کالمز

سوشل میڈیا اور آج کا نوجوان 

تحریر: صاحب مدد شاہ

جس طرح سوشل میڈیا نے سماجی رابطوں کو جوڑنے میں کلیدی کردار آدا کیا ہے اس طرح   سماجی دوریاں  بڑھانے میں بھی  اپنا ثانی نہیں رکھتا ہے۔  دھمکیاں ، کردار کشی، جھوٹی خبریں، بوگس مواد، فیک آئی ڈیز اور فیک پیجز نے سوشل میڈیا کو جنگل بنا دیا ہے۔  یہ ہمارے  معاشرے کا المیہ ہے کہ کسی بھی چیز کے منفی پہلوؤں کی تشہیر کرنے  میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں۔

آئیں سوشل میڈیا کے منفی پہلوؤں پر بات کرنے  سے پہلے مثبت پہلوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بات  سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ  سوشل میڈیا کی بدولت سماجی رابطے انتہائی قریب ہونے کے ساتھ ساتھ آج کا انسان عیش پرست اور انسانی رویوں میں بھی نمایاں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔

 جس طرح سوشل میڈیا نے سماجی زندگی کو بہتر بنایا ہے اسی طرح معاشی لحاظ سے بھی لوگوں کو خودکفیل کیا ہے۔  اگر  آپ ایک اچھے بلاگر، یوٹیوبر ، ویپ ڈیزائنر, یا موٹیویشنل سپیکر ہیں تو آسانی سے گھر بیٹھے  اچھا خاصا انکم  جنریٹ کرسکتے ہیں ۔ فرض کریں  آپ کسی سکول، کالج یا  یونیورسٹی میں استاد ہیں، آپ اپنا یوٹیوب چینل بنا کر اپنے لیکچرز اور مواد شئیر کر کے  یا ان لائن درسِ و تدریس کے زریعے  اچھا خاصا پیسہ کما سکتے ہیں، یا آپ ایک اچھے شاعر ، گلوکار، کامیڈین ، وکیل ، ڈاکٹر یا کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں تو تھوڑی سی محنت سے آپ اچھا  خاصا پیسہ کما سکتے ھیں۔ دیہاتوں میں رہنے والے لوگ فطرت کے بہت قریب ہوتے ہیں، ان  کے پاس قدرت کے ایسے ایسے شاہکار موجود ہیں جو شہری لوگوں کو صرف خواب لگتے ہیں ۔

 دیہاتی نوجوان یہاں کے  فلک بوس پہاڑ،  دریا، جھلیں، چشمے ، ندی نالے ، سر سبز و شاداب کھیت ، جڈی بوٹیاں  اور دودھ کی طرح بہنے والے  آبشاروں  کی اچھی طرح تصویر کشی کر کے اپنی فوٹوگرافی بڑے بڑے ویپ سائٹس کو  بیجھ کر ہزاروں روپے  کما سکتے ھیں ، جس میں کسی خاص محنت و مشقت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔

 اس طرح آج انٹرنیٹ پر علم و ادب، تخلیق اور روزگار کے بہت سارے مواقع موجود ہیں، آپ دنیا کے کسی اچھی یونیورسٹی یا کالج سے گھر بیٹھے  پڑھ کر ڈگریاں حاصل کرسکتے ہیں ، یوٹیوب کے استعمال سے بہت سارے ہنر  سیکھ سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال مثبت انداز میں ہو۔

بدقسمتی سے آج سوشل میڈیا وبال جان بن گیا ہے ، لوگوں کی کردارکشی، دھونس دھمکیاں، سیاسی مخالفین کی پگڑیاں اچھالنا، سیاست کی آڈ میں خاندانوں کو آپس میں لڑوانا، لسانیت ، فرقہ واریت اور علاقائی تعصب کو فروغ دینا، حراسان کرنا جھوٹی خبریں پھلا کر علاقے میں انتشار پھلانا جیسے لعنت تیزی سے معاشرے میں پروان چڑھتے  ہیں جو بہت تشویشناک عمل ہے۔  پاکستان میں سائبریا کرائم ایکٹ پاس ہونے کے باوجود بھی حکومت اس پر عمل درآمد کرانے میں ناکام ہو چکی ہے۔  لوگوں کو سائبر کرائم کا ادراک تک  نہیں ہے۔ سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کسی کو سوشل میڈیا پر حراساں کرنے ، غلط خبر چلانے اور کسی کو بلا جواز تنگ کرنے  کی سزا  لاکھوں روپے جرمانہ اور سالوں تک قید مختص کی گئی ہے ۔ کچھ نادان   اپنی آرا فیس بک کمنٹ سکیشن میں ایسی سکون اور اطمینان سے لکھتے ہیں جیسے وہ کسی دوسرے کو نظر تک نہیں آتا،  غلیظ اور اخلاق سے گری ہوئی  جملے پڑھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ہم کس معاشرے اور   کن مخلوق کے درمیان رہتے ہیں۔ حکومت اور قانون نامز کرنے والے اداروں کو سوشل میڈیا پر انتشار پھلانے والوں کے خلاف سخت ایکشن لے کر کاروائی کرنا چائیں۔ المختصر اگر سوشل میڈیا کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو یہ رحمت ورنہ یہ سب سے بڑی زحمت ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button