کالمز
کیا ڈگری لینے سے شرحِ خواندگی بڑھے گی؟
تحریر: شفیع اللّہ شریف
میں آج گلگت بلتستان کی شرح خواندگی پر بات کروں گا۔ میں اپنی بات کا آغاز گلگت کے ضلع دیامر Diamer سے کر رہا ہوں جو تعلیم کے لحاظ سے ہمیشہ سے دوسرے اضلاع سے پیچھے اور نچلے درجے پر رہا ہے۔
آغاز میں اس ضلع کی پسماندگی کا لوگوں کی غربت اور زرائع کی قلت تھی جس کے سبب لوگ تعلیم کو قدر نہیں دے سکتے تھے، اور جو نوجوان ان مسائل کا سامنا کرتے ہوئے تعلیم حاصل کر لیتا تھا ان میں دوسرے اضلاع کے نوجوانوں سے مقابلے کرنے کی بھی سکت ہوتی تھی۔
مگر آج کے جدید دور میں جب ناسا بلیک ہول کی ٹیلی سکوپک تصویر شائع کر چکی ہے دیامر بھاشا کے لوگ، اب جب کہ ان کے پاس پیسہ اور زرائع دونوں ہیں، اپنے بچوں کو اعلی تعلیم کے لئے داسو نامی کسی جگہ بھیجتے ہیں جہاں سے وہ گریجویشن کی ڈگری حاصل کرتے ہیں۔
افسوس اس بات کی ہے کہ ان بچوں کو سولہ سالہ تعلیم کے بعد بھی اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا ہے۔
اس مدعے کی وجوہات میں تفصیل سے بیان نہیں کروں گا کیونکہ دیامر کے لوگ داسو کو بخوبی جانتے ہیں۔
شرح خواندگی پر بات کی جائے تو داسو یا کوہستان کالجز سے ڈگری تو بہت سے نوجوان حاصل کر لیتے ہیں لیکن یہ لوگ اچھے درجے کے امتحانات میں کامیاب نہیں ہو پاتے اور دوسرے اضلاع والے بازی مار جاتے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ آج تک دیامر کے کسی فرد نے سی ایس ایس کا امتحان پاس نہیں کیا جو کہ اب زرائع کی فراوانی سے ممکن ہو سکتا ہے۔ گلگت بلتستان کے باقی اضلاع نے ایسے امتحانات بارہا پاس کیے ہیں لیکن دیامر کو داسو اور کوہستان کالجز جیسی بیماریاں لے کر بیٹھ گئی ہیں۔ ایف پی ایس سی کا امتحان کچھ پرجوش علم کے طالب اپنی محنت سے پاس کر جاتے ہیں۔
اپنے مدعے کو طول دینے سے گریز کرتے ہوئے میں صحافی حضرات سے گزارش کرونگا کہ صحافت کا یہ فرض بنتا ہے کہ آپ داسو اور کوہستان کالجز جیسے مرض، جو کہ دن بہ دن لوگوں کو پستی کی طرف لے کے جا رہے ہیں اور فقط پیسے بٹور رہے ہیں، کو اپنی صحافت کی طاقت سے ایکسپوز کر کے لوگوں کو ان سے چھٹکارا دلائیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ صحافت دیامر کے لوگوں کی مدد کرے گی تا کہ وہ لوگ بھی اپنے حق کے لیے جدوجہد کر سکیں اور اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دے کر اپنے ملک و قوم کی سلامتی کے لیے اچھے عہدوں ہر فائز ہوتا دیکھیں۔ شکریہ۔