کالمز
کرونا سے زیادہ خطرناک ہماری غیر لچکدار و منجمد سوچ ہے
تحریر : علی مدد
خوف کرونا وائرس کا نہیں ہے، بلکہ اس سوچ کا ہے جو کرونا وائرس سے بھی زیادہ ہولناک اور تباہ کن یے۔ جو جسم کے ساتھ ساتھ احساس مروت، عقل اور روح کو بھی اندر اندر سے بیمار کر دیتی ہے۔
اس سوچ کی بنیاد بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق ( امت کو کمزور کرنے کیلے ) جنگ عظیم دوم کے بعد عالمی طاقتوں کا قصداً مقامات مقدسہ / سعودی عرب کو آل سعود کے حوالہ کرکے ڈالی دی گئی۔ اس نظریے کا پہلا وار غالباً 1979 میں ہوا جب روس نے افغانستان میں قدم رکھا ۔ سابقہ سپر پاور سویت یونین کی مزید پیش قدمی کو روکنے کیلے امریکہ بہادر نے پوری دنیا سے مجاہدین اکھٹے کرکے افغانستان پہنچا دیا اور پاکستان کے مغربی سرحد کے ساتھ ساتھ جہادی کمپس کی جال بچھا دی اور یوں موجودہ سپر پاور اور دیگر قوتوں کی سرپرستی میں جہادی سوچ / کلچر کو فروغ ملا۔
اسی سال ہی ( 1979) انقلاب ایران کے بعد عرب دنیا اور ایران کے مابین خطے میں ایک نئے محاذ آرائی کا آغاز ہوا، جس میں دو مخالف مزہبی نظریات پہلی مرتبہ کھل کر آمنے سامنے اگئے۔ خطے میں اپنے اپنے نظریات کی بالادستی و غلبے کیلے Proxies , اعلانیہ و غیر اعلانیہ آپریشنز کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔
امت کے اندر نظریاتی بنیاد پر اس تقسیم نے پورے مسلم دنیا کو جنگل کی آگ کی طرح اپنے لپیٹ میں لیے لیا۔ پاکستان عرب – ایران کی باہمی تناؤ سے سب سے زیادہ متاثر ہوا اور موزوں میدان جنگ ثابت ہوا۔ فرقہ واریت کی آگ کے تھپیڑے نے میرے جنت نظیر خطہ گلگت بلتستان کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ 1988 کے فرقہ وارانہ فسادات میں ہزاروں معصوم افراد جو کئی صدیوں سے آپس کے رشتوں میں جڑے ہوئے تھے اچانک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے اور قیمتی جان و مال سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
کرونا جیسی جان لیوا وبا کے بعد اب امت کو سوچنا چائیے کہ ان کی بقا، سلامتی، ترقی و خوشحالی کا راز آپس کے چپقلشوں میں اپنی توانائی ضائع کرنے میں نہیں ہے بلکہ مل کر انسانیت کو درپیش سنگین خطرات سے نمٹنے میں ہے جیسے قدرتی آفات ، کرونا وائرس و دیگر موذی امراض، موسمی تبدیلیوں کے اثرات و تباہ کاریاں ، سکڑتے قدرتی وسائل / پینے کے پانی کی نایابی، خوراک کی کمی ، ماحولیاتی آلودگی ،ابادی کے بے تحاشا اضافے پر کنٹرول وغیرہ شامل ہیں۔
لیکن ان تمام خطرات جن کا اوپر مختصراً زکر آچکا ہے، سب سے زیادہ تباہ کن وہ انتہا پسند / دقیانوسی سوچ ہے جس نے امت کو آپس میں تقسیم در تقسیم کر رکھا ہے جو دین فطرت کو اجتماعی سوچ / دانش کی بجائے مخصوص گروہی سوچ تک محدود کر رکھا ہے۔ جس نے اجتہاد اور جدت کے راستے میں دیوار حائل کرکے امہ کو چودہ سو سال پہلے کے زمانے میں رہنے پر مجبور کر رہا ہے۔
ہمارا ایمان ہے، دین اسلام دین فطرت ہے جو ہر زمانے کیلے قابل عمل اور متوازن زندگی گزارنے کی ضمانت و رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ہمارے علماء / دانشوروں کو چاہیے کہ وہ قرآن و نبی کریم کی عترت سے تمسک رہتے ہوئے قوم کو ایک ایسا نظام دے دیں جو متحرک ہو، عصر حاضر کے چیلنجز سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ دین فطرت کی صحیح معنوں میں ترجمانی بھی کریں۔