کالمز

دنیا میں جو آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا

تحریر: غالب شاہ سید،
اسسٹنٹ پروفیسر، گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج گاہکوچ،غذر 

ہسٹری میگزین لندن مئی 2014 کے شمارے میں بی بی سی کی جانب سے چھاپا ہوا ایک سنسنی خیز، لرزہ خیز اور اپنی نوعیت کا انسانی تاریخ کا ایک انوکھا مضمون پڑھنے کو ملا۔جس کے مطابق 5جولائی1884 کواکتیس سالہ ٹوم ڈوڑلی(Tom Dudley) منجھا ہو اسمندری جہاز کا کیپٹن،نیڈ بروکز(Ned Brooks)، ایڈون سٹیفن(Edwin Stephen) اور سترہ سالہ رچرڈ پارکر (Richard Parkar)مگنو نیٹ(Mignonette) نامی ایک سمندری جہازکے ذریعے بحر اوقیانوس جنوبی میں سفر اختیار کر لیتے ہیں۔یہ چاروں جوان اپنی مستیوں میں گم سفر کی شروعات کر لیتے ہیں۔ اس وقت ان میں سے کسی کو دور دور تک یہ خبر نہ تھی کہ انکا یہ سفر ایک کڑا امتحان ثابت ہوگا اور ایک تاریخ ساز سفر بن جائیگا(درحقیقت زندگی میں کچھ واقعات ایسے رونما ہوتے ہیں جن کے بارے میں کوئی نہیں جانتا)بدقسمت سمندری جہاز بحر اوقیانوس جنوبی میں زمین سے کئی سو دور حادثے کا شکار ہوکر تباہ ہوجاتا ہے۔جہاز کے تینوں مسافر بشمول کیپٹن ایک چھوٹی سی کشتی(Life Saving Boat) کا سہارا لیکر سمندر میں کود پڑتے ہیں۔خشکی سے کئی سو میٹر دور سمندر کے وسط میں ڈولتی یہ چھوٹی سی کشتی وقتی طور پر جان بچانے کے لئے تو کافی ہوتی ہے مگر نہ تو اسے چلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس چھوٹی کشتی میں جان بچانے کے لئے کھانا اور پانی موجود ہے، سوائے جلد بازی میں اٹھائے گئے شلجم کے ایک چھوٹے سے ڈبے کے۔ سمندر کا پانی کھارا ہونے کی وجہ سے انتہائی مضر صحت بلکہ جان لیوا ہے۔چھوٹی سی کشتی پر یہ چاروں مسافر کسی غیبی امداد کے منتظر ہیں مگردور دور تک کوئی مدد کے لئے موجود نہیں۔ اگلے بارہ دنوں تک پورے غور و فکر اور دانشمندی کے ساتھ ٹوم کی جیبی چاقو کے ذریعے چھوٹے سے ڈبے کے شلجم کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں جان بچانے کے لئے راشن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔بہر حال شلجم کے علاوہ خوش قسمتی سے ایک چھوٹا سا مردار کچھوا بھی انہیں کشتی کے نزدیک ہاتھ لگ جاتا ہے۔بارہ دنوں کے دوران بارش کے تھوڑے سے پانی اور اپنے اپنے پیشاب کوبھی احتیاتاً سٹور کیا جاتا ہے مگر اتنے تھوڑے سے ان سب کا کچھ نہیں ہونے والا۔17 ویں دن تک انکے پاس کشتی میں کوئی کھانے پینے کی چیز باقی نہیں رہتی۔ یہاں تک کہ انکا اپنا بچایا ہوا پیشاب بھی ختم ہوجاتا ہے۔ناتجربہ کار رچرڈ پارکر پیاس کی شدت برداشت نہیں کر پاتا اور سمندر کا کھارا پانی انڈیلنے کی وجہ سے بیمار ہوجاتا ہے۔اور دست کی وجہ سے منٹوں میں انکی حالت غیر ہوجاتی ہے۔ٹوم ڈوڈلی جہاز کا کیپٹن جو سمندری حادثات کے درد ناک واقعات سے پہلے سے آگاہ ہے، کو شدیدفکر لاحق ہوجاتی ہے۔25جولائی تک کھانا پینا نہ ملنے کی وجہ سے قریبا سب کی حالت غیر ہوجاتی ہے یہاں تک کہ 17 سالہ رچرڈ پارکر اپنی آخری سانسیں لینے لگتا ہے۔جہاز کا کیپٹن ٹوم، اسٹیفن کو مشورہ دیتا ہے کیونکہ آپ کے پاس جیبی چاقو ہے، آپ کے پیچھے ایک بیوی اور پانچ بچے ہیں جبکہ میرے پیچھے ایک بیوی اور تین بچے میر ا منتظر ہیں۔ ہم دونوں کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے کیوں نہ سترہ سالہ رچرڈ پارکر کے ٹکٹرے ٹکڑے کئے جائے کیونکہ انکا بچنا ویسے بھی ناممکن ہے۔ اور اسی طرح کچھ دن زندہ رہنے کا خوراک اور بہانہ بھی مل سکے گا۔انسانی خون اور گھوشت تاریخ میں کھانے کے واقعات ملتے ہیں۔ٹوم خاموش رہتا ہے۔مگر شام کے قریب قریب پارکر اپنی آخری سانسیں لینے لگتا ہے۔یکدم ٹوم اور اسٹیفن کی انکھیں چار ہوتی ہے اور دونوں ملکر نیم مردہ پارکر کے حلق پر چھرا پھیرتے ہیں۔ بھوک اور پیاس کی شدت میں خون پیا جاتا ہے اوردل اور کلیجہ کچا کھایا جاتا ہے۔گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے آنے والے دنوں کے لئے راشن کے طور پر بچایا جاتا ہے۔ٹوم، اسٹیفن اور بروک اس خوفناک راشن کے سہارے اسی طرح کچھ دن اور زندہ رہنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔حادثے کے ٹھیک چوبیس دن بعدیعنی 29 جولائی کو جب یہ تینوں ہمسفر اپنے سفری ساتھی پارکر کے ٹانگوں کا ناشتہ کر رہے ہوتے ہیں کہ دور سمندر کی سطح پر ایک جہاز نمودار ہوتاہے۔ تینوں کی آنکھوں میں ایک عجیب قسم کی چمک پیدا ہوتی ہے۔ یوں یہ تینوں مسافراپنے ساتھی پارکرکے گوشت پر گزارا کر کے قریباً ایک مہینے بعد واپس برطانیہ کے ساحل پر اتر تے ہیں۔اس واقعے نے کئی سوالات کو جنم دیایہ کیس برطانیہ کی عدالت میں چلا گیا اور ان تینوں کو سزا ہوئی۔ مگر ایک انتہائی مشکل مرحلے میں ان تینوں کو زندہ رہنے کے لئے کچھ مشکل ترین،ناپسندیدہ اور غیر معمولی فیصلوں سے گزرنا پڑا۔

یہاں یہ واقعہ بیان کرنا اس لئے مقصود تھا کہ دراصل زندگی وہ نہیں ہوتی جسکا ہم خواب دیکھتے ہیں یا جسے ہم اپنے خیالوں سے تراشتے ہیں بلکہ زندگی وہ ہوتی ہی جو ہماری پسند اور ناپسند کا خیال رکھے بغیر قدرت ہمیں نوازتی ہے اور ہمیں بہرحال اسے گزارنی پڑتی ہے۔ اور یہ کہ زندگی کے غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔بالکل ایسے ہی جیسے سڑک پہ بھاگتی بس سے کوئی چھلانگ لگانا نہیں چاہے گا۔ مگر جب ڈرائیور یہ اعلان کردے کہ بس کا بریک فیل ہوچکا ہے او ر بس کے اندر بم ہے جو کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے تو ہر ایک کی یہ کوشش ہوگی کہ جتنی جلدی ہوسکے چھلانگ لگائی جائے۔

قدرت ہمیشہ اپنے حساب سے مہربان ہوتی ہے۔ہمیں قدرت کا ہمیشہ شکر گزار رہنا چاہیے۔ہم میں سے اکثر لوگ خوش قسمت ہیں جنہوں نے زندگی کاکوئی غیر معمولی حادثہ جیسے جنگ، قحط، وبا یا کسی صحرا،پہاڑ یا سمندر میں بھڑکناوغیرہ نہیں دیکھا۔ مگر میرے منہ میں خاک اسکا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ ایسا کوئی غیر معمولی حادثہ ہماری زندگی میں نہ آئے۔زندگی میں سب کچھ ممکن ہے۔

بہر حال زندگی جیسی بھی ہو اسے بچانا اور اسے خوبصورت بنانا انسان کا کام ہے۔زندگی کو اچھے برے دونوں دنوں میں خوبصورت اور بھر پور کیاجا سکتا ہے۔عمران خان، 1992 کا کرکٹ ولڈ کپ ہاتھ میں تھامے خوشگوار موڑ میں سب کو اچھے لگتے ہوں گے مگر ایچی سن کالج کے اس طالب علم کی مشقت کو بہت کم لوگ جانتے ہونگے جو بالٹی بھر بھر کر گیندیں لے کے آتااور کالج بریک کے دوران کچھ کھائے پئے بغیر اپنے تمام دوستوں سے الگ صرف بالنگ کی پرکٹس کر رہا ہوتا۔غار حرا میں مہینوں مہینوں،تنہا تنہا، بھوک پیاس گرمی کی شدت سے بیگانہ عبادت گزار ہستی جیسی حسین،با مقصد اور خوش و خرم زندگی کس کو نصیب ہوئی ہوگی؟عرب کے تپتے ریت میں گھسیٹا جانے والا بلال حبشی کے دل کی خوبصورتی سے سوائے وہ اور اسکے رب کے، کون واقف ہوسکتا ہے۔مہینوں کوہ بے ستون کوکاٹنے والے کوہکن کاپختہ مقصد حیات کسے معلوم؟ابن رشد، ابن زہرو، بو علی سینا، ارسطو، سقراط، بقراط کا سچ کفر کے فتوے سہنے کے باوجود کون جان سکتا ہے؟برطانیہ میں دسمبر 1642 کو پیدا ہونے والا عظیم ماہر طبیعات،ماہر فلکیات،ماہر دینیات اور عظیم مصنف سر اسحاق نیوٹن یا 11 فروری1847 کو پیدا ہونے والاامریکن کاروباری شخصیت اور جانے مانے موجد(بلب،الیکٹرک پاور جنریٹر،ساونڈ ریکارڈنگ، موشن پکچر کیمرا وغیرہ) کے فلسفہ حیات اور اور ہماری زندگیوں پر پڑنے والے انمنٹ نقوش سے کون انکار کر سکتاہے۔؟۔۔۔۔۔۔

بہت سے لوگ خود ساختہ زندگی کا خواب دیکھتے ہیں۔اور اپنے خیالوں سے تراشی ہوئی جنت کی تلاش میں دیوانہ وار گھومتے رہتے ہیں۔اور جب من پسند، خود ساختہ اور اپنے خیالوں سے تراشی ہوئی جنت نہیں ملتی تو یہ شکایت کرتے ہوے نظر آتے ہیں کہ اس زندگی میں کیا رکھا ہے؟ میں اپنی زندگی سے تنگ ہوں۔ مجھے نہیں چاہیئے ایسی زندگی۔ لعنت ہو اس جینے پر۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔تو دراصل ایسے لوگ اس زندگی کی بات کر رہے ہوتے ہیں جسے انہوں نے خود اپنے ذہن سے تراشا ہوتا ہے۔ نہ کہ وہ زندگی جو دراصل انکو قدرت کی طرف سے عطا کی گئی ہوتی ہے۔

ایسے مایوس لوگوں کو میں کہتا ہوں کسی دن میرے ساتھ کسی صحرا کی سیر کو چلے۔ یا کسی گھنے جنگل میں کچھ دن میرے ساتھ نیلے آسمان تلے تاروں کا نظارہ کریں۔ یا کسی دن دریاوں، وادیوں، بازاروں اور لالچ سے بھرے گھروں سے دور کسی پہاڑ پر چلیں۔ ہم ساتھ جینے کے ہزاروں بہانے دیکھ سکیں گے۔ یا یوں کہیے کہ میں آپکو ڈھیر ساری دکھوں، پریشانیوں اور ناکامیوں کے بیچ ایک پیارا اور بہت ہی من پسند راستہ دیکھا سکوں گا۔اپنے آس پاس نظر دوڑائے، اپنے گھر کے اند ر اور باہر کے افراد کے ساتھ دل سے ملیے،پرندوں،درختوں اور پھولوں سے بات کرے،دریا کو سنے۔۔۔۔زندگی بہت خوبصورت لگنے لگے گی۔اپنے آپ سے پوری وفاداری کے ساتھ ملیے۔جنت اور خدا کا دیدار یہی ہوجائے گا۔ میں ذاتی طور پر زندگی کو بہت ہلکا لینے والا آدمی ہوں۔میری زندگی میں بظاہر کوئی بڑی کامیابی بھی نہیں۔ مگر میرے پاس جینے کے ہزار ایسے خوبصورت راستے اور بہانے ہیں جو وقت سے پہلے مجھے اور آپ کو کھبی مرنے نہیں دینگے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button