*جہاں جانوں کی قیمت ہوتی ہے وہاں قانون کی پاسداری ہوتی ہے*
تحریر: اختر شگری
ہماری یہ زندگی ایک خاص ہدف کیلئے دی گئی ہے اس کی پاسداری نہ کرنا اپنی مرضی چلانا اور قوانین و تدابیر پر عمل پیرا نہ ہونا فقط نادانی اور رسوائی ہے.
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرتا کی ہم روز مرہ کی زندگی میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں ایک دوسرے کے دکھ درد میں کام آنا، ایک دوسرے کی مدد کرنا اور ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے کا اصل نام ہی بندگی ہے۔
مگر سمجھے تو کون سمجھے، سمجھائے تو کس کو سمجھائے اور اگر درد دل بیان کرنا چاہے تو کس کے ہاں جا کر بیان کرے کوئی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں کوئی اپنی ذمہ داری نبھانے کو آمادہ نہیں احتیاطی تدابیر اور قوانین فقط اور فقط تحریر کی حد تک رہ گئے ہیں نہ کوئی عمل پیرا ہوتا نظر آرہا اور نہ کسی میں وظیفہ سمجھ کر امربالمعروف کرنے کی ہمت نظر آتی ہے.
ایک غریب گھرانے کا فرد اگر مرغی کا انڈا بھی چوری کرے تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہچکچاتے ہوئے دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگر کوئی سیاسی لیڈر پورے عوام کا حق کھا بھی لے تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
یہی صورت حال گلگت بلتستان کے مظلوم عوام کے ساتھ بھی عرصہ دراز سیدیکھنے میں آرہی ہے آئے روز حادثات کا شکار ہونا۔ ان حادثات میں کتنی انسانی جانیں چلی جاتی ہیں تو کئی انسان معذوری کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان حادثات کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھائے نہیں جاتے۔ یہ حادثات خواہ زلزلے کی صورت میں ہو یا سیلاب کی شکل میں ہو یا حسب سابق روڑ ایکسیڈنٹ کی صورت میں ان حادثات کا شکار انسان ہی ہوتا ہے۔ چیزوں کینقصانات کا ازالہ تو ہوسکتا ہے مگر انسانی جانوں کا کوئی نعم البدل نہیں۔ جب چلی جاتی ہیں تو رہتی دنیا تک پھر واپس نہیں آسکتیں.
گلگت بلتستان میں جو ظلم و زیادتی عوام کے ساتھ ہوتی آرہی ہے کبھی خالصہ سرکار کے نام عوام کی زمینوں پر قبضہ تو کبھی متنازعہ قرار دیکر حقوق دینیکو تیار نہیں تو کبھی آسمانی آفات کی نذر ہونے والے سیلاب زدگان حقوق کے منتظر سال بھر ضروریات زندگی سے محروم آسمان تلے فقیرانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں مگر پھر بھی اپنی مدد آپ کے تحت خیر زندگی تو بسر کر ہی رہے ہیں۔
مگر صد افسوس ہرسال آفات زمینی کا شکار ہونے والوں کی اموات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے جی بی میں روڈ حادثات اب تو روز روز کا معمول بن چکے ہیں جو انسانی جان کے ضیاع کا ذریعہ بنا ہے۔ ان حادثات کی وجہ سے سالانہ سینکڑوں جانیں چلی جاتی ہیں۔
حادثات ڈرائیور حضرات کی لاپرواہی، پرانی و تھرڈ ماڈل بسوں کی بلتستان قراقرم ہائی وے پر معمول کی سروس، کچی اور تنگ سڑک پرخطر موڑ، بسوں پر اور لوڈنگ اور جلدبازی کے علاوہ حکومتی اداروں (این ایچ اے، ٹریفک پولیس، سی اینڈ ڈبلیو) وغیرہ کی عدم موجودگی اور غفلت کا نتیجہ ہے۔
انسانی جانوں کی قیمت وہاں ہوتی ہے جہاں قانون پر عمل ہو ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ
1۔ سڑکوں کی حالت بہتر بنائی جائے۔
2۔ جہاں جہاں سرنگ کی ضرورت کے پیش نظر فنڈ مختص کئے ہے وہاں سرنگ کھودا جائے۔
3۔ خطرناک موڑ کا خاتمہ کیا جائے۔
4۔ دریا والی سائٹ پر خاص کر موڑ والی جگہ دیوار کھڑی کردی جائے یا مضبوط لوہے کی سلاخ لگائی جائے۔
5۔ گاڑیوں کی کنڈیشن بہتر کرایا جائے۔
6۔ پرانی اور خراب کنڈیشن بسوں کی سروس پر جرمانہ عائد کیا جائے اور عمل درآمد نہ کرنے والی کمپنیوں کی لائسنس کینسل کیا جائے۔
7۔ ڈرائیور کے لائسنس چیکنگ کے ساتھ ساتھ فزیکل فٹنس کو بھی یقینی بنایا جائے۔
8۔ اتنی لمبے سفر میں ایک ڈرائیور کا گاڑی چلانا موت کو دعوت دینے کا مترادف ہے لہذا کمپنیوں کو دو ڈرائیور رکھنیکا پابند بنایا جائے ان میں سے ایک مکینگ بھی ہو تاکہ راستے میں فنی خرابی کی صورت میں قبل از وقت متوجہ ہو کر کسی بھی نا خوشگوار واقعہ سے نمٹا جا سکے۔
9۔ سفر سے قبل بسوں کی مکمل سروس اور ہر لحاظ سے تسلی بخش چیکنگ ہو۔
10۔ روڈ پر سائن بورڈ لگا دیا جائے۔
11۔ اضافی فولڈنگ سیٹ سسٹم ختم کیا جائے۔
12۔ گاڑی پر زیادہ بوجھ ہونے اور چھت پر زیادہ اونچا لوڈ چڑھانے پر پابندی لگادی جائے۔
13۔ PIA (پی آئی اے) کی من مانی روز بروز کرایہ میں اضافے کی وجہ سے ہم زمینی پرخطر سفر پر مجبور ہیں لہذا شاہین ائیرلائن کے علاوہ دوسری ائیر لائن بھی بحال کرکے عوام کو ریلیف دیا جاے۔
14۔ چلاس، کوہستان والوں کی غنڈہ گردی اور جو لوگ خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں ان کو قانون کی کسوٹی میں لایا جاے۔
میں تو حیران ہوں کہ اتنے حادثات، اموات اور قاتلوں کے باوجود کسی کے کان پر جونگ تک نہیں رینگی نہ کسی کے خلاف ایف آئی آر کٹی نہ کسی کو سزا دی جاتی ہے نہ کسی کمپنی کا لائسنس (licence) کینسل ہوتا۔
میرا گلگت بلتستان کی حکومت سے دست بستہ اپیل ہے ان حادثات سے چھٹکارا پانے کیلئے فوری اور ٹھوس اقدامات کیا جائے اور جو بھی آفیسر ہو یا عوام کے پیسوں سے پلنے والے ایجنڈ یا کوئی مفاد پرست بیشعور حیوان صفت انسان جو اسطرح کے حادثات کا سبب بنتے آئے ہیں اور کتنی قیمتی جانیں اور کتنے ملک و ملت کے چمکتے ستارے اسی شاہراہ کے سفر میں غروب ھوے ہیں۔
ہم کیا جانے کسی کا دکھ ان ماؤں سے پوچھیں جن کیبچے بچھڑ گئے ہیں ان بہنوں سے پوچھیں جن کے بھائی کی لاش تک نہیں ملی ان بوڑھے باپ سے پوچھیں جو امید کا چراغ بجھا زندگی کی خوشی سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔
خدارا تمہارے ایک لمحہ کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے جن پر جو گزری ہے بہت ہے اب مزید ان کے زخموں پر نمک نہ چھڑکائیں مزید کسی پر کوئی تکلیف نہ پہچنے دیں جن پر جو گزری ہے اللہ ان کو صبر دے اور جو چل بسے ہیں خدا ان پر رحمت کرے۔
اور جن کی لاپروائی اور غفلت کی وجہ سے ان قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا آرہا ہے ان کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جاے۔ امید ہے کہ جی بی حکمران سر جوڑ کے بیٹھ کے کوئی نہ کوئی حل نکالیں گے۔ انشا اللہ۔۔۔