سزاؤں کا فلسفہ اور نتیجہ
انسان کی تخلیق پر غور کیا جائے توایک ایسی مخلوق ہے جو خیر اور شر دونوں کا سامنا کرے۔۔۔خیر کا پتلا ہو اور شر کی چنگاریاں بھی اس کی ذات سے پھوٹیں۔ایسی حرکتیں بھی کرے کہ دجال ششدر ہو۔۔رحمت کا سمندربھی ہو اور مخلوقات کے لئے خیر کا سامان بھی۔۔فرغون و ہامان بھی انسان لیکن ”رحمت اللعالمین“ بھی انسانیت کے لئے انعام۔۔یہ دنیا میں انسان اور انسانیت کی تاریخ ہے۔۔خالق کائنات نے پہلے انسان کو بھی بے غیر ہدایت کے دنیا میں نہیں بھیجا۔۔حضرت آدم ؑ دنیا میں پہلا انسان بھی تھے اور اللہ کا پیامبر بھی تھے۔۔خیر و شر کی ٹکر اس مخلوق کی بنیاد ہے ورنہ تو یہ دنیا کی زندگی امتحان نہ ہوتی۔۔یہاں پہ آزمائشیں نہ ہوتیں۔قیامت میں جزاء و سزا کا تصور نہ ہوتا۔جتنا سخت گناہ اتنی سخت سزاء کی وعید ہے۔۔جہنم کی توضیع میں علماء فرماتے ہیں کہ انسان دنیا میں ایسا گناہ کر بیٹھتا ہے کہ اس گناہ کے معیار کی سزا دنیا میں ممکن نہیں۔اس لئے جہنم کی مسلسل سزاء اس کا مقدر ہو۔۔دنیا کی تاریخ اور انسانیت کی تاریخ دونوں خونی ہیں۔۔انسان نے اس دنیا میں ایسے خوفناک جرم کر گزرے ہیں کہ پڑھ کر خود انسان کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔اس لئے وقفے وقفے سے انسانیت کی فلاح اور رہنمائی کے لئے خدائی قاصد آتے رہے۔آخر میں نبی آخر الزمان خاتم النبیئن رسول مہربان ﷺ تشریف لا ئے اور انسانیت کو آخری درس دے کے دنیا سے تشریف لے گئے۔ قرآن عظیم الشان انسانیت کا ضابط حیات ہے اس کوڈ آف لائف سے باہر انسانیت کی نجات کا کوئی راستہ نہیں۔قرآن میں ہر جرم کی سزاء متعین ہے تاکہ معاشرہ جرم سے پاک ہو اور امن کا گہوارہ ہو۔۔قرآن نے قصاص کو زندگی کہا یعنی کہ اگر ایک قاتل کو سر عام سزاء دی جائے تو معاشرہ اس جرم سے ہمیشہ کے لئے پاک ہوگا۔قرآن نے آنکھ کے بدلے آنکھ،کان کے بدلے کان عرضیکہ ہر جرم کے معیار کی سزاء رکھی اور دنیا گواہ ہے ایک چور کا ہاتھ کاٹنے سے سینکڑوں سال معاشرہ چوری سے پاک رہا۔اسلام کے علاوہ تمدن اور معاشرت کے نام نہاد چمپیین نے بڑے بڑے فلسفے پیش کئے۔نظریات کی بھر مار ہوئی۔اسلام کو اس کی سزاؤں کی وجہ سے بربریت کا مذہب کہا گیا۔اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی بعض موقعوں پر قصاص کو غیر انسانی سزاء کہا گیا۔۔مگر ایک وقت ایسا آیا کہ خوفناک دہشت گردوں کو لٹکانے کے سواء کوئی چارا نہ رہا اور قرآن نے جس سزاء کو زندگی کہا تھا انسان اس پہ مجبور ہو گیا۔۔مو جودہ حکومت نے ریپ کیسز کے مجرموں کے لئے سرعام پھانسی اور لٹکانے کا جو بل پیش کیا ہے اور پارلیمنٹ سے منظور ہوا ہے یہ ایک تاریخی قدم ہے اگرچہ پہلے سے قانوں موجود تھا لیکن عمل درآمد کی ہے اور سزا کے معیار کی ہے۔کیونکہ جتنا جرم بڑا ہوگا اس کی سزا بھی اسی نوعیت کی ہونی چاہیے تاکہ اس جرم کا سد باب ہو سکے۔موجودہ بل بہت اہمیت کا حامل ہے یہ قیامت کے دن حکمرانوں کی نجات کا ذریعہ ہوگا۔۔ان درندوں کا راستہ روکنے کا واحد طریقہ ہے۔اسی میں معاشرے کی قرآن کی رو سے نجات ہے۔قرآن نے سزاء اجتماع میں دینے کا جو عندیہ دیا یہ جرم سے روکنے کا احسن ترین طریقہ ہے تاکہ عبرت حاصل ہو۔ہمارا معاشرہ ان درندوں کی وجہ سے دہشت گاہ بن گیا تھا آئے دن کوئی دلخراش واقعہ سننے کو ملتا ہے۔سب سن کر لرزہ بر آندام ہوجاتے ہیں سراپا سوال ہوتے ہیں کہ ان درندوں کو کیفر کردار تک کیسے پہنچایا جائے۔۔انسانیت کے ان معصوم پھولوں کو مسلنے والے خونخوار وں کی کیسی سزاء ہو کہ سب کا درد ہلکا ہو۔بہ حیثیت انسان ہر ایک کو احساس ہے کہ ان مجرموں کا جرم قابل معافی نہیں۔۔بچے سانجی ہیں گلشن انسانیت کے پھول ہیں۔ان کو مسلنے والا انسان انسان تو نہیں کہلاتا۔موجودہ حکومت کا یہ کارنامہ ہے اس کے باوجود بھی بعض مغرب نواز نام نہاد تعلیم یافتہ اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں۔اگر یہ اسلام اور قرآن سے متصادم ہوتا تو ملک میں علمائے حق اس کو رد کرتے۔سب کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ عین اسلام ہے۔مکمل عدل ہے۔ان ظالموں کا انجام ایسا ہی ہونا چاہیے۔۔اغیار کو اپنا قبلہ سمجھنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ غیر مسلم خود استعمار کا شکار ہیں۔انھوں نے اپنے معاشرے کوانہی کی سزاؤں کے بل بوتے پر امن بنایا ہے۔۔موزیتنگ کے دور میں ایک لڑکی نے زنا بالجبر کی شکایت کی موزیتنگ خود جائے وقوعہ گیا پوچھا کہ تم نے شورکیوں نہیں مچائی لڑکی نے کہا۔۔چیخی تھی کوئی مدد کو نہ آئے۔۔انھوں ارد گرد کے لوگوں سے سننے کو کہا اور لڑکی سے کہا۔چیخو!۔۔ لڑکی نے چیخ ماری تو لوگوں سے کہا کہ کس کس نے سنی۔۔ارد گرد کے لوگوں نے کہا کہ ہم نے سنا۔۔اس نے حکم دیا۔۔کہ پہلے بھی یقینا سنے ہونگے اس کی مدد کوکیوں نہیں آئے۔۔ابھی دس گھنٹے کے اندر اس مجرم کو حاضر کرو ورنہ تم سب مجرم ہو۔۔۔مجرم حاضر کیا گیا تو موزیتنگ نے سر عام مجرم کے جسم کا ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔۔کیایہ سزاء نہیں تھی۔ابھی اس سزاء کی راہ میں جوروڑھے اٹکا رہے ہیں وہ ان معصوموں کے بھی مجرم ہیں اور قوم کے بھی مجرم ہیں۔ہم موجودہ حکومت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور گزارش کرتے ہیں کہ اس پر فوری عمل کیا جائے تاکہ ہمارا معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے اور ہمارے بچے ہر کسی آفت سے محفوظ رہیں۔