ڈاکٹروں کا احتجاج ختم: علماء کی بہترین کاوش
تحریر: امیرجان حقانی
ڈی ایچ کیو ہسپتال چلاس کے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں نے اپنے جائز مطالبات حل نہ ہونے پر اپنا استعفیٰ وزیراعلی کو بھجوا دیا تھا. عالمی سطح پر نوول کرونا وائرس کی دھماچوکڑیوں کے موقع پر احتجاج اور بائیکاٹ کی کال غیر مناسب اور بے موقع تھی لیکن مطالبہ بہرحال جائز تھا.
ڈاکٹروں کے مسائل پر کسی نے کان نہیں دھرے، انتظامیہ نے سنجیدگی سے سوچنے کی بجائے ڈاکٹروں کو انتظامی کاروائیوں سے ڈرایا.یہ رویہ بھی غیر منطقی تھا.
میں نے دیامر کے تین ممبران و وزراء سے گزارش کی کہ بیوروکریسی اور وزیراعلی سے مل کر ڈاکٹروں کے مسائل حل کریں اور عوام کو کرب سے نکالیں. ان کو یہ بھی بتایا کہ سوشل میڈیا پر دیامر کے ممبران و وزراء پر ڈاکٹروں کے ایشو پر سخت تنقید ہوری ہے.
لیکن ان کے کمنٹس دیکھ کر مجھ سمیت پروفیسر ایسوسی ایشن کے صدر ارشاد احمد شاہ کو سخت افسوس ہوا.ہم کف افسوس ملتے رہے.
واللہ! دیامر کے ممبران کو مخلص ہونے کیساتھ تعلیم یافتہ بھی ہونا ضروری ہے.ورنا مسائل یوں ہی الجھتے رہیں گے. یوتھ اس چیز کا آئندہ الیکشن میں خوب خیال کیجے.اپ کے نمائندے تگڑے اور باصلاحیت ہوں تو بہت سارے مسائل دہلیز پر ہی حل ہونگے.
شیخ الحدیث مولانا عبدالقدوس کی سربراہی میں علماء کرام اور سول سوسائٹی کے ورکرز کی خصوصی محنت اور گزارش پر چلاس کے ڈاکٹروں نے احتجاج اور بائیکاٹ ختم کرکے ڈیوٹی دینا شروع کیا جو خوش آئند ہے.
الحمداللہ!
اب بھی سواسائٹی میں علماء بااثر ہیں. رفاہی اور سماجی کاموں کے لیے علماء کرام کو یوں کردار ادا کرتے رہنا چاہیے.
ڈاکٹر صاحبان سے گزارش ہے کہ نوول کرونا کی اس عالمی مصیبت میں اپنے جائز مطالبات میں بھی نرمی کا مظاہرہ کریں اور انتظامیہ سے گزارش ہے کہ ڈکٹیٹر بننے کی بجائے فیسلیٹیٹر کا کردار ادا کریں. تاکہ صحت جیسے اہم مسئلے میں عامۃ الناس کو پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے.
یہ ماننے میں حرج نہیں کہ علماء کرام معاشرے کے اندر مضبوط جڑیں رکھتے ہیں. بہت بااثر ہیں. ان کی بات مانی جاتی ہے. لوگ احترام کرتے ہیں اور ان کا سماجی کردار تسلیم بھی کرتے ہیں. اگر علماء اپنا سماجی اور اصلاحی کردار ادا کرنا چاہیے تو بہت کچھ کرسکتے ہیں. گلگت بلتستان میں قیام امن کے لیے علماء کرام نے بہت ہی مثبت رول ادا کیا ہے.بڑے بڑے جرگوں کے ذریعے پورے جی بی میں امن کو یقینی بنایا ہے.صلح صفائیاں کروائی ہیں.
امن معاہدہ 2005، امن معاہدہ 2012، امن معاہدہ استور اور امن معاہدہ بلتستان صرف اور صرف جید علماء کرام کی رہین منت ہے. پورے جی بی کے تمام مکاتب فکر کے علماء و شیوخ نے ان معاہدوں کی تشکیل و تنفیذ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے. امن معاہدوں اور قیام امن کے لیے، جی بی اسمبلی، سول انتظامیہ، آرمی، اور عوام الناس اور اہل علم و فکر کیساتھ مل بیٹھ کر رہنمائی اور رہبری کا رول ادا کیا ہے.
ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم، صحت اور عدل و انصاف جیسے لازمی امور میں بھی علماء اپنا سماجی کردار ادا کریں. یقین جانیں اگر ان تین امور پر بھی تینوں مکاتب فکر کے علماء و مشائخ ایک پیج پر آئے تو کمال ہوسکتا ہے.
علماء کرام سے میری خصوصی گزارش ہوگی کہ ہر وہ کوشش کریں جس سے تعلیم عام ہو، صحت کے مسائل حل ہوں، اور معاشرے میں قیام عدل ممکن ہوسکے.
یہ طے ہے کہ علماء کرام کے پاس اتھارٹی نہیں لیکن علم و عمل کے ذریعے بہترین رہنمائی اور آگاہی دے سکتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑے اخلاص کیساتھ حاضر ہوکر بڑے بڑے مسائل حل کرسکتے ہیں. اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں.
مبارکباد کے لائق ہیں دیامر کے علماء کرام اور یوتھ، جنہوں نے مشکل کے اس وقت میں ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ حل کردیا. اللہ اس کا اجر عظیم دے.
لاریب!
خالص جذبوں اور نیک نیتی کیساتھ انجام دی جانے والی کاوشیں بہترین نتائج دیتی ہیں.