کالمز

کورونا۔۔۔۔تیرا شکریہ ( افسانہ)

احمد سلیم سلیمی

اس کی آنکھوں کے سارے خواب مر گئے تھے ۔۔۔اب تو اسے یاد ہی نہیں تھا کہ کبھی، خوابوں کی تتلیاں بھی اس نےپکڑنا چاہا تھا۔۔اب خواب نہیں تھے،مگر دن رات زندگی کے عذاب تھے۔۔۔

اس کی زندگی ہی کتنی تھی؟بارہ سال۔۔۔!اس عمر میں لڑکیاں باپ اور بھائیوں کی لاڈلی ہوتی ہیں ۔۔۔گھر میں کام کم کرتی ہیں ۔۔۔ناز نخرے اور فرمائشیں  زیادہ۔۔۔

 اسے یاد نہیں تھا کبھی باپ سے اس نے کوئی فرمائش کی ہو۔۔۔اسے ناز نخرے کا موقع بھی نہیں ملا تھا۔۔۔گلیوں ،سڑکوں اور بازاروں میں ایک تھیلا اٹھائے ،اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ پھرتے رہنا اسے یاد تھا۔۔۔اس کے آگے دنیا کا حسن یہی تھا کہ چند مڑے تڑے کرنسی نوٹ اسے ملیں،تھیلے میں کچھ کھانے کی اور جلانے کی چیزیں بھر جائیں ۔۔۔بارہ سال کی اس لڑکی کے کچھ خواب اگر تھے تو یہی تھے۔۔۔۔

  اس کا نام بختاور تھا۔۔۔مگر زندگی نصیبوں جلی تھی ۔۔۔تین بہنوں میں منجھلی تھی۔۔دو چھوٹے بھائی تھے۔۔۔باپ کچھ نہیں کرتا تھا۔۔ایسا ہڈحرام تھا افیون اور چرس کے نشے میں دھت اکثر اپنے کمرے میں پڑا رہتا تھا۔۔۔کبھی کبھار مزدوری کرتا تھا تو اپنے نشے میں اڈا دیتا تھا۔۔۔

  بختاور کو یاد تھا جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا ماں اور بڑی بہن کے ساتھ مانگنے جاتی تھی۔۔۔کبھی گھروں میں کبھی سڑکوں پہ۔۔۔ہوش کے ساتھ ہی مانگنے کی عادت جڑ پکڑ چکی تھی۔۔۔پھر اس کے مزید بھائی بہن پیدا ہوئے۔۔۔اب ماں کے بغیر بھی وہ جانے لگے ۔۔۔

  اللہ پاک بے نیاز ہے۔۔۔گھر میں کھانے کے لالے پڑے ہوتے تھے مگر اولاد چھپر پھاڑ کے دیا تھا۔۔۔یہ عطا تھی کہ سزا۔۔۔!

  بختاور جوں جوں بڑی ہورہی تھی اس کے دماغ میں بہت سی باتیں شور مچاتی تھیں ۔۔۔وہ جو کر رہی تھی اس سے تنگ آرہی تھی۔۔۔کسی کا دروازہ کھٹکھٹا کے کچھ مانگتے ہوئے گھر کی عورتوں کے ناگوار چہروں اور کڑوی باتوں سے دل پھٹ سا جاتا تھا ۔۔۔ دل میں دھواں سا بھر جاتا تھا۔۔۔کوئی کچھ دیتا بھی تھا تو جتلا کے ۔، دو چار باتیں بتلا کے۔۔۔

 دس بارہ سال کی بچی کم سن ہوتی ہے مگر آج کی فاسٹ میڈیا اسے سمجھدار بنا دیتی ہے۔۔۔بختاور کے گھر میں ٹی وی نہیں تھا مگر زندگی کی ٹھوکروں نے اسے سمجھدار بنا دیا تھا۔۔۔وہ لڑکوں کی چبھتی آنکھوں کو بھی خوب سمجھتی تھی۔۔۔اس کے بدن کے نسوانی خطوط اب کپڑوں میں سے جھانکنے لگے تھے۔۔۔بازار اور سڑک پہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتی تو پیسے کم گرتے تھے آنکھوں سے ہوس کے تیر زیادہ اترتے تھے۔۔۔

کوئی دس روپے دے کر لمبا چوڑا انٹرویو کرنے بیٹھ جاتا تھا کہ وہ کون ہے؟کہاں سے ہے؟باپ کیا کرتا ہے؟

    وہ بھی ،اس کے بھائی بہن بھی ان سوالوں  کے اتنے عادی ہوچکے تھے کہ روزانہ نئی نئی کہانیاں بنا کے اپنی بے چارگی اور بے کسی بیان کر دیتے تھے۔۔۔وہ اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ ہیلی چوک سے لے کر اسمبلی کی عمارت تک۔۔۔اور پورے جٹیال کی گلیوں میں صبح سے شام کر دیتی تھی۔۔۔شام تک تھیلا بھی بھر جاتا تھا۔۔۔کچھ پیسے بھی انہیں مل جاتے تھے۔۔۔اپنے سے بھی بڑے بڑے  تھیلے، وہ بھائی بہن کندھوں پہ اٹھائے بہت دور جوٹیال نالے کے پاس اپنے دو کمروں کے کچے مکان میں پہنچ جاتے تھے ۔۔۔بھرا ہوا تھیلا اور کرنسی نوٹ دیکھ کر باپ اور ماں کی باچھیں کھل جاتی تھیں ۔۔۔پھر گھر میں آگ بھی جلتی تھی،چولہے پہ ہانڈی بھی پکتی تھی۔۔۔

 بختاور اور اس کے بھائی بہن اتنے تھک جاتے تھے۔۔۔کھانا کھاتے ہی جدھر موقع ملے لیٹ جاتے تھے۔۔۔ایک طویل دن کی عذاب ساعتوں کے بعد،مہربان رات کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔۔۔

  کبھی نیند نہ آئے تو بختاور سوچتی تھی ایسا کب تک کرتی رہے گی؟وہ لڑکی زات ہے۔۔۔بدن کا بازار اب کھلنے لگا ہے۔۔۔کب تک چھپائے بیٹھے گی۔۔۔ابھی سےہی ہوس کے سوداگر اشارے کر رہے ہیں ۔۔۔ایک آدھ سال بعد تو بولیاں بھی دینے لگیں گے۔۔۔اس کی ماں اور بڑی بہن کی زندگی بھی ایسے گزری تھی۔۔۔۔ماں نے اسے سمجھایا تھا۔۔۔” بیٹی ! بھیک مانگتے ہوئے ہم غیرت کی قربانی دیتے ہیں ۔۔بس یاد رہے اپنی عزت بچا کے رکھنا۔۔۔مرد زات بڑا کم بخت ہے۔۔۔خبر دار اسے انگلی پکڑنے مت دینا ورنہ پہنچا پکڑنے کو لپکے گا۔۔۔”

 ایک دن وہ بھائی بہنوں کے ساتھ دھندے کے لیے گئی تو حیران رہ گئی۔۔۔اکثر لوگوں نے آدھا چہرہ ڈھانپ رکھا تھا۔۔۔وہ سارا سارا دن پھرا کرتی تھی ۔۔۔اس دن اسے سمجھ نہیں آیا کہ لوگ پریشان سے،ایک دوسرے سے سہمے سہمے سےکیوں ہیں ؟ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا دیتی تو وہ ایک دم دور ہوجاتا۔۔دکاندار بھی دور سےہی جھڑک کر بھگا دیتے۔۔۔اس دن شام تک ان کے تھیلے میں چیزیں بھی، جیب میں پیسے بھی ہمیشہ سے کم تھے۔۔۔اس شام باپ بھی ان کی ماں بھی غصے سے گالیاں دیتی رہیں ۔۔۔

  پھر اس کے بعد کئی روز تک ایسا ہوتا رہا۔۔۔پھر ایک گھر کی عورت نے اپنے ہاتھ بچا کر انہیں شاپر میں کوئی چیز دے کر سمجھا دیا کہ ایک بیماری پھیلی ہے۔۔۔ایک انسان کو دوسرے سے لگتی ہے۔۔۔آئندہ میرے گھر مت آو۔۔

  وہ  بھائئ بہنوں کے ساتھ باہر سڑک پہ آئی تو پولیس والوں نے روکا۔۔۔ ڈانٹ ڈپٹ کر خبردار کیا کہ آئندہ گھر سے باہر نہ نکلو۔۔۔

  گھر میں آئی ۔۔۔باپ کو بتایا تو وہ گالی دے کر بولا۔۔” سب بکواس ہے۔۔۔میں کئی دنوں سے اس کے بارے میں سن رہا ہوں ۔۔۔سب لوگ کہتے ہیں یہ ڈرامہ ہے۔۔۔چین والے کتے اور سانپ کھاتے ہیں ۔۔۔یہ بیماری ان کو لگی ہے۔۔۔یہاں کچھ نہیں ہوگا۔۔”

 بختاور بولی۔۔۔” مگر ابا۔۔وہ پولیس والوں نے بھی ہمیں منع کیا ہے۔۔”

  باپ گرج کر بولا۔۔۔”میں کچھ نہیں جانتا۔۔۔کچھ آئے گا تو گھر چلے گا۔۔۔”

  ماں بولی۔۔۔” آپ ذرا باہر جاکر پتا کریں۔۔۔کیا پتا کوئی ایسی ویسی بات ہو۔۔۔ادھر کی عورتوں سے میں نے بھی ایسی بیماری کا سنا ہے۔۔”

  اس کا باپ غصے سے پاوں پٹختا، گالیاں نکالتا ہوا باہر گیا۔۔۔بڑی دیر بعد بجھی بجھی حالت میں واپس آیا۔۔۔اس نے بتایا پورے علاقے میں خوف پھیلا ہوا ہے۔۔۔ایک بیماری ہے جسے کرونا کہتے ہیں ۔۔پوری دنیا میں پھیل گئی ہے۔۔گلگت میں بھی آگئی ہے۔۔۔سب لوگ گھروں میں بند ہوگئے ہیں ۔۔۔

  ماں فکر مند لہجے میں بولی۔۔۔” اب کیا ہوگا۔۔؟چولہا کیسے جلے گا۔۔۔؟آپ تو چارپائی توڑتے رہتے ہیں ۔۔۔کبھی ہاتھ پاوں چلاتے تو آج گھر چلتا۔۔”

 بختاور کا باپ ایسا نکما اور ناکارہ تھا ۔۔۔معصوم بچوں کی بھیک کی  کمائی کھا کے پڑا رہتا تھا۔۔اب دھندہ رک گیا تو سمجھ آگئ تھی کہ زندگی صرف نشے میں دھت رہنے کا نام نہیں۔۔۔

  بختاور اور اس کے بھائی بہنوں کا کام بند ہوگیا۔۔۔گھر میں کھانے کی قلت پڑگئی۔۔۔مگر بختاور کی جیسے مراد پوری ہوگئی تھی۔۔وہ دن بھر پھرتے رہنے سے،لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا نے سے  اور برمے کی طرح بدن میں اترتی ننگی نظروں سے بچ گئی تھی۔۔۔گھر میں فاقے تھے۔۔۔مگر بختاور کے مزے تھے ۔۔۔پہلے تھک ہار کے آکر چور چور بدن کے ساتھ صبح کر دیتی تھی۔۔۔اب دن بھی رات بھی سکون سے کٹتے تھے۔۔۔

  اگلے دن باپ باہر سے آیا تو اس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔۔اس کے ہاتھوں میں وزنی تھیلا تھا۔۔۔جس میں چینی،آٹا اور چائے کی پتی تھی ۔۔اس کے علاوہ بھی چند چیزیں تھیں ۔۔اس کے گھر کے لیے چار پانچ دنوں کا خرچہ تھا۔۔۔اس نے بتایا کہ باہر گلی میں ایک تنظیم والے آئے تھے۔۔ضرورت مندوں میں کرونا کے نام پر تقسیم کر رہے تھے۔۔۔وہ تصویریں بھی نکال رہے تھے ۔۔کہہ رہے تھے میڈیا میں آئے گا۔۔۔”

  بختاور اور اس کے بھائی بہن میڈیا اور کرونا کو نہیں جانتے تھے۔۔۔بس یہی بات ان کے لیے اہم تھی کہ ان کے گھر میں اب چولہا جلے گا۔۔۔وہ بھوک سے کم  سہی، کچھ تو کھا سکیں گے ۔۔۔۔

  اس کے بعد وقفے وقفے سے جیسے خیرات کی برسات ہونے لگی۔۔اس کا باپ پہلے گھر سے نکلتا ہی نہیں تھا۔۔۔اب خدا جانے اسے کیسے معلوم ہوتا تھا کہ فلاں جگہ خیراتی سامان تقسیم ہوتا ہے۔۔وہ گھر سے نکل جاتا تھا۔۔واپسی میں تھیلا بھر کے لاتا تھا۔۔۔

    بختاور اور اس کے بھائی بہنوں کے لیے یہ کرونا رحمت بن گیا تھا۔۔۔ان کے معصوم کندھوں پر سے گھر چلانے کا بوجھ ہٹ گیا تھا۔۔۔اب ان کا باپ تھیلا اور جیب بھر کے لاتا تھا۔۔۔پہلے بھیک ملتی تھی ۔۔اب بھی ملتی تھی۔۔۔بس کرونا کے خوف سے اسے صدقے کا نام دیا گیا تھا۔۔۔

 بختاور اپنی ماں سے کہتی تھی ۔۔”ماں ! یہ کرونا کب تک رہے گا؟  یہ کتنا اچھا ہے۔۔۔ہم بھائی بہنوں کو کتنا آرام مل رہا ہے۔۔۔ہمارا باپ اب کھانے کو لاتا ہے۔۔۔ہماری دعا ہے یہ کرونا اب کبھی نہ جائے۔۔۔اس نے ہمارے باپ کو بھی گھر کے لیے کچھ لانا سمجھایا ہے۔۔۔اے کرونا !تیرا شکریہ "

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button