کالمز

اے گھر کی شہزادیو

شمس الرحمن تاجک
میری تین بیٹیاں ہیں۔
پانچ بہنیں،ماں جی اور ایک شریک حیات۔
ماں جی سے شروع کرتے ہیں۔ آن پڑھ خاتون ہیں والد صاحب پڑھے لکھے۔ مگر کسی بھی بچے کو میٹرک تک پتہ نہیں چلا کہ ماں جی پڑھی لکھی نہیں ہیں۔ کوئی نصابی و غیر نصابی سوال کسی بھی بچے نے ماں جی سے پوچھاتو والد صاحب فوری جواب دیا کرتے تھے۔ ماں جی انتہائی محنتی، حد سے زیادہ زمانہ شناس اور بچوں کی پرورش میں کسی بھی سطح پر کمپرومائز نہ کرنے والی شخصیت ہیں۔ گھر میں ان کی حکمرانی چلتی ہے۔ بس کبھی کبھی ہم بچے ان کی راجدھانی میں کچھ خلل پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں ورنہ ان کی منہ سے نکلی ہوئی بات والد صاحب سمیت سب کے لئے حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ ماں جی کے ساتھ ایک اور رشتہ بھی ہے۔ زندگی کے مسائل سے لڑتے لڑتے جب برین ہمبرج کے تمام لوازمات پورے ہوچکے ہوتے ہیں تو ماں جی کی گود میں سر رکھ چپ چاپ لیٹ جاتا ہوں۔ پتہ نہیں کیا جادو ہے ان کی گود میں۔ تمام دکھ درد غائب اور تمام مسائل کا حل نکل آتا ہے اور تمام ذہنی تھکاوٹ بھی کہاں غائب ہوجاتی ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔پوچھنا یہ تھا کہ کیاکوئی بھی ماں اپنی ”مرضی“ کے لئے بچے سے اپنی گود میں موجود زندگی اور پیروں تلے سندیافتہ جنت چھین سکتی ہے۔؟
بہنیں پانچ تھیں، چار رھ گئی ہیں ایک کا انتقال ہوا ہم یہ سوچ کر خوش تھے کہ والدین کے بعد پورے خاندان کو یکجا اور متحد رکھنے کے لئے سب سے بڑی بہن ہونے کے ناطے وہ اپنا کردار احسن طریقے سے نبھانے میں کامیاب رہیں گی۔بھائیوں کو کبھی ان کے سامنے سراٹھا کر بات کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ کجا یہ کہ ان پر حکم چلایا جاتا۔ اتنے اختیارات کے باوجود جب بھی وہ میکے آتی سارے گھر والوں کے کپڑے وہی دھویا کرتی تھی۔کھانا بھی وہی بنایا کرتیں اور غلطی سے کسی بھائی کا ہاتھ جھوٹے برتن کو لگ جاتے تو گھر میں ہنگامہ مچا دیتیں۔عمر میں مجھ سے کم از کم 20 سال بڑی ہوں گی۔ مگر جب بھی ان سے ملنے ان کے گھر جاتے۔ کھانے سے پہلے چترال میں ہاتھ دھلوانے کی جو رسم ہے جو اکثر و بیشتر بچوں سے کرایا جاتاہے میری بہن یہ فریضہ خود انجام دیتی۔ ان کی یہ عادت میرے لئے سوہاں روح بن جاتی۔ ان کے رعب دار شخصیت کی وجہ سے ان کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے۔ ان کے انتقال تک ہمت ہی نہیں ہوئی کہ جی بھر کے ان کے چہرے کی طرف دیکھیں۔ ہمیشہ کے لئے رخصت کرتے ہوئے ان کو قبر میں جب اتار رہے تھے تو بے اختیار بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ تا قیامت ایک نظر دیدار کیا تھا۔ وہ پرکشش، مسکراتا ہوا اور مطمئن چہرہ دل میں ایسا نقش ہے کہ کسی بھی پل آنکھیں بند کرو مسکان بھرے چہرے کے ساتھ آنکھوں کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہے۔ شکر ہے چار بہنین حیات ہیں۔ رویہ ان کا بھی وہی ہے جو جانے والی کی تھی۔ میں جب بھی اپنی بہن کی قبر پر جاتا ہوں تو گھنٹوں بیٹھ کر وہ تمام باتیں ان کے گوش گزار کرتا ہوں جو ان کے میکے میں چل رہی ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی بیٹیوں کے رزلٹ کارڈ بھی پڑھ کر سناتا ہوں۔ جب بھی جاتا ہوں تو پروانے کی طرح ان کی قبر کے گرد چکر لگاتا ہوں۔قبر کے سرہانے کوجب طواف کے بعدآنکھیں بند کرکے چومتا ہوں تو ان کا مسکراتا ہوا چہرہ پھر سامنے آتا ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ جنت میں پریوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہوں اور ان کا بھائی ملنے آئے تو ایک مان سے اٹھ کھڑی ہوتی ہے، تفاخر سے اپنے بھائی کے سر پر بوسہ دیتی ہیں۔ بھائی کا احترام سے جھکا ہوا سر اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ اپنی بہن کو بھی وہی عزت دیتی ہے جو ماں کا حق ہے۔جو مرچکی ہے اس کے سحر سے باہر آنے میں ناکام ہوں جو زندہ ہیں ان کے لئے پیار، احترام اور محبت کی کیا حد ہوگی۔اس لامحدود خلوص کے رشتے میں نہ بھائی کی الگ سے کوئی ”مرضی“ ہوسکتی ہے اور نہ ہی بہن کی۔
اب باری ہے پریوں کے تذکرے کی۔میرے گھر میں تین پریاں رہتی ہیں۔وہ صبح ان کے داداجان کے لئے قیامت سے کم نہیں ہوتی جب وہ صبح کی نماز پڑھ کر گھر واپس آئیں۔ اور ان کے گھر کی پریاں گھر میں موجود نہ ہوں۔نماز سے واپسی کا جتنا راستہ ہے۔ کئی دفعہ لوگوں نے دادا جان کو اونچی آواز میں اپنے گھر کی پریوں کے نام لے کر ان سے بات کرتے ہوئے پایا ہے۔یہ روز کا معمول ہے۔ اگر کسی دن گھر میں داخل ہونے کے بعد دادا جان کی پریاں ان کو دیکھ کر مسکرانا یہ کہہ کر بند کردیں کہ ”میری مسکراہٹ میری مرضی“ تو دادا جان پر کیا گزرے گی۔ میرے لئے یہ تینوں سانسوں کی روانی کا سبب ہیں۔ جب سے یہ تین پریاں میری زندگی میں آئی ہیں۔ زندگی کو ایک مقصد مل گیا ہے۔ ہنسنے کے کروڑوں بہانے میسر ہوگئے ہیں۔ جینے کی امنگ پیدا ہوئی ہے۔ان تنیوں کی ہر خواہش پورا کرنا از بس زندگی کا حاصل ہے۔ ان کی امید بھری آنکھیں جب مجسم سوال بن جاتے ہیں توکوئی بھی عہدہ، کسی بھی سطح کی عزت بلکہ پوری کائنات اس مجسم امید کے سامنے ہیج نظر آتی ہے۔ ہرمسکراہٹ پر ایک باپ پوری کائنات قربان کرنے پر تیار ہوجائے تو پھر ”مرضی“ کیا معنی رکھتی ہے۔
لگے ہاتھوں بیوی کی بات بھی کرلیں۔شادی کے شروع کے دنوں میں میرا گھر بھی میرا تھا۔زندگی کے فیصلے بھی ذاتی۔ایک انجان سی لڑکی میرے گھر آئی بس اس سے واجبی سا رشتہ۔ پھر میری بیوی نے رشتوں کو سمجھنا اور پرکھنا شروع کیا۔اس چھانٹ پھاٹک میں بمشکل ایک ماہ لگا ہوگا۔ اگلے مہینے وہ میرے گھر کے فیصلے کرنے لگی تھیں۔ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ کہیں اور سے آئی ہیں۔ انہوں نے کچھ ہی دنوں میں میرے والدین پر قبضہ کرلیا۔ ایک سال کا دورانیہ میرے سارے رشتہ داروں پر قبضہ کرنے کے لئے کافی تھا۔ پھر سارے رشتہ دار میری بیوی کے گن گانے لگے۔ اور میں سب کے لئے بیگانہ بن گیا۔میری ماں کو کیا پسند ہے، میرے والد صاحب کس طرح خوش رہ سکتے ہیں۔ یہ سب ان کی اولاد کو نہیں پتہ مگر ایک انجان لڑکی کچھ ہی عرصے میں سب کچھ پتا لگا چکی تھی۔شروع میں اس کی یہ عادت زہر لگی۔پھر سوچنے پر مجبور۔ جب سب کچھ نئے سرے سے سمجھنا شروع کیا۔ تو اس انجان لڑکی سے محبت ہونے لگی۔ محبت کب عشق میں تبدیل ہوا اور عشق کیسے اپنے ساتھ احترام بھی لے آئی پتہ ہی نہیں چلا۔ اب شادی کے بارہ سال بعد وہ کوئی بھی فیصلہ سناتی ہیں۔ میری زبان سے ہاں کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلتا۔ کیوں کہ ان بارہ سالوں میں اس نے جو بھی فیصلہ کیا اس کا اپنا فائدہ سب سے کم تھا۔ اس نے ہمیشہ کسی بھی ڈیمانڈ کے بغیر، کسی بھی دباؤ کا شکار ہوئے بغیر تمام وہ فیصلے کئے جس سے ہمیشہ پورا خاندان آپس میں جڑا رہا۔رشتوں کی اہمیت بڑھی۔ ہم دونوں نے گزشتہ بارہ سالوں میں ماں باپ کی صورت میں تناور درخت کے شاخوں پر ایک چھوٹا سا خوبصورت گھونسلہ بنایا ہے۔ اس گھونسلہ نما پرستان میں تین پریاں چہچہاتی ہیں۔وہ ابھی اڑنے کی عمر سے کوسوں دور ہیں۔ ہم میاں بیوی مل کر ان کے بال و پر سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا ہم یہ آشیانہ توڑ دیں اور اپنی اپنی مرضی کریں۔؟
تمہید لمبی ہوگئی۔ سوال صرف اتنی سی ہے کہ انسان کی دستیاب تاریخ میں کبھی کسی مرد یا کسی خاتون کی ”اپنی مرضی“ چلی ہے؟

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button