میرا قلم، میری مرضی
تحریر: اختر شگری
نہایت افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ جس وطن عزیز کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھا گیاہے کیا اس کا آئین بھی قرآن و حدیث کے عین مطابق نہیں ھونا چاہئے؟
جب اس ملک خدا داد کو 14 اگست 1947 میں ایک آزاد اور خود مختار "اسلامی جمہوریہ پاکستان” کے نام سے جداگانہ ریاست تشکیل دی گئی تو اسکا اصل مقصد اور ہدف صرف سڑکیں بنانا، بڑی بڑی بلڈنگیں، ہپستال، یونیورسیٹیاں، کارخانے اور دیگر سازو سامان بنانا تھا تو ھندستان سے الگ ہونے کی کوئی خاص وجہ اور ضرورت بھی ہمیں نظر نہیں آتی ہے۔
ہمارے بزرگوں نے ایک نظریہ کی بنیاد پر دنیا کے نقشے میں اس ریاست کا خاکہ بنایا تھاکہ مملکت خدا داد کے آیئن قرآن و حدیث کی رو سے ہو یعنی کسی کو اس کا حق دیا جاے تو بھی اسلامی قوانین کے مطابق ہو اگر کسی سے کچھ لیا جاے تو بھی اسلامی قانون کی رعایت کرتے ھوئے اور اگر کسی کو سزا و جزا دینی ھو تب بھی قوانین الہی کے دائرے میں رہ کر سزا و جزا متعین ہو۔
مگرچند سال سے غیر ملکی فنڈ پر پالنے والی کچھ این۔جی۔یوز کی محنت اور فنڈنگ سے مٹھی بھر اسلام دشمن، شرم و حیاسے عاری،مفاد پرست عورتوں کو میدان میں اتارا ہے۔ جو "میرا جسم میری مرضی” کے نعرے، گندی تحریروں پر مشتمل پوسٹر، بینرز اور پلے کارڈ ہاتھ میں لیے سڑکوں پر نکل آتیں ہیں۔
کوئی بھی باشعور فرد خواہ وہ جتنا آزاد فکر اور آزاد خیال کیوں نہ ہو وہ بھی یہ ہرگز نہیں چاہئے گا کہ اس کی بیٹی کے ہاتھ میں اس طرح کے کارڈ ہوں اور مسلم معاشرے کو گناہ کی طرف دعوت دیتی پھیرے۔
ملک کے قوانین اور شریعت محمدی میں ممانعت کے باوجود بھی اس کام کو عملی جامہ پہنانے میں کس کا ہاتھ ہے اور کون فنڈنگ کر رہا ہے کیا ہمارے ریاستی اداروں کو اس کی تحقیق نہیں کرنا چاہئے کہ کس کے ہاتھوں یہ آنٹیاں کھلونہ بنی ہوئیں ہیں۔
شوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور مختلف ٹی وی چینلز پر دیکھتے آرہیہیں کہ مٹھی بر آنٹیاں "میرا جسم میری مرضی” کی بات ہی کر رہی ہیں۔
ان سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ مرد حضرات کونسے آئین اور کونسے قوانین کی خلاف ورزی کربیٹھے ہیں کہ جس کی وجہ سے یہ سراپا احتجاج کرنے پر مجبور ہیں اور کتنے عرصے سے ان کے حقوق پامال ہو رہے ہیں جس کے حصول کیلے سڑکوں پر نکل پڑیں ہیں۔
ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہے میرا دین مجھے حیا ہی سکھاتا ہے اسلام میں عورت کو جو مقام دیا گیا ہے دنیاکے کسی دین میں نہیں۔ اللہ نے ماں کے "قدموں تلے جنت رکھ دی ہے” اسلام بیٹی کو رحمت اور بیٹے کو نعمت قرار دیتاہے،بچوں کو ماں باپ کے آنکھوں کا نور، بیوی کو شوہر کی شریک حیات
اور بہن کو بھائی کی آبرو قرار دینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کی بھی تلقین کرتاہے۔
ہر دین میں عورت کی ایک خاص پہچان ہوتی ہے۔اور اسلام میں عورت کی پہچان عفت و حیا ہے، اسلام عورت کو آزادی دیتاہیمگر آوراگی کی اجازت ہرگز نہیں دیتاہے، اپنی مرضی نہیں اللہ کی مرضی کے مطابق چلنے کا حکم دیتاہے۔
اس تحریک کا ھدف صرف اسلامی معاشرے کو بگاڑناہے یہ لوگ مغریبی اور یورپی فرہنگ و ثقافت کو پاکستان میں بھی لانا چاہتے ہیں ان کے بیک گروانڈ میں برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل جیسیممالک ہیں جو قرآن و حدیث سے ہٹ کر پاکستان میں ایک نیا قانوں بنانے کے خواہش مند ہیں جس میں آوارگی، بی حیائی، اور فحاشی کی مکمل اجازت ہو۔ پاکیزہ ماں بہنوں کی عزت پامال ہو، ہر ایک کیلئیکھلی چھٹی ہو کہ جو مرضی میں آئے کریں۔
پاکستان میں ٹاک شو، سوشل میڈیا، فلم اور ڈراموں میں یہ دیکھایا جارہا ہے کی عورت کو مرد کے شانہ بشانہ ہونا چاہیے، آزادی ملنی چاہیے، عورت کو مظلوم اور محروم بناکر پیش کردیاجاتاہے۔
پاکستان میں اگر خواتین کو آزادی حاصل نہیں ہے تو ایک خاتون دو بار کیسے وزیر اعظم بن گئیں؟ یہ عورتوں کی مردوں کے شانہ بشانہ ھونے کی منہ بولتا ثبوت نہیں ہیں کیا۔؟ پاکستان میں جس میدان میں مرد نے قدم رکھا ہے ہراس میدان میں عورتیں بھی موجود ہیں۔
پاکستان کے تمام اداروں میں خواتین اعلی عھدوں پر فائز ہیں۔
جہاں اسلام نے عورت کو برابری کا درجہ دیا ہے وہاں اس کیلئے کچھ حدود بھی معین کئے ہیں اس کی پاسداری کرنا عورت پر فرض ہے۔
اسلام کی بیٹیاں یورپ میں حجاب کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ مگر یہاں کچھ لوگ اپنی ذاتی مفادات کی حصول کیلیے "میرا جسم میری مرضی” جیسے ناپاک وائرس پھیلانے میں مصروف ہیں۔
یہ لوگ آزادی کے نام پہ سکس فری زون بناناچاہتے ہیں۔ کہ جس کی وجہ سے یورپ میں پورا خاندانی نظام تباہ اور برباد ہوا ہے۔ امریکہ میں جنسی آزادی کی وجہ سے ہی 13 سے 19 سال کی 10 لاکھ بچیاں ریپ کا شکار ہوتی ہیں اور ان کے باپ کا کچھ پتہ نہیں ہوتاہے۔
جس طرح میل جانور کی زمہ داری فقط تولد نسل ہے باقی تمام تر زمہ داریاں ماں کی ہوتی ہے ایسا ہی سیکس فری ماحول میں ہوتاہے۔
اسی طرح ان کی کوشش ہے ہمارے ملک میں بھی یہ نحوست پھیلے جس کی اسلام نے ممانعت کی ہے اور قرآن و حدیث و سیرت آئمہ اس چیز کی کبھی بھی اجارت نہیں دیتے ہیں۔
یورپ میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں اپنی منفعت کے حصول کیلیے ان کی تصویر سے پوسٹر چھپانا، نمائش اور مشہوری کیلیے لوگوں کی توجہ کو جلب کرنے کیلیے ہی استعمال ہوتی ہیں۔
لہذا میری اپیل ہے مسلمان ماں بہنوں سے کہ خدارا اسطرح کی سازش سے دوری رہیں اور اللہ رب العزت نے آپ کو جو عزت دی ہے اس کی پاسداری کریں تاکہ دنیا و آخرت میں سرخ رو ہو۔
آمین