نوائے سُرود….. توجہ سے محروم نسل
شہزادی کوثر
تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا میں بہت سی چیزیں بدل چکی ہیں اور بہت سی اب بدلنے والی ہیں تغیر اور بدلاو زندگی کا لازمی حصہ ہےکیونکہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔۔۔ ہماری زندگیوں میں یہ بدلاو ایک طویل خلیج پیدا کر رہا ہے۔ بچے دنیا کی سب سے بڑی دولت ہوتے ہیں ۔انسان انہی کے سہارے خود کو مضبوط محسوس کرتا ہے۔زندگی کی رونقیں بھی انہی کے دم قدم سے ہوتی ہیں.
لیکن جدید دور میں ان کے لیے ماں باپ کے پاس وقت ہی نہیں ۔تین سال کا بچہ ماں کی گود میں ہونے کے بجائے کسی ای سی ڈی سنٹریا سکول کے پلے گروپ سیکشن میں ہوتا ہے،ماں سے چمٹے رہنے کی عمر میں کلاس روم کی کرسی پر بیٹھ کر الفابیٹس سیکھ رہا ہوتا ہے،کیونکہ ماں باپ نوکری کی زمہ داریوں میں پھنسے ہوتے ہیں ۔ماں بچے کو ساتھ رکھنا چاہے بھی تو نہی رکھ سکتی کیونکہ جہاں نوکری کرتی ہے وہاں بچوں کو ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی یا انتظامات مناسب نہیں ہوتےکہ اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ بچے کو بھی دیکھ سکے،مجبورا بچے کو ماں کی ممتا سے محروم کر کے ٹیچر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ایسے میں وہ بچے شدید ذہنی کوفت سے گزرتے ہیں جن سے بعض اوقات والدین بے خبر رہتے ہیں
۔یہ صورتِ حال بچے کی شخصیت پر منفی اثرات ڈال دیتی ہے ایسے بچے خود کو غیر محفوظ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔جتنا وقت ماں کے ساتھ گزارنا ہوتا ہے وہ سکول ،مدرسے یا ٹیوشن سنٹر میں گزارتا ہے گویا ماں باپ کی توجہ اور محبت سے دوری اس کی شخصیت میں منفی عناصر پیدا کرتا ہے۔ ایک اور چیز بھی دیکھنے میں ٓاتی ہے کہ اکثر والدین بچوں سے کھل کر پیار نہیں کرتے یا نہیں کر پاتے جسکی بنا پر بچے کھنچے کھنچے رہتے ہیں ۔میرا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ اپنے بچوں سے محبت نہیں کرتے ،یہ محبت ہی ہے جو بچوں کا مستقبل سنوارنے کی خاطر ماں باپ سے انکا سکون چھین لیتی ہے لیکن ان سے غلطی یہ سرزد ہوتی ہے کہ بچوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ سارا دن گھر سے باہر نوکری اور گھر پہنچ کر بھی یا تو ٓافس کے کام ہوتے ہیں گھر کی دوسری ذمہ داریوں میں انہیں وقت نہیں دے پاتے۔ایسے والدین ان کی ہر ضرورت اور خواہش کا خیال تو رکھتے ہیں انہیں ہر چیز مہیا کرتے ہیں لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بچوں کو صرف چیزوں کی ہی ضرورت نہیں ہوتی انہیں توجہ اور شفقت بھی چاہیے ہوتا ہے سب کچھ بچوں کو دیا جاتا ہے مگرِ اپنا ٓاپِ،، ان سے دور رکھا جاتا ہے جو ان کی شخصیت کو مسخ کر دیتا ہے۔ وقتی طور پر بچے اس چیز کو سمجھ نہیں پاتے لیکن ٹین ایج تک پہنچتے ہیں تو ماں باپ سے انکا رشتہ مخالفت پر مبنی ہو جاتا ہے،یہ عمر تو ویسے بھی خطر ناک ہوتی ہے اگر اس میں نظر انداز کرنے کا عنصر بھی شامل ہو جائے تا انتہائی شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ایسے میں اگر ان سے چھوٹے بہن بھائی کو پیار ملے تو یہ بچہ اس سے بھی نفرت کرنے لگتا ہے۔ گھر ٓانے والے دوسرے لوگوں کے ساتھ یہ بچے گھل مل نہین پاتےاور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سماجی تعلقات بنانے میں بھی انہیں ناکامی ہوتی ہے ۔اس کے نتیجے میں ان کا وقت برے دوستوں کی صحبت میں یا تنہائی میں گزرتا ہے۔ احساسِ تنہائی انسان کو انتہاوں کی طرف لے جاتا ہے ،جس میں منفی سوچ ذہن میں پیدا ہو کر ڈیپریشن کا شکار بناتی ہیں اور خود کشی تک کی نوبت ٓاسکتی ہے۔ والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنے بچوں کو توجہ دینا اور ان کی سہی تربیت کرنا ہے کیونکہ تربیت اسی دن سے ہی شروع ہوتی ہے جب انسان کو والدین بننے کی نعمت نصیب ہوتی ہے،تعلیم تو بعد کی چیز ہے اس کے لیے خاص وقت مختص ہے لیکن تربیت پہلے دن سے ہی ہونی چاہیے یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے اس پر بھر پور توجہ کی ضرورت ہے۔ اپنے بچوں کو اپنا وقت دینا بہت اہم ہے۔ان سے اچھی باتین کرنا ان کی باتین سننا اور انہیں یہ احساس دلانا بہت ضروری ہے کہ ہماری محبتوں کا محور صرف ٓاپ ہیں۔ اس کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ لاڈ پیار سے انہیں بگاڑا جائے۔ کچھ والدین محبت کے نام پر بچوں کو بگاڑ دیتے ہیں ،جبکہ کچھ رعب دکھانے کے چکر میں ہٹلر بن جاتے ہیں۔ اصل محبت متوازن ہوتی ہے کیونکہ اکثر کہا جاتا ہے کہ ۔۔۔ کھلاو سونے کا نوالہ مگر دیکھو شیر کی آنکھ سے۔۔۔۔ انہین ایسا ماحول مہیا کرنا چاہیے کہ وہ اپنی خوشیاں اور پریشانیاں بلا جھجھک والدین سے شئیر کریں ۔ اورتنہائی کا شکار ہو کر کوئی غلط قدم نہ اٹھائیں ۔