کالمز

امید، حوصلہ اور کرونا کا خوف ۔۔۔

احمد سلیم سلیمی 
دو دن پہلے میں ریڈیو کی عمارت کے پاس کھڑا تھا۔۔شام کسی نوجوان بیوہ کی طرح اداس تھی۔۔وحشت چاروں اور ٹپک رہی تھی۔۔سڑک کے اس پار میرا دوست نظر آیا۔۔میں نے ایک دم نظریں پھیر لیں ۔۔۔مگر اس نے مجھے دیکھا تھا۔۔لپک کے میری طرف آیا۔۔۔لاکھ گریز پائی کے باوجود وہ اسی بے تکلفی سے قریب آیا۔۔۔پھر  بے ساختگی سے ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔مجھے جھٹکا لگا،ہچکچایا۔۔۔مگر اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو جھٹک نہ سکا۔۔۔ہاتھ ملایا۔۔
  یہ ہماری تہذیبی قدریں ہیں ۔۔ہماری فطرت میں رچے بسے رویے ہیں ۔۔۔بدن کے ہارڈوئیر میں انسٹال سوفٹ وئیر ہے۔۔۔ان پہ گرفت پاتے وقت لگتا ہے۔۔
 میں نے کہا۔۔۔” ہمیں ہاتھ نہیں ملانا چاہیے تھا۔۔۔بس عادت چھٹتی نہیں ۔۔۔”
 اس نے بلند قہقہہ لگایا۔۔۔”مت ڈرو دوست۔۔!میں کرونا زدہ نہیں ۔رات بارہ بجے سے لاک ڈاون ہے۔۔کچھ ضروری چیزیں خریدنے آیا ہوں ۔۔۔تم کیا کر رہے ہو؟”
  میرا بھی کچھ ایسا ہی جواب تھا۔۔۔
 اس نےکہا۔۔”یار، کل سے ویسے بھی محصور ہوں گے ۔۔۔چلو آگے تک چلے چلتے ہیں "
 ہم پبلک چوک کی طرف قدم بڑھانے لگے۔۔اکثر دکانیں بند تھیں۔۔۔ دو ایک جو کھلی تھیں وہ بھی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بے رونق تھیں ۔۔۔ میرا وہ دوست ڈبل ایم اے ہے۔۔۔تعلیم سے بہت کم درجے کی نوکری کرتاہے۔۔۔سوشل میڈیا کا بہت اثر لیتا ہے۔۔۔ہر خبر اور تجزیے کو صدق دل سے مانتا ہے۔۔۔کچھ ہی دیر میں اسی سوشل میڈیا کی وجہ سے رد کر دیتا ہے۔۔۔اپنی کوئی سوچ ہو نہ ہو ، سوشل میڈیا کی بدولت بڑا سمجھ دار بنا پھرتا ہے۔۔۔خاص کر کانس پیریسی تھیوریز پر بڑا ایمان رکھتا ہے۔۔۔یہاں وہاں سے کچھ پڑھ کے بڑی فیس بکی دانشوری بگھارتا ہے۔۔۔
  میں نے پوچھا۔۔”یہ اس ترقی یافتہ انسان کی ناکامی ہے یا بے بسی۔۔۔ کہ ساری دنیا موت کے خوف میں مبتلا ہے۔۔۔؟”
 اس نےراستےمیں پڑی سٹنگ کی ایک خالی بوتل کو زور سے ٹھوکر ماری۔۔۔پھر کہا۔۔۔”یہ دونوں باتیں درست ہیں۔۔۔مگر اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ اسی انسان کی سائنسی کامیابی اور مادی طاقت کی بدولت یہ خوف چھایا ہوا ہے۔۔۔۔تم کیا سمجھتے ہو یہ وائرس کوئی نیچرل جینیٹک ڈیزاسٹر ہے؟بالکل نہیں ۔۔۔یہ جینیٹک انجینئیرنگ ہے۔۔۔یہ مصنوعی ہے۔۔یہ وائریس سائنس اور میڈیکل کی ترقی کا شاخسانہ ہے۔۔۔یہ ابھرتے ہوئے ایک معاشی جن کو قابو کرنے کا کیمیائی ہتھیار ہے۔۔۔غضب یہ ہوا کہ بیک فائر ہوگیا۔۔یہ ایسا بے قابو ہوگیا کہ گڑھا کھودنے والوں کا اپنا قبرستان بن گیا۔۔۔چائنہ نے پلٹ کر ایسا وار کیا کہ ایک طرف یورپ امریکہ کو نانی یاد آگئی۔۔دوسری طرف اس کی طاقت کا بھرم مزید پکا ہو گیا۔۔۔اس وائرس کی نوعیت اور شامت کا پہلا تجربہ ہونے کے باوجود وہ سنبھل گیا۔۔۔باقی دنیا تک پھیلتے پھیلتے اس سے واقف ہونے کے باوصف ،بڑے بڑے ملکوں کی طاقت اور غرور کی ہوا نکل گئی۔۔۔یورپ سے لے کر امریکہ اور ایشیا تک سائنس بھلا کے خدا یاد آگیا۔۔۔جس دنیا کو چینی صنعتوں کی گرم بازاری سے مرچیں لگ جاتی تھیں ۔۔۔۔وہی دنیا اب کرونا سے بچنے کے لیے چائنا سے میڈیکل ایکوپمنٹ کی ڈیمانڈ کر رہی ہے۔۔۔چائنا کی کمپنیوں کو وینٹی لیٹرز ،ماسکس اور سینی ٹائزرز کی اتنی ڈیمانڈ مل چکی ہے کہ مہینوں تک کی ایڈوانس بکنگ جاری ہے۔۔۔یہ ہے وہ سبق جو ہمیں چائنا سے سیکھنا ہے۔۔۔مصیبت کا مقابلہ کرو۔۔۔ہوش و حواس سلامت رکھو۔۔۔پھر گر کے پورے حوصلوں  سے اس طرح کھڑے ہوجاو کہ دنیا تمہاری بے بسی کا   تماشا نہ دیکھے بلکہ تمہاری استقامت پر رشک کرے۔۔۔اور یہ چائنا نے ثابت کر دکھایا ہے۔۔۔۔۔”
میں بڑی خاموشی سے اس کی گفتگو سنتا رہا۔۔۔اس کے دماغ کی ہانڈی میں پکتے ہوئے نظریے سے لطف لیتا رہا۔۔۔اس کے خاموش ہونے پر عاجزی سے کہا۔۔۔”چلو مان لیتے ہیں یہ کوئی نیچرل بیالوجیکل ڈیزاسٹر نہیں ۔۔۔امریکہ اور اسرائیل کا جینیٹک سٹنٹ ہے۔۔۔چائنا پر ان کا کیمیائی حملہ ہے۔۔جس کے وہ خود شکار ہوگئے۔۔۔۔مگر بات اب اس سے آگے کی ہے ۔۔۔بہت جلد اس راز سے پردہ اٹھ جائے گا کہ کرونا کی حقیقت کیا ہے؟ اب اہم بات اس کی اصلیت معلوم کرنے سے زیادہ اس کی بر بریت سے انسانیت کو بچانا ہے۔۔۔یہی آج پوری دنیا کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے۔۔۔اور یہ گلگت بلتستان بھی اس حالت سے گزر رہا ہے۔۔۔۔۔”
  وہ بولا۔۔۔” یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ کرونا ہم تک پہنچتے پہنچتے پرانا ہوچکا ہے۔۔۔چائنا نے زخموں سے چور چور ہوکر دنیا کو بتا دیا ہے کہ یہ وائریس اتنا مہلک نہیں۔۔۔بس ہولناک زیادہ ہے۔۔۔سمجھداری سے،حوصلے سے اور تابع داری سے کام لینا ہوگا۔۔۔حکومت کی،ماہرین کی اور زمہ داروں کی بات ماننا ہوگی۔۔۔یہ بھی ہماری خوش قسمتی ہے کہ میڈیا فاسٹ ہے۔۔۔چائنا سے لے کر یورپ امریکہ تک 180 سے زیادہ ممالک کی خبریں،کرونا سے مقابلے کی کوششیں اور احتیاطی تدابیر کے سارے طریقے سب ہی کے علم میں ہیں۔۔۔ایسے میں اس عالمی وبا سے بچنے ،اسے ایک عالمگیر تباہی بننے سے محفوظ رکھنے کا معاملہ جہاں آسان ہے وہاں صبر آزما ہے۔۔۔پہلے یہاں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے تھے۔۔۔معلوم ہوتا تھا کہاں سے خطرہ ہے۔۔۔اس لیے وہاں سے خوف ہوتا تھا۔۔۔اب یہ کرونا ایسا دشمن ہے کہ سب کو معلوم ہے کہ موجود ہے۔۔۔مگر کدھر ہے؟یہ معلوم نہیں ۔۔۔شہر اور بازار ایک طرف ،اپنی گلی اور اپنے گھر میں بھی سکون نہیں ۔۔۔ایک انسان کو دوسرے سے خوف کا یہ عالم دیکھا نہ جائے ہے۔۔اربوں انسانوں سے بھری دنیا میں یہ انسان کتنا تنہا ہوگیا ہے؟”
 میں نے کہا۔۔” خوف کی بات تم نے خوب کہی۔۔۔زرا سوچو چھوٹے بچے کس حالت سے گزر رہے ہیں ۔۔۔؟گھر کے بڑوں کی آنکھوں میں خوف، باتوں میں خوف ،میڈیا سے ابلتا خوف۔۔۔اتنوں کو وائرس لگ گیا ،اتنے مر گئے کی چیخم دھاڑ۔۔۔۔پھر ان معصوم بچوں کے چہروں پر بڑوں کی تقلید میں ماسک کا بوجھ۔۔۔۔یہ سب کچھ اس کم سن بچے کے لیے قیامت سے کم نہیں ۔۔۔اس کی ذہنی اور جسمانی نشونما کے لیے کسی آفت  سے کم نہیں ۔۔۔اب یہ والدین پر بڑی  زمہ داری ہے اپنے بچوں کو ٹوٹنے پھوٹنے سے بچائیں ۔۔۔خود بھی حوصلے اور سمجھداری سے کام لیں۔۔۔اپنے بچوں کو بھی ذہنی انتشار سے بچائیں ۔۔۔یہ مصیبت ان شاءاللہ ٹل جائے گی۔۔۔ایسا نہ ہو کرونا وائرس تو چلا جائے،بچوں کے ذہن و دل پر خوف کا وائرس سوار رہے۔۔۔”
 ہم دونوں چلتے ہوئے پبلک چوک تک آگئے تھے۔۔اس نے آگے جانا تھا مجھے سیرینا چوک کی طرف مڑنا تھا۔۔۔
  اس نے کہا۔۔۔” میرے دوست ! یہ عرصئہ محشر  ہے۔۔۔وہاں اعمال کی بنیاد پر اچھے بروں کو الگ کیا جائے گا۔۔۔دنیا کے اس محشر میں بھی چھانٹی کے لیے یہ آزمائش اتر آئی ہے۔۔۔اب یہ ہم نے ثابت کرنا ہے کہ ہم کیا ہیں؟ بہ حیثیت انسان بھی ،بہ حیثیت مسلمان بھی۔۔۔!ہمارے رویے،ہماری سوچ ،ہماری سائنسی اور سماجی تعلیم اور ہمارے یقین کا یہ امتحان ہے۔۔۔چائنا اس امتحان سے گزر گیا ہے۔۔۔بہت زخم کھا کر اب سنبھل گیا ہے۔۔۔سنبھلنے کا سارا طریقہ دنیا کو بتا دیا ہے۔۔۔اب یہ دنیا سمیت ہم سب کا امتحان ہے کہ کس طرح اس سے سنبھل جائیں ۔۔۔۔وقت بہت کم ہے۔۔۔چانس کی چوائس بھی نہیں ۔۔۔جو بھی کرنا ہے سمجھداری سے ہنگامی بنیادوں پر کرنا ہے۔۔۔ایک فرد سے لے کر قوم تک سب نے جسمانی طور پر لازما” دور ہوکر ، عزم و ہمت اور دانشمندی کے مگر ہاتھ ملا کر ایسا حصار قائم کرنا ہے کہ کرونا کو مذید تباہی کا موقع نہ مل سکے۔۔۔۔۔”
 میں نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔”زندہ باد دوست۔۔۔!مجھے تم سے ایسی ہوش مند باتوں کی توقع نہیں تھی۔۔۔بس ایسی ہی سمجھداری پوری قوم کی ضرورت ہے۔۔۔کرونا سے لڑنے کے لیے کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ہے؟یہ سب فاسٹ میڈیا کے ذریعے سب کے علم میں آگیا ہے۔۔۔اب عمل کا وقت ہے۔۔۔
ہمیں یقین ہے یہ انسان اس مصیبت سے نکل آئے گا۔۔۔یہ دنیا، یہ انسانیت ،یہ زندگی کی رونقیں پھر سے لوٹ آئیں گی ۔۔۔امید اور یقین مر نہیں سکتے۔۔۔کیوں کہ ان کی موت دنیا کی موت ہے۔۔۔اور یہ انسان اس قابل ہے وہ دنیا کو امید اور یقین پھر سے لوٹا دے۔۔۔۔اس کے لیے بس ایک تقاضا ہے۔۔۔
  کوئی نہیں سفر کی شرط، جو بھی چلے چلے ، مگر۔۔۔۔
درد سے تیز اٹھ سکے ، جاں سے تیز جا سکے۔۔۔
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button