سمسٹر کا ستیا نا س
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
فلمی دنیا میں مو سیقی کے بارے میں ایک واہمہ مشہور ہے کہ مو سیقی بنگال میں پیدا ہوئی ممبئی میں جواں ہوئی پشاور میں دفن ہوئی اب اسلام اباد، گجرات اور لا ہور کے تعلیمی حلقوں میں یہ بات گر دش کر رہی ہے کہ سمسٹر سسٹم یورپ میں پیدا ہوا پنجاب میں جواں ہوا خیبر پختونخوا میں قریب المرگ ہے کسی بھی وقت اس کی مو ت کا با ضا بطہ اعلان متوقع ہے وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ سمسٹر سسٹم کی بنیاد میرٹ پر رکھی گئی ہے خیبر پختونخوا میں میرٹ کا کوئی بھی نظا م نا کام ہو جا تا ہے فرانس، جر منی، بر طانیہ اور امریکہ کی مشہور درس گاہوں سے اعلیٰ تعلیم کی ڈگری لیکر آنے وا لا یہاں سال یا دو سال نہیں گزار سکتا ہر یو نیور سٹی کے ہر شعبے میں کچھ لو گوں نے اجا رہ داری بنائی ہوئی ہے داخلے بھی سفار پر دئیے جا تے ہیں اہم اور حساس ٹیسٹوں کے پر چے آوٹ کئے جا تے ہیں اگرکوئی لائق، فائق اور قابل شخص ہارورڈ یا کیمبرج سے پی ایچ ڈی کر کے آجا تاہے تو اُس کے خلا ف محاذ بنا یا جا تا ہے اور اس کو بھا گنے پر مجبور کیا جا تا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خیبر پختونخوا کی کسی نئی یا پرانی یو نیور سٹی سے پڑھ کر کوئی طا لب علم اگر اسلام اباد، گجرات یا لاہور کی کسی یو نیورسٹی میں داخلہ لے لیتا ہے تو پہلے سمسٹر میں اس کو اچھوت کا درجہ دیا جا تا ہے کیونکہ اس کو سمسٹر میں 94فیصد نمبر دیکر پا س کیا گیا ہے مگر کلاس میں بیٹھنے کے بعد پتہ لگتا ہے کہ مو صوف کو اس کے مضمون کی الف،با تک نہیں آتی اُس نے کسی یو رپی اور امریکی مصنف کی ایک کتاب بھی نہیں پڑ ھی اُس کی زبان بھی درست نہیں ہوئی وہ سوال پوچھنے کے فن سے واقف نہیں وہ کلا س میں دلچسپی لیکر استاذ اور ہم جما عت طلبہ کو مطمئن کرنے کے بجا ئے سفارش کی بنیاد پر 90فیصد سے زیا دہ نمبر لینے کے چکر میں ہے وہ پورا سمسٹر اس ٹوہ اور فکر میں گزار تا ہے کہ کونسا استاذ کس گروپ میں ہے؟ کیونکہ خیبر پختونخوا میں اس کا تجربہ ایسا ہی تھا اساتذہ کے گروپ سب کو معلوم تھے اور ہو شیار طا لب علم کو شش کر کے مظبوط گروپ کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑتا تھا ٹیسٹ، ٹرم پیپراور تھیسس کے لئے اس طرح گروپ بندی کام آتی تھی دوسرے سمسٹر تک جا تے جاتے طالب علم کو پتہ لگ جا تا ہے کہ یہ پنجاب ہے یہاں قابلیت اور میرٹ کا بول با لا ہوتا ہے یہاں گروپ بندی کی اجازت نہیں کوئی استاد ریکارڈ کو تبدیل نہیں کر سکتا کوئی استاد کسی سفارشی کو 35فیصد سے اُٹھا کر 94فیصد نمبر وں سے سرفراز نہیں کر سکتا کسی استاذ کے بس میں نہیں کہ غیر حا ضر طالب علم کی حا ضریوں کا ریکارڈ اپنی مر ضی سے مر تب کرسکے، کسی استاد کی مجال نہیں کہ من پسند یا سفارشی طالب علم کو منہ مانگے نمبر اور گریڈ دیکر پاس کر سکے اس وجہ سے دوسرے سمسٹر کا طالب علم افسوس سے ہاتھ ملتا رہ جا تا ہے کہ کا ش وہ بی ایس کے لئے پنجاب کا رخ کرتا تو شرمندگی سے بچ جا تا اس کے 4سال ضائع نہ ہوتے اس کی ڈگری کو پشاوری کا طعنہ کبھی نہ ملتا اور وہ سراُٹھا کر اپنی تعلیم جا ری رکھنے کے قابل ہوتا یہ بات لا ئق توجہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی یو نیورسٹیوں میں سمسٹر سسٹم کا سیتا ناس کیوں اور کیسے ہوا؟ اس گھتی کو سُلجھا نے کے لئے ڈور کا سرا کہاں سے پکڑا جا سکتا ہے؟ بات سیدھی سی ہے ہر یو نیورسٹی کا ”کوالٹی ایشورنس سیل“ ہر شعبے کے اندر جھا نک لے کہ شعبے میں یورپ اورامریکہ سے پڑھ کرآنے والے نو جوانوں کی تعداد کتنی ہے؟ اور گھر کے اندر پڑھ کر کہنی مار تے ہوئے آگے بڑھنے والے لوگ کتنے ہیں؟ اگر ہر ڈیپارٹمنٹ میں باہر سے اعلیٰ تعلیم حا صل کر کے میرٹ پر آنے والوں کو با اختیار پوسٹوں پر لگایا جائے،ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اور ڈین بنا یا جائے پورا شعبہ اُن کے حوالے کیا جائے تو دوسرا طبقہ پسپا ہوجائے گا خیبر پختونخوا کی یو نیورسٹیاں بھی پنجاب کی طرح میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر ڈگریاں دینے کے قابل ہوجائینگی ڈیپارٹمنٹ کے اندر لاڈ لوں اور چہیتوں کی اجارہ داری ختم ہوجائیگی آج ایک طالب علم کو 94فیصد نمبر ملتے ہیں مگر یہ نمبر اُس کے کام نہیں آتے میرٹ کا سسٹم آگیا تو 60یا 70فیصد نمبر ملینگے اور یہ نمبر اُس کے کام آئینگے یہ ہمارے لئے تخت یا تختہ والی صورت حا ل ہے اگر خیبر پختونخوا کی نئی نسل کو اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے پشاوراور اس کے نواح میں پڑھنے والوں کو پنجاب یا بیرون ملک جا نے کے بعد سر اُٹھا کر چلنے کے قابل بنا نا ہے تو ہمیں خیبر پختونخوا کی پرانی اور نئی یو نیورسٹیوں سے کہنی ما رکر آگے بڑھنے والوں کی جگہ میرٹ پر آگے بڑھنے والوں کی حو صلہ افزائی کرنی ہو گی یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں سے ڈگری لیکر آنے والے اساتذہ کو اہم پوسٹوں پر رکھنا ہو گا سفارشی کلچر اور گروپ بندی میں جکڑے ہوئے اساتذہ کا راستہ روکنا ہو گا تب کہیں جا کر ہمارے بچے اسلام اباد، گجرات اور لاہور کی درس گاہوں میں فخر کیساتھ سر اُٹھا کر چلنے کے قابل ہوسکینگے سمسٹر سسٹم کا ستیاناس کر کے ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہینگے۔