کالمز

   انسداد کورونامہم میں سوشل ڈسٹنسنگ جوتی کی نوک پر

گلگت  بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کا دعویٰ ہے کہ جنوبی ایشیاکی سطح پر کورونا وائرس متاثرین میں جی بی کی شرح سب سے کم ہے۔   ایک قومی انگریزی اخبار کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وباء کی روک تھاک کے سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی جانب سے گلگت  بلتستان میں پاکستان مسلم نواز کی حکومت کو کوئی امداد نہیں ملی۔  جبکہ پاکستان کے دیگر صوبوں کو ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے ملنے والی امداد میں سے برابر کا حصہ دیا گیا۔  باوجود اس کے انہوں نے اپنے وسائل سے اس وباء کا پھیلاؤ روکنے کے لئے تمام تراقدامات کئے۔

 بلا شبہ گلگت  بلتستان حکومت نے کورونا وائرس کی وباء کو کنڑول کرنے کے سلسلے میں غیرمعمولی اقدامات کئے۔ ان اقدامات میں خطہ بھر میں بروقت ہوم لاک ڈاؤن کا فیصلہ، کورونا وائرس سے متاثرہ  اورمشتبہ افراد کے لئے قرنطینہ سنٹرز میں قیام وطعام کا اہتمام، وباء سے متاثرہ افراد کے لئے بہترین طبی انتظامات، دیہاڑی دار طبقہ اور دیگرکمزور معاشی حالات کے حامل خاندانوں کے لئے معیاری و مناسب راشن کی فراہمی، کورونا سے بچاؤ سے متعلق عوام الناس حفاظتی تدابیر اپنانے کی اگاہی مہم، سب سے بڑھ کر حالات کی سنگینی کا بروقت اندازہ لگا کر ہمسایہ ملک کے صوبہ سنکیانگ کے گورنر سے حفاظتی سامان کی طلبی وغیرہ جیسے اقدامات قابل ذکر ولائق تحسین ہیں۔مگر کورونا وائرس سے بچاؤ کی اس مہم میں حکومت کی جانب سے کچھ غلطیاں دیکھنے میں آئیں جو  عوامی کی نظر میں حکمرانوں کی جانب سے اس خطرناک وباء کو غیرسنجیدہ لینے کے مترادف ہے۔

 سب سے پہلی غلطی سوشل ڈسٹنسگ سے انحراف ہے۔   اس بات سے تو اب بچہ بچہ بھی واقف ہوگیا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا سوشل ڈسٹنسنگ یعنی سماجی فاصلہ جسے بعض ماہرین کے مطابق جسمانی فاصلہ بھی کہا جاتا ہے سب سے بہترین طریقہ ہے۔  چین سمت دنیا میں جن ممالک نے اس وباء پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی وہ صرف اور صرف سوشل ڈسٹنسنگ کے اصول پر عملدرآمد کی مرہون منت تھی۔ عالمی ادارہ صحت اور ریڈکراس/ریڈکریسنٹ کی عالمی تنظیم (آئی ایف آرسی) سمیت تمام طبی ماہرین بھی کورونا سے بچنے کے لئے سوشل ڈسٹنسنگ کے اصول اپنانے پرزور دیتے ہیں۔ باوجود اس کے گلگت  بلتستان کے وزیراعلیٰ وکابینہ اس اصول کو جوتی کی نوک پر رکھ کر قافلوں میں سینہ تان کر چلتے ہوئے  ’ہم کسی سے کم نہیں‘  کا تاثر دیتے رہے تو عوام کو کیا پڑی ہے کہ وہ خود کو بند کمروں میں قیدکرے۔

یوں سوشل ڈسٹنسگ کا یہ اصول ایک مذاق بن گیا اور کورونا وائرس دیرے دیرے ایک شخص سے دورے میں منتقل ہوتا گیا۔  ان باتوں پر کسی کو اعتبار نہیں تو سوشل میڈیا پروزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کی گلگت میں پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کا جھمگٹہ اور دورہ ہنزہ ونگرکے دوران ساتھ جانے والا قافلہ،  وزیربلدیات کی انگریزی میں ایس ایچ او کی ڈانٹ ڈپٹ، پاریمانی سکریٹری صحت و کارکنوں کے ہاتھوں استور میں بیکری کا افتتاح، وزیرتعمیرات کی جذباتی استعفیٰ والی پریس کانفرنس اور حکومتی وزراء کی جانب سے ان کی منت سماجت،  یاسین میں ایک رکن اسمبلی و ساتھیوں کے ہاتھوں احساس پروگرام کے تحت ملنے والی امدادی رقم کی تقسیم، استور میں قرنطینہ کئے گئے نوجوانوں کی انتظامیہ مخالف ریلی، چلاس بازار میں گوشت کے حصول کے لئے دنگا مشتی،جوٹیال سے بازار چلنے والی سوزوکی سروس وغیرہ کی تصاویر اور ویڈیوزکھنگال کر فرصت کے ان لمحات سے لطف اٹھاسکتے ہیں۔

حکومت کی دوسری کوتاہی ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف کو حفاظتی کٹس کی عدم فراہمی تھی۔  اسپتالوں میں مریضوں کے لئے سہولیات اور طبی عملہ کی جان ومال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری اور مریضوں کی  جانفشانی سے خدمت ڈاکٹروں و معاون عملہ کا فریضہ ہے۔ جب ڈاکٹرز خود اپنی حفاظت کے لئے سینہ کوٹتے پھریں گے توسوچ لیں کہ عوام کا آخر کیا بنے گا۔چنانچہ ڈاکٹروں کوجس بات کا خدشتہ تھا وہی گلگت کے ایک اسپتال کے طبی عملے کے کورونا ٹیسٹ کی مثبت رپورٹ سے ثابت بھی ہوگیا کہ حکومت کی جانب سے حفاظتی اقدامات کا فقدان تھا۔  لہذااب بھی وقت ہے حکومت اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرے اور ڈاکٹروں و پیرامیڈیکل سٹاف کو بہترین حفاظتی سہولیات فراہم کرکے ان کی شکایات کا ازلہ کرے۔

حکومت کی تیسری غلطی کورونا فنڈ کے لئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کا فیصلہ تھا۔  کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ڈاکٹراسامہ ریاض کی شہادت کے بعد وزیراعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے جذباتی انداز میں کورونا بچاؤ مہم میں فرنٹ لائن میں خدمات سرانجام دینے والے سرکاری ملازمین کے لئے ایک ماہ کی اضافی تنخواہ کا اعلان کیا۔  چنددنوں بعد محکمہ خزانہ گلگت  بلتستان سے ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا جس میں گلگت  بلتستان کے صوبائی وزراء و پارلیمانی سکریٹریز سمیت گریڈ چھ سے اوپر کے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے پانچ دن کی کٹوتی کرکے رقم وزیراعلیٰ کے کورونا فنڈ میں جمع کرانے کا حکم صادر تھا۔ مزے کی بات یہ کہ اس  نوٹیفکیشن میں خود وزیراعلیٰ کی تنخواہ کی کٹوتی کا کوئی ذکر موجود نہیں تھا کیونکہ جس آرڈر کے تحت صوبے میں حکومتی معاملات چلائے جارہے ہیں اسی میں وزیراعلیٰ کی الگ اور وزراء کی الگ تعریف بیان کی گئی ہے۔  اس  نوٹیفکیشن کے تحت ایک چھٹے سکیل کے ملازم اور ایک صوبائی وزیر کی تنخواہ سے برابر کی کٹوتی سراسر ناانصافی پر مبنی فیصلہ تھا۔چنانچہ سوشل میڈیا اور اخبارات میں ہرطرف سے اس فیصلے کی مخالفت کی گئی۔مگر اس مخالفت کا وزیراعلیٰ کی صحت پر کوئی اثرنہیں پڑا جس پر گلگت  بلتستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرشفیع خان نے معاملہ عدالت میں اٹھایا۔  یوں چیف کورٹ گلگت  بلتستان کے سکیل کے حساب سے تنخواہ کی کٹوتی کے فیصلے سے وزیراعلیٰ کے اناپرستی ماندپڑگئی۔

 تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک طرف وزیراعلیٰ صاحب اپنے وسائل پر جدوجہد کرکے کورونا جیسی وباء پر بازی لے جانے کا دعویٰ کرتے ہیں تو دوسری جانب کورونا فنڈ کے لئے وسائل نہ ہونے کا رونا روتے ہوئے چھ سکیل کے ملازمین کی تنخواہ سے کٹوتی کرنے کے احکامات دیتے ہیں۔  اسی اثناء  اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یہ الزام سامنے آیا کہ حکومت ہوم لاک ڈاؤن سے فائدہ اٹھاکربلدیاتی سکیموں کے لئے مختص دو ارب سے زائد فنڈ کی بندربانٹ کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔  ایسے میں وزیراعلیٰ گلگت  بلتستان کو چاہیے تھا کہ وہ اس طرح کے سدابہار منصوبوں کی مد میں مختص اربوں روپے کے بجٹ سے کچھ حصہ کورونا ایمرجنسی فنڈ میں منتقل کرکے چھوٹے ملازمین کی تنخواہیں کٹوتی سے بچاتے اور فرنٹ لائن ورکرز کو اضافی مراعات دے دیتے۔ مگر انہوں نے ایسا نہ کیا اور پہلے سے پریشان حال ملازمین کے دل دُکھا لیئے۔  حکومت کی چوتھی غلطی وزیرتعمیر اور بیوروکریسی کے مابین پیدا ہونے والی چپقلش کو سلجھانے میں ناکامی ہے۔  ہم نے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کو کئی بار یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ  گلگت  بلتستان کی حکومت بااختیار ہے،تمام ترفیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مگرلاک ڈاؤن کے دوران حقائق اس کے برعکس نظرآئیں۔  کورونا وائرس سے بچاؤ مہم کے تمام ترفیصلے کابینہ یا وزیراعلیٰ کے دفتر کی بجائے کہیں اور ہوتے رہے۔  لاک ڈاؤن کے اوقات کار بیوروکریسی کی مرضی کے مطابق طے ہوتے رہے۔  کورونا سے متعلق عوام الناس کو معلومات کی فراہمی کی غرض سے قائم پارلیمانی کمیٹی کو راتوں رات لاک ڈاؤن کا شیڈول تبدیل کرنا پڑا۔جب ہر طرف بیوروکریسی کا راج دیکھنے میں آیا توایک حکومتی وزیرنے دلبرداشتہ ہوکرباضابطہ پر یس کانفرنس کے ذیریعے وزارت سے مستعفیٰ ہونے کااعلان کیا۔

 اسی طرح ہی کا ایک واقعہ مئی 2014میں پیش آیا تھا جس میں وفاق کی جانب سے تعینات ایک سرکاری افسر نے پاکستان سے آئے ہوئے سینیٹرز کے ایک وفد کو بریفنگ میں مبینہ طورپر گلگت  بلتستان کے عوامی نمائندوں کو نااہل قرار دیتے ہوئے علاقے کے حوالے سے فیصلہ سازی کااختیار وفاق کے پاس ہی رکھنے کی تجویز دی تھی۔سعد سکندر نامی افسر ان کے اس اقدام کے خلاف اس وقت کے ممبران اسمبلی بشمول سپیکر وزیربیگ، اپوزیشن لیڈر حاجی جانبازودیگر نے یک زبان ہوکر اسمبلی اجلاس میں ان کی خوب سرزنش کی جس پر انہیں معززممبران اسمبلی سے معافی مانگنا پڑا۔ مگرافسوس اس مرتبہ ڈاکٹر اقبال کے علاوہ کسی بھی پارلیمنٹیرین کو وہ جرات نہ ہوئی کہ وہ علاقے کے منتخب نمائندوں کی تضحیک کے مرتکیب افسرسے صورتحال کے بارے میں پوچھ گچھ کرسکیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button