کالمز

گلگت بلتستان کی معاشی و اقتصادی حالت پر ایک طائرانہ نظر

تحریر: محبوب حسین

گلگت بلتستان جب یکم نومبر 1947 کو آزاد ہوا تب سے لیکر آج تک بہت سارے نشیب و فراز دیکھنے کو ملے ہیں۔ 1947ء کے آخری عشرے اور سن 1948ء تا سن 50-60 ء کے عشرے کے دوران بہت سارے اہم معاشرتی،معاشی اور اقتصادی تبدیلیاں رونما ہوئے ہیں اور اس وقت کے معاشرے کے حائل مسائل اور واقعات انتہائی دلچسپ اور قابل توجہ بھی ہیں اور سبق آموز اور آج کے ہم جیسے نوجوان نسل کے لیے عبرت کے اسباق بھی ہیں۔

سن 1891ء کے دوران انگریزوں کے آخری عہد اور پھر دوسرا راج کے زمانے میں گلگت، غذر، استور اور دیگر اہم مقامات تک رسائی کے لیے گھوڑوں اور خچروں کے واسطے اور باربرداری کے واسطے راستے بند چکے تھے اور پھر قیام پاکستان کے دس سال بعد یعنی 1957ء جنرل محمد ایوب خان کے عہد اقتدار میں بعض اہم مقامات تک پہلی بار انتہائی خطر ناک جیب روڈ وجود میں  آنے لگے تھے جن میں خصوصا ہنزہ، نگر، غذر اور استور کی اہمیت جگہوں تک جیپیں چلنے لگی تھی اور جنوب جگہوں تک اس طرح کے جیب روڈ بند چکے تھے انتہائی خطرناک اور اترائی چڑھائیوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ اس سلسلے میں گلگت تا ہنزہ اور نگر کا راستہ انتہائی خطرناک سمجھا جاتا تھا ۔

اس زمانے میں اس جیب کے ذریعے گلگت تا یاسین مرکز تک پہنچنے کے لیے نو گھنٹے لگتے تھے، اسی طرح گلگت تا کریم آباد ہنزہ تک چھے گھنٹے لگتے تھے۔ یہی صورت حال دیگر جگہوں کی طرف بھی تھی اور جب سن پچاس، ساٹھ کے عشروں سے قبل کی حالت کے بارے میں حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ تمام علاقہ جات ایک دوسرے سے مکمل بالکل منقطع تھے، ایک وادی دوسرے وادی سے کٹی ہوئی تھی حتی بہت ہی قریب قریب بسنے والے آبادی کے لوگ ایک دوسرے سے ملنے کے واسطے مشکل دریا وغیرہ عبور کرتے تھے اور وہ بھی موسم گرما میں ممکن ہی نہیں تھا۔ابھی دور کی بات نہیں 1980 ء تک گلگت اور غذر  وغیرہ کے جگہوں میں لکڑی کے بنے ہوئے کشتی(جھالے) نظر آتے تھے جس کے ذریعے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں انتہائی جسمانی انرجی صرف کرنے کے بعد پہنچ پاتے تھے۔ کچھ علاقوں میں گراڈی کے ذریعے پار ہوا کرتے تھے اور گلگت بلتستان کے کچھ وادیوں میں ابھی بھی یہ منظر آپکو دیکھنے کو ملے گا۔اس وقت پل بہت کم جگہوں پر بنے ہوئے تھے۔ مثلا جپوکے پونیال کا جھالا جو 1982 ء تک تھا جس کے ذریعے لوگ آرپار ہوا کرتے تھے اور وادی پونیال کے گاؤں گلوداس میں ابھی بھی یہ جھالا موجود ہے جو یہاں کے باشندے موسم گرما میں اسی جھالا کے ذریعے آرپار ہوتے ہیں۔

جب معاشی تنگ دستی کے بارے میں اس وقت کے حالات کے بارے میں  ‘روشنی کا سفر’ مصنف عالیجا عبدالللہ جان ہنزائی نے کچھ اس طرح ذکر کیا ہے کہ یہ سارا علاقہ بلاشبہ ایک خوفناک اور ہر لحاظ سے تنگ دستی کے زمانے سے گزرا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ قیام پاکستان سے قبل گنتی کے چند لوگ برٹش دور اور بعد میں ڈوگرہ دور میں  ملازمت کیا کرتے تھے۔ بعض افراد فوج میں اور گنتی کے چند مقامی افراد نچلے درجے کے سول ملازمتوں میں داخل ہوئے تھے جس کی وجہ سے گنتی کے یہ چند افراد رائج الوقت سکہ سے واقف ہوا کرتے تھے۔ اکثر لوگ آپس میں لیں دیں جنس کی صورت میں  کیا کرتے تھے۔ جہاں تک اس زمانے میں پہنے اور اوڑھنے کے بارے میں ذکر کیا جاتا ہے اس زمانے میں مرد لوگ عموما اونی کپڑے استعمال کیا کرتے تھے اور خواتین بھی عموماً اونی کرتہ وغیرہ استعمال کیا کرتی تھیں۔ البتہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ چینی ترکستان سے  رابطہ ہونے کے سبب ہنزہ میں خصوصا شنگھائی چھینٹ اور مردوں میں کھادر قسم کا موٹا کپڑا استعمال ہونے لگا تھا اسی طرح نمدے اور رضائیاں وغیرہ بھی متعارف ہونے لگے تھے اسکے علاوہ موزے ، تختہ چائے وغیرہ بھی استعمال ہونے لگی اور برتن وغیرہ بھی سنکیانگ کاشغر سے آنے لگے تھے جن میں خصوصا چاء جوش اور دیگر برتن وغیرہ بھی متعارف ہونے لگے۔

اسی دوران بدخشان و واخان کے سرحد کے آر پار سے بعض اشیاء وغیرہ چترال و غذر  کے لوگوں  میں آنے لگیں اور اسی سلسلے میں بعض اشیاء کشمیر سے بھی متعارف ہونے لگیں۔ اوپر جن جن اشیاء کا ذکر  کیا گیا یہ بھی چند بااثر خاندانوں کی کسی نہ کسی شکل اور وسیلے سے دستیاب ہوا کرتی تھیں۔ تمام گھریلو معاملات خواتین ہی سر انجام دیا کرتی تھیں اور مرد لوگ کاشتکاری اور مال مویشی وغیرہ چرانے اور دیگر کاموں میں مصروف ہوا کرتے تھے۔

 غرضیکہ یہ تمام خطہ معاشی و اقتصادی لحاظ سے اور دیگر قدرتی اور مقامی مشکلات میں گرا ہوا تھا اور وسائل وغیرہ کا فقدان تھا لیکن ان قدرتی حالات میں یہاں کے باشندے خدا پرست بہت زیادہ تھے، معاشرتی اقدار کی پاسداری کی جاتی تھی اور مقامی تہواروں اور خوشیوں کے دیگر مواقع سے بھرپور لطف اٹھایا کرتے تھے غرضیکہ ان جیسے جغرافیائی اور مخدوش مقامی حالات میں بچوں کو تعلیم دلانا اور ان کی تربیت کرنا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اور جس زمانے میں ابتدائی طور پر جن جن جگہوں میں مدرسے قائم ہوئے تھے ان میں بھی بہت ہی کم بچے داخل ہوا کرتے تھے بلکہ ایسے بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے مال مویشی کی دیکھ بال پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ 1947ء سے 1980 ء تک اقتصادی و معاشی حالات نہایت سنگین تھے۔ اسکے بعد دہرے دہرے گلگت بلتستان کی قسمت بدلنے لگی ہر طرف ترقیاتی کام شروع ہوگئے، لوگوں میں شعور آگئی پھل فروٹ کے درخت اگانے لگے، اس معاشی و اقتصادی ترقی میں سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی کاوش قابل تحسین ہیں جس میں مختلف اداروں کا بروقت قیام، حفظان صحت کے ادارے، تعلیمی اداروں کا قیام ، صنعتی اداروں کا قیام، زراعت کے ادارے۔ فورسٹ کے ادارے، محکمہ خوراک کے ادارے،سیاحتی اداروں کا قیام وغیرہ شامل ہیں۔ ان اداروں کی بدولت آج گلگت بلتستان کا ہر باشندہ پاکستان سیمت دنیا بھر کے اداروں میں اپنی سروسز بہادری سے نبھا رہے ہیں پاکستان اور گلگت بلتستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔دوسرے صوبوں سے کم وسائل اور روزگار کے مواقع میسر نہ ہونے سے پھر بھی یہاں کے نوجوان معاشی اور اقتصادی لحاظ سے بہت زیادہ مضبوط ہیں ۔ پاکستان چین کی تعاون سے اقتصادی راہداری منصوبہ اور قراقرم ہائی وے کا ملاپ اسی علاقے سے ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور گلگت بلتستان حکومت ملکر یہاں کے نوجوان طبقہ کے لیے روزگار کے مواقع میسر کرلیں جس میں فیکٹریوں اور انڈسٹری کا قیام وقت کی اہم ضرورت بھی ہے، یہاں کے قدرتی وسائل کی طرف بھی توجہ دینے اشد ضرورت ہے ۔ گلگت بلتستان میں ایک ہی یونیورسٹی ہے  جو کہ تعلیم کو کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے لہذا وفاقی اور صوبائی گورنمنٹ سے استدعا ہے کہ گلگت بلتستان میں مختلف شعبوں میں جامعات کا قیام عمل میں لائے جس میں میڈیکل یونیورسٹی، انجینئرنگ یونیورسٹی، ایگریکلچر یونیورسٹی تاکہ یہاں کے طلبہ و طالبات اپنی گھر کے دہلیز پر دور جدید کی تقاضوں کے مطابق علم کی نور سے فیضیاب ہو ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button