حبیب الرحمان مرحوم ، کچھ یادیں کچھ باتیں
تحریر: امیرجان حقانی
یہ غالبا 2006 کی بات ہے۔میں جامعہ فاروقیہ کراچی میں درجہ رابعہ کا طالب علم تھا اور کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کررہا تھا، تب ہفت روزہ چٹان میں لکھنا شروع کیا تھا۔ میرا پہلا کالم چٹان ہی میں پبلش ہوا تھا۔کسی بھی سماجی اور دینی موضوع پر کالم لکھ کر ہفت روزہ چٹان کی ہیڈ آفس راولپنڈی ارسال کرتا۔تین دن میں میرا کالم دفتر پہنچتا اور کمپوز ہوکر اخبار کی زینت بنتا۔ یقین جانیں! اپنا کالم مع تصویری لوگو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی۔جب صحافت میں ماسٹر کررہا تھا تب کالم کیساتھ بہت ساری نیوز رپورٹس بھی چٹان میں پبلش ہوئی تھی جواکثر کراچی کی خبروں پر مشتمل ہوتی۔
غالبا 2007کی بات ہے۔ایک دن عصر کے بعد مجھے کال آئی۔ کال” ہفت روزہ چٹان” اخبار کے مالک و چیف ایڈیٹر برادرم حبیب الرحمان مرحوم کی تھی۔ انہیں مرحوم لکھتے ہوئے ہاتھ کی انگلیاں لرزنے لگی۔علیک سلیک کے بعد حبیب بھائی کہنے لگے "حقانی بھائی آپ کے خلاف ایک تحریر موصول ہوئی ہے، جو آپ کے ہم مکتب مدارس کے دوستوں کی ہے۔ کیا خیال ہے اس کو چھاپا جائے؟ عرض کیا کہ بھائی ضرور شایع فرمادیں۔ انہوں نے مزید کچھ باتیں بھی بتادی جن کا ذکر کرنا مناسب نہیں۔میرے کرم فرما دوستوں کا تعلق دیامر سے تھا، ایک کا والد گرامی کسی اچھی انتظامی پوسٹ پر تھا اور ایک صاحب بعد میں صحافی کہلائے۔ اور ایک صاحب اب تک گمنامی کی راہیں چل رہے ہیں۔ جب وہ تحریر چھپ کر اخبار کی زینت بنی اور صدر کراچی سے فیض اللہ فراق نے چٹان کا شمارہ مجھ تک پہنچایا تھا، ان کا خیال تھا کہ ان احباب کی تحریر کا جواب لکھا جاوے مگر میں انہیں خواہ مخواہ مشہور نہیں کرنا چاہتا تھا، اس لیے ٹال دیا۔ ہفتہ بعد حبیب بھائی کی دوبارہ کال آئی کہ اگر آپ جوابی کالم لکھنا چاہیں، تو دل کھول کر لکھیں۔ ہم شائع کریں گے۔ مگر میں نے انکار کردیا۔یہ ہمارا ابتدائی تعارف تھا۔پھر ٹیلیفونک رابطے چلتے رہے۔وہ پنڈی میں فروکش تھے اور ہم کراچی میں زیرتعلیم، بہت دفعہ چاہنے کے باوجود بھی ہماری ملاقات نہ ہوسکی۔
مجھے طالب علمی سے ہی گلگت بلتستان کے مشاہیر علمائے دیوبند پر مواد جمع کرنے کا جنون لاحق ہے۔جب اس کام کا آغاز کیا اور حبیب بھائی سے بھی شیئر کیا تو بہت خوش ہوئے، ہمت بندھائی اور کام کی اہمیت پر مفصل گفتگو بھی کی۔کچھ حضرات پر مواد جمع بھی ہوچکا تھا۔ ایک دن ”ہفت روزہ چٹان” میں ایک چار کالمی خبر چھپی، جس میں اس کتاب کی اشاعت اور کام کی نوعیت کا ذکر تھا۔ دل بہت خوش ہوا۔حبیب بھائی خود علماء کرام کا قدر دان تھا۔فقیہ عصر مفتی رشید احمد لدھیانوی سے بیعت تھے اوران سے اصلاح نفس کا سبق لیتے۔ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ روزنامہ اسلام اور ضرب مومن کا آئیڈیا بھی برادرم حبیب کا تھا۔یقینا یہ ان کی جہاندیدگی اور عصرحاضر کے تقاضوں سے واقفیت کا بین ثبوت تھا۔حبیب الرحمان کا اپنے اخبار کا نام چٹان رکھنا بھی جناب شورش کاشمیری سے تعلق اور عقیدت کا مظہر تھا۔شورش کاشمیری نے ہفت روزہ چٹان میں علم و ادب کے موتے بکھیرے تھے اور وقت کے ظالموں کو للکارا تھا۔ انگریز سرکار اور ان کے وظیفہ خور ، شورش کاشمیری کے ہفت روز چٹان سے لرزاں اور ان کے قلم سے ترساں تھے۔چٹان کی مناسبت سے چٹان کا اجراء صحافت کو بطور مشن زندہ رکھنے کی زندہ وجاوید مثال تھی جو حبیب الرحمان نے قائم کی تھی۔
ایک دفعہ بھائی حبیب نے بتایا کہ جامعہ نصرة الاسلام گلگت کی لائیبریری سے ایک مجلہ ملے گا جس کا نام ”ہمالیہ ” ہے۔ اس میں فاضلین دیوبند پر آپ کو کچھ نہ کچھ مواد ملے گا۔یہ 2008کی بات ہے کہ اس مجلے کی تلاش میں گلگت آیا۔تب مولانا نذیراللہ خانؒ اور مولانا حبیب اللہؒ سے تفصیلی انٹرویو بھی کیا۔ قاضی عبدالرزاق کے متعلق بہت سے احباب سے مواد جمع کررہا تھا ، قاضی نثاراحمد کے توسط سے جامعہ نصرة الاسلام گلگت کی لائیبریری جا پہنچا۔ جب وہ ماہنامہ مجلہ ملا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے چیف ایڈیٹر برادرم حبیب الرحمان ہیں۔ بہت خوشی ہوئی۔ اس میں مولانا عطاء اللہ شہاب نے چند فاضلین دیوبند کے انتہائی مختصر یعنی یک پیرگرافی خاکے لکھے تھے۔ اس سے بھی میرے تحقیقی پروجیکٹ کو کافی رہنمائی ملی۔
اب میں ہفت چٹان کا مستقل لکھاری تھا۔ پھر کے ٹو اور صدائے گلگت میں بھی لکھتا رہا۔ میرے استاد محترم حبیب زکریا صاحب مجھے ”چٹان” کہا کرتے تھے۔ ان کے بچے بھی مجھے ”چٹان ” سے یاد کرتے۔ جب بھی کالم لکھتا تو استاد محترم سے اصلاح اور نظرثانی کرواتا۔تصحیح و ترمیم کے بعد کاغذ میں صاف لکھ کر ہفت روزہ چٹان کی دفتر ارسال کرتا۔جب کالم چھپ کر ، اخبار کراچی پہنچ جاتا تو اخبار استاد حبیب زکریا کی خدمت میں پیش کرتا۔ وہ بہت خوش ہوتے ۔ہفت روزہ چٹان میں مسلسل لکھنے کی ہی وجہ سے استاد جی مجھے ”چٹان” سے یاد کرتے۔مہمانوں سے تعارف کرواتے ہوئے کہتے رہتے کہ یہ چٹانوں کے علاقے سے تعلق رکھتا ہے اور چٹان میں لکھتا بھی ہے۔ اس لیے ہم اس کو چٹان کہتے ہیں۔
حبیب بھائی میرے کالم کو سراہتے اور بغیر کانٹ چھانٹ کے شائع فرماتے۔شاید اعجازاحمد عباسی صاحب کو ہدایت کررکھی تھی کہ حقانی کا کالم بلاکم و کاست شائع کیا جائے۔ایک دفعہ فون پر بتایا کہ چلاس کا سفر ہوا تھا۔ آپ کا کالم سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے اور زیربحث بھی رہتا۔ کیونکہ آپ کے موضوعات اچھوتے اور آپ کا سارا فوکس دیامر ہوتا، یا دیندار طبقہ۔ ایک مبتدی طالب علم کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی کیا بات ہوسکتی تھی کہ ایک کہنہ مشق صحافی اور اخبار کا مالک کالم کی تعریف کرے اور حوصلہ افزائی بھی۔
بہر صورت ”ہفت روزہ چٹان” حادثے کا شکار ہوا، کچھ اپنوں کی بے رعنائیاں تھی تو کچھ غیروں کی ریشہ دوانیاں۔چٹان سنبھل نہ سکا۔چٹان اپنی آب و تاب کے ساتھ ابھرا تھا۔ کاش کہ ابھرتا رہتا۔ مگر ایسا نہ ہوسکا اور اس کا آب و دانہ بند ہوگیا۔ہفت روزہ چٹان کے بعد صدائے گلگت کا طلوع ہوکر فوری غروب ہونے کا منظر مجھے بھولے نہیں بھولتا۔مجھے گلگت بلتستان و چترال کے ہر اخبار اور ویب سائٹ میں پذیرائی ملی اور اب تک میرا کالم سب میں تسلسل کیساتھ شائع ہوتا ہے۔مگر اولین کالم ہفت روزہ چٹان میں شائع ہوا اور پامیر ٹائم کا بھی اولین مستقل لکھاری ہونے کا شرف حاصل رہا۔اگر چٹان کے افق سے سورج غروب نہ ہوتا اور اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی جاتی ، تو شاید گلگت بلتستان کی صحافتی انڈسٹری کا سب سے بڑا ادارہ ہوتا۔ مجھے حیرت بھی ہے کہ ہفت روزہ چٹان، حبیب الرحمان کے ساتھ ہی خاص ہوکر کیوں رہ گیا تھا۔ان کے بھائی بھی تو صحافتی دنیا کا بڑا نام ہے۔ وہ چٹان کو زندگی اور سہارا دینے کا سبب نہ بن سکے۔ آخر کیا وجوہات ہوسکتی ہیں معلوم نہیں۔اب بھی وقت ہے کہ چٹان کو زندہ کیا جاسکتا ہے۔
2014کو کسی کام سے سپریم اپیلیٹ کورٹ جانے کا اتفاق ہوا۔کسی نے مجھے سیدھا حبیب الرحمان بھائی کی آفس پہنچا دیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ان کے سامنے میرا کالم تھا جو شاید قیام امن پر لکھا تھا۔ بے حد خوش ہوئے اور بہت دیر تک ہم دونوںگفتگو کرتے رہے۔ جسٹس عباسی نے برادرم حبیب الرحمان کو سپریم اپیلیٹ کورٹ کا پبلک ریلشن آفیسر تعینات کیا تھا۔اخبارات میں عدالتی خبروں کی ترسیل ان کی ذمہ داری تھی۔ان کا آفس اخبارات کے پلندوں سے لدا ہوا تھا۔
ہمارا رابط تھا۔ گاہے ملاقات بھی ہوتی تھی۔پھر ایک دن حبیب بھائی کی بیماری کا پتہ چلا۔بہت افسوس ہوا۔ وہ غم ِدوراں کے ساتھ غم ِ جاناں(چٹان) کا شکار تھا۔ ان غموم و ہموم نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔پوری زندگی کسی سے شکوہ نہیں کیا، صبر و شکر کا دامن تھامے رکھا۔ ان اندوگیں حالات میں بھی ان کے ہاتھ میں تسبیح ہوتا اور وہ اللہ کی تسبیح و تقدیس میں مصروف رہتے مگر پھر وہ ذہنی توازن تک کھو بیٹھے۔ان کے بھائی بشیرخان سے خیریت دریافت کرتا رہتا۔اور کبھی برادرم رشید ارشد سے پوچھ لیتا۔جب وہ انتہائی سیریس بیمار ہوئے تو ان کے لیے دعاوں کا اہتمام بھی کیا۔مگر ہونا وہی ہوتا جو منظور خدا ہوتا۔حبیب الرحمان مرحوم کی وفات حسرت آیات پر بہتوں نے لکھا اور اپنی محبت کا اظہار کیا۔ہم جیسے قلم کے مسافر اظہار محبت کے سوا کربھی کیاسکتے ہیں۔
وہ گلگت بلتستان کی صحافتی افق کا چمکتا ہوا تارہ تھا۔بہتوں نے فیض پایا۔وہ دیامر میں پیدا ہوا تھا اور دیامر کی جملہ صفات ان میں بدرجہ اتم موجود تھی۔دیامری روایات کا امین تھا۔ زبان و قلم سے دیامر پر حملہ آور وں کا مقابلہ کیا۔دینداری ان کے مزاج میں تھی۔ان کی دینداری ان کے پروفیشن میں رکاوٹ نہ بنی بلکہ مزید نکھار کا باعث ہوئی۔ملنساری اور مہمان نوازی ان کا خاصہ تھا۔خوش خلقی اور متواضع ان کی طبیعت ثانیہ تھی۔وہ اپنے صحافتی کارناموں پر خوش تھے مگر حالات و واقعات کا انقلاب ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ایسے نادر ہ روزگار لوگ کم پیدا ہوتے ہیں۔اب وہ دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کی صحافتی، سیاسی اور دینی خدمات دیر تک یاد رکھی جائیں گی۔ان کی فکر و نظر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی خدمات اور خلوص پر شک نہیں کیا جاسکتا۔مسئلہ کشمیر اور وحدت کشمیر پر ان کی نگرانی میں منعقدسیمینارز تاریخ کا حصہ ہیں۔بہتوں نے ان کی خدمات پر لکھا بلکہ خوب لکھا۔میں نے تحریر کو بوجھل بنانے کی بجائے خود سے وابستہ کچھ یادیں اور کچھ باتیں آپ سے شیئر کی ہیں۔مزید تفصیل کی گنجائش کاغذ کے ان اوراق میں موجود بھی نہیں۔وہ اڑتالیس سال کی عمر میں بروز بدھ یکم فروری 2020کو طویل علالت کے بعد کراچی میں انتقال کرگئے اور ایچ الیون قبرستان اسلام آبادمیں مدفون ہوئے۔ و زیراعلیٰ گلگت بلتستان جناب حافظ حفیظ الرحمان سمیت بہت سارے حکومتی نمائندوں اور سیاسی و صحافتی اشخاص نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور میت کو کندھا دیا۔اللہ سے دعا ہے کہ ان کے مرقد کو پُرنور فرمادے۔ابرِکرم برسائے اور ان کے لواحقین اور چاہنے والوں کو نعم البدل دے ۔آمین یارب العالمین.