کالمز

تنقیدی سوچ سے مافیاز خوفزدہ کیوں ہیں؟

تحریر : راجہ حسین راجوا
تنقیدی سوچ ہی  چیزوں کو پرکھنے اور اپنے حقیقی دانشوارانہ صلاحیت کو دریافت کرنے کا عملی مظاہرہ ھے. اس سوچ کو لے کر ہی لوگ ترقی کی منزلوں کو طے کرلیتے ھیں. وہ معاشرہ رو بہ ترقی ہوتا ھے جہاں تنقید کو کھلے دل سے تسلیم کیا جاتا ھے  (تعمیری)تنقید جمہوری رویے کا نام ھے ہم اپنے ملک کو جمہوری ملک بنانا چاہتے ھیں اور جمہوریت کو مضبوط دیکھنا چاہتے ھیں. ہمارا معاشرہ آمرانہ طرز حکمرانی سے نالاں ھے، اسلیے کہتے ھیں کہ ”بدتریں جمہوریت بہترین امریت سے بہتر ھے“ ہم زبان سے یہ سب نعرے بلند کرتے ھیں کہ ہم جمہوری اداروں کو مضبوط دیکھنا چاہتے ھیں. جب عملاً کوئی ایسا کرنے کا وقت آئے تو ہم انکے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر کے اسکی حوصلہ شکنی کرتے ھیں، اور آمرانہ سوچ کو سینے سے لگاتے ھیں. آمرانہ طرز حکمرانی سے لوگوں کی سوچ پہ پابندی لگتی ھے، پہلے سے دیئے گئے انسٹرکشنز  ( instructions ) کو فالو کرنے ھوتا ھے، وہ چاہتے ھیں کہ لوگ انکے ماتحت کام کریں اور نتیجتا  معاشرہ تباہی کی طرف جاتا ہے
تنقید اور تنقیدی سوچ کو بڑھاوا دینے سے ہی دنیا ترقی کرتی ھے. ہم جب سائنسی دنیا میں ھونے والی سائنٹفک ایجادات کا مطالعہ کرے تو ایک سائنسدان پہلے والے سائنسدان کی تھیوری کو ریجکت کرتا یوا نظر آتاھے اور اپنے علمی پیمانے سے اس ایجادکو ڈیفائن کررہا ہوتا ہے یہی وجہ ھے کہ آج دنیا چاند تک پہنچ چکی ھے. اگر وہ پہلے والے سائنسی تھیوریز کو فالو کرتے تو آج سائنس اتنی ترقی نہیں کرتی پس اس سے معلوم ھوتا ھے کہ مثبت تنقید سے ہی لوگ ترقی کرتے ھیں. اسوقت بھی ترقی یافتہ ممالک اپنے اوپر ھونے والی تنقید کو فیڈ بیک (feedback )کے طور پر لیتے ھیں اور اسے اپنے اسٹینڈرز کیساتھ موازنہ کراکر چیزوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ھیں. ہمارا شمار تھرڈ ورلڈ کنٹریز (Third world countries) میں ھوتا ھے ہمارے اوپر لازم ھے کہ ہم اس قسم کی سوچ کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ معاشرہ میں ھونے والی برائیوں اور ہماری ترقی میں حائل تمام تر رکاوٹوں کا خاتمہ ھوسکے.
کل ایک خبر پر نظر پڑی تو  حیرت بھی ھوئی اور افسوس بھی پاکستان کا ایک اہم  اور موقر تعلیمی ادارہ جی سی کالج جہاں پر حصول تعلیم طالب علموں کا خواب ھوتا ھے وہ اسلیے  کہ لوگ سمجھتے ھیں کہ وہاں طلبہ کو صحیحِ نہج پہ گائیڈ کیا جاتا ھے تاکہ اُدھر  سے فراغت کے ساتھ اپنے پروفیشنل لائف کو بہتر طور پہ چلا سکیں۔. ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اس ادارہ میں بھی اتنی پست سوچ کو لے کر اسٹوڈنٹس کی تربیت کی جاتی ہے. ضیغم عباس میرے کالج  کے دوست ھیں ہم دونوں آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکول میں بیچ فیلو رہے ہیں میں ضیغم عباس کی طبیعت سے پوری طرح واقف ھوں کہ وہ بہت ہی قابل اور مثبت سوچ کے حامل انسان ھیں. ہمارے کالج میں بھی انکا شمار قابل طلبہ میں ھوتا تھا وہ بات کرتے ہوئے دلیل پہ زور دیتے تھے اور عملیت پسند تھے۔ وہ اس فن کا مظاہرہ کالج لائف میں بھی کرتے تھے. مجھے پورا واقعہ یاد نہیں ھے اس سے ملا جلا واقعہ کالج میں بھی پیش آیا تھا لیکن بعد میں انکی سوچ کو مثبت قرار دے کر انھیں واپس بلایا گیا. وہ عام پریکٹسز سےہٹ کر کچھ نیا کرنا چاہتے ھیں. وہ انویٹیو مائنڈ رکھتے ( innovative mind) رکھتے ھیں، اسے بغاوت کا نام دے کر کنٹریکٹ ختم کرنا ہم سب کے لیے بالخصوص جی سی کالج کی مثبت سوچ رکھنے والی انتظامیہ کے افراد کیلے لمحہ فکریہ ھے. اکیسوی صدی میں لوگ اس پست سوچ کو لے کے بیٹھے ھیں لوگوں کے اوپر اپنی سوچ کو مسلط کرنے کی کوشش ھے.
ہمارے ملک کے ہر شعبے میں مافیا قابض ھے اور وہ گھس بیٹھیے نہیں چاہتے ھیں کہ کچھ نیا ھو کیونکہ ان میں سے ذیادہ تر لوگ نا اہل اور شفارشی ھوتے ھیں ان کے پاس اتنی اھلیت نہیں ھوتی کہ وہ اس قسم کی سوچ کو برداشت کر سکے وہ آمرانہ سوچ کو لے کر بیٹھے ھوتے ھیں وہ چاہتے ھیں کہ ہر کام میں انہیں ہی فالو کریں اور ہر بات پہ جی سر جی سر کہیں. یہ انسانی سوچ سے عاری بات ھے کہ پولیکٹکل سائنس کے لکچرر کو اس بات پہ نکالا گیا ھے کہ آپ کی وجہ سے طالب علموں میں سیاسی شعور پیدا ھوتا ھے، سیاسیات کا استاد سیاست نہیں تو اور کیا سیکھائینگے. شاباش ضیغم عباس آپ اپنے شعبے میں کامیاب ٹھہرے آپ نے اپنے کام کو احسن طریقے سے نبھایا. جی سی انتظامیہ کو اس بارے  میں سوچنا ھوگا کہ اس بندے نے انکی کالج میں چار سال سرف کرکے  درس و تدریس کے شعبے میں اپنے سروسز دے چکے ھیں انکے خلاف کریک ڈون کرنے سے دوسرے لکچرز کی بھی حوصلہ شکنی ھوگی جس سے ان کے ادارے کا مورال ڈون ھونے کا خدشہ ھے. اسلیے میں انکو یہ مشورہ دونگا کہ ضیغم عباس کو ریگولر کر کے اپنے پڑا پن کا مظاہر کرے تاکہ درس و تدریس سے منسلک پروفیشنلز کی حوصلہ افزائی ھوسکے.

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button