریب ، مسکین ، یتم وغیرہ۔ دنیا و عاقبت سنوارنے کیلے خیرات و صدقات  کرتے۔
8. سستی و کاہلی کی بجائے تھوڑی سی محنت /  جدوجہد اور کرتے ۔حق حلال رزق بچوں کا نوالہ بنتا، تاکہ آپ کے  گھر میں بھی نیک، صالح اولاد پیدا ہوتی جو دو جہانوں میں نیکی و مسرت کا باعث بنتی۔
9. بحثیت جج / وکیل، ایڈمنسٹریٹر ، صحافی، سیاستدان   وغیرہ  فلاں فلاں مظلوم کی داد رسی کرتے۔ مظلوم کیلے آواز اٹھاتے، اس کاجائز حق  اور ظالم کو عبرت ناک سزا دلواتے۔ اپنے ماتحت  اداروں میں انصاف اور میرٹ کا نفاذ کرتے۔ مزہب ، مسلک ، رنگ و نسل، ذات پات، علاقے سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف رب کی خوشنودی اور  انصاف پر مبنی فیصلے کرتے۔
10. ہر وہ کام جو خدائے  بزرگ و برتر  کی ناخوشنودی کا باعث بن سکتا ہے اجتناب  کرتے۔  جیسے کسی معصوم پر ظلم و زیادتی کرنا، کسی کا حق چھیننا / غصب کرنا، رشوت لینا، مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے ظالم طاقتور کے صف میں کھڑا ہونا۔  غلط گواہی دینا ، ملاوٹ و فراڈ، دھوکہ دہی کرنا وغیرہ۔
11. آج جو قبر کے دہلیز پر پہنچ چکے ہیں اور خالی ہاتھ جارہے ہیں، کاش کہ  کاروبار میں دغہ نہیں کرتے۔ اتنی بڑی دولت جو چھوڑ کے جارہے ہیں، اسکا حساب تو خود دینا پڑے گا لیکن دنیا میں عیاشی، کھائے گا، پیے گا  کوئی اور۔ کاش اس حقیقت  کی بروقت  سمجھ بوجھ رکھتے۔
12. کاش لوگوں کی بالخصوص ماتحت ملازمین کی  چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر نہیں بپھرتے، درگزر کرتے ،  انصاف کرتے، صبر کرتے ،انھیں  سیکھنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کرتے۔
13. خود کو ہر قسم کے نشہ آور اشیاء جیسے الکوحل، Substance Abuse اور ہر قسم کی ناپسندیدہ اور مکروہ عادات سے دور کرتے۔ ہر وہ شے جو آپ کو رب اور مخلوق سے دور کر دیتی ہے، اپنے سے دور کرتے ۔
14. سب سے آخر لیکن  اہم ،  کاش ہم مقصد حیات، اسکی ترجیحات ،  زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کو  وقت پر  سمجھتے۔ دنیا کیلے اتنی کوشش کرتے جتنا رہنا ہے۔ اگلی دنیا کیلے بھر پور زاد راہ کا اہتمام کرتے۔
بقول عظیم صوفی بزرگ رابعہ بصری:-
            ” اگلی دنیا میں نہ آگ ہے اور نہ پانی و شہد ۔ سب کچھ یہاں سے ساتھ  لیکر جانا ہے، اچھے اور برے اعمال کی صورت میں”.
اللہ رباالعزت ہم سب کو ان پچھتاؤں سے بچائیں جن سے بچنا ممکن ہے، جو شامت اعمال کے  نتیجے میں وجود میں آتے ہیں۔  آمین۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button