گلگت بلتستان کے انتخابات اور سپریم کورٹ کا فیصلہ
تحریر : ابرار حسین استوری
سپریم کورٹ رپورٹر
گلگت بلتستان کے انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنی منشاء کے مطابق کیسے اور کیوں تشہیر کی گئی؟ گلگت بلتستان حکومت کو سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت کی طرف سے تاریخی شکست کیوں ہوئی اور ذمہ دار کون؟ سپریم کورٹ آف پاکستان میں گلگت بلتستان کے عام انتخابات 2020 اور نگران حکومت کے حوالے سے ہونے والی ایک مبہم سی سماعت جو ممکنہ طور پر پری پلان سماعت لگ رہی تھی، ناظرین سوچ رہے ہونگے پری پلان کیوں کہا اور اس کی وجہ کیا ہے؟ تو سنیں سپریم کورٹ کے سات رکنی لارجر بینچ کے پاس گلگت بلتستان کے انتخابات یا نگران حکومت کے حوالے سے کوئی الگ درخواست تو پہلے سے موجود نہیں تھی تو پھر اچانک یہ درخواست آئی اور سماعت ہوئی کیسے؟ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں تو کیس 17 جنوری 2019 کے فیصلے پر اپیل کے حوالے سے تھی تو اچانک رمضان کا مہینہ اور پھر کرونا وائرس کی وجہ سے عدالتوں میں کام کی سست روی کے باوجود اتنا اہم کیس کیسے سنا گیا اور پھر وفاقی حکومت کی جانب سے نگران حکومت اور الیکشن 2020 کیلئے خصوصی طور پر صدارتی آرڈر کا مطالبہ یقیناً حیران کن تھا.
اس سماعت کی اصل بات گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت نے جو جواب جمع کرایا اسمیں حفیظ الرحمن سرکار کے اعلان کردہ وہ چار اضلاع کا بھی ذکر تھا کہ انہیں بنانے کیلئے عدالت کوئی حکم دے. جبکہ اسی جواب میں نگران حکومت موجودہ صوبائی حکومت اور اپوزیشن ملکر بنائے گی. اس کیلئے الیکشن قوانین پاکستان 2017 کے مطابق کرانے کیلئے بھی کہا گیا تھا.
حفیظ سرکار نے عدالت میں جواب کچھ اور جمع کرایا مگر دوران سماعت ایڈوکیٹ جنرل گلگت بلتستان تو ہر بات پر وفاقی حکومت کی ہاں سے ہاں ملا رہے تھے. اور جو تجاویز اٹارنی جنرل آف پاکستان نے وفاقی حکومت کی طرف سے دی تھی اس پر اعتراض کے بجائے کہا ہم متفق ہیں.
اصل بات تو یہ تھی کہ نگران حکومت اور الیکشن 2020 کیلئے کنٹرول وفاق بذریعے کشمیر افئیرز اپنے پاس لینا چاہتی تھی اور اسی پر وہ کامیاب بھی ہوئے. صوبائی حکومت خود وفاقی حکومت کی بی ٹیم نظر آئی اور اپنے جواب سے بھی مکر گئی. اور عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں صدارتی آرڈر کے ذریعے آرڈر 2018 میں ترمیم کی اجازت دی تاکہ وفاق اپنی مرضی سے نگران حکومت اور الیکشن 2020 کا سہرا اپنے سر سجا سکے. اب یہاں ممکنہ طور پر اگر عدالت انتخابات اور نگران سیٹ اپ الیکشن قوانین 2017 پاکستان کے تحت کرنے کا تفصیلی فیصلہ دے گی تو وفاق کیلئے مشکلات پیدا ہونگی مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا بلکہ کچھ درمیانی صورتحال کو سامنے رکھ کر قواعد و ضوابط طے کئے جائیں گے تاکہ گیند وفاق کے کورٹ میں رہے.
اب بات کریں اس سماعت کے اصل پیرائے کی جسے سننے کیلئے گلگت بلتستان کا ہر فرد انتظار کر رہا ہے کیونکہ ایک مخصوص سوچ کے تحت کنفیوژن پھیلائی گئی ہے. اس سے بھی بڑھ کر کل سے درجنوں فون کالز مجھے آچکی ہیں کہ گلگت بلتستان کے ایک اخبار نے سپریم کورٹ کے جمعرات والے دن کی سماعت کے مختصر فیصلے میں وفاقی حکومت کی درخواست مسترد کر دی اور آرٹیکل(5)56 کے تحت آرڈر 2019 میں ترمیم کی بات کی ہے. تاکہ پاکستان کے 2017 کے قوانین کے مطابق گلگت بلتستان میں نگران حکومت کے قیام اور عام انتخابات 2020 کا انعقاد کیا جاسکے. اب اس خبر کے برعکس مجھ سمیت دیگر جو سپریم کورٹ بیٹ رپورٹرز جنہیں دس دس سال سپریم کورٹ کی رپورٹنگ میں گزارا انہوں نے خبر دی کہ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی درخواست منظور کر لی اور صدارتی حکم کے زریعے آرڈر 2018 میں صرف نگران سیٹ اپ اور عام انتخابات 2020 کیلئے ترمیم کی اجازت ہوگی. جبکہ اٹارنی جنرل آف پاکستان کے دلائل کے مطابق اگست 2019 سے ریجنل حالات بدلنے کی وجہ سے وفاق کو سپریم کورٹ کا 17 جنوری 2019 کے فیصلے پر عملدرآمد کرانے میں بھی وقت لگا ہے اور مزید وقت لگ سکتا ہے کیونکہ اب اس صورت حال میں گلگت بلتستان کے حوالے سے بہت زیادہ سوچ بچار، عالمی حالات اور ریجنل حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ بہتر کیا جا سکے گا. جبکہ یہاں خاص بات وفاق کی جانب سے دائر درخواست میں بھی یہی لکھا گیا ہے کہ 2018 کے آرڈر میں نگران حکومت کے قیام اور عام انتخابات کے حوالے سے آپشن موجود نہیں تو اس آپشن کو استعمال کرنے کی اجازت دی جائے اور عدالت نے صوبائی حکومت کے ایڈوکیٹ جنرل سے استفسار بھی کیا کہ اس پر گلگت بلتستان حکومت کو کوئی اعتراض تو نہیں جس پر ایڈوکیٹ جنرل گلگت بلتستان نے کہا کہ ہم وفاق کی تجاویز پر متفق ہیں. اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ گزشتہ دو دن سے گلگت بلتستان میں اس مختصر فیصلے پر ابہام پیدا کیوں کیا گیا؟ تو یہاں ذکر کرتا چلوں کی بحثیت صحافی میں چار سال سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپنے چینل کا بیٹ رپورٹر ہوں اور گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق کیس اول روز سے تاحال کور کرتا رہا ہوں اور آج کی اس سماعت میں بھی موجود تھا اور جو عدالت نے فیصلہ دیا اسی طرح رپورٹ کیا. مگر گلگت بلتستان کے کچھ وکلاء اور سیاسی نمائندے اس فیصلے کو بھی عوام تک اپنی منشاء کے مطابق پہنچانا چاہتے تھے جس کیلئے انہوں نے گلگت بلتستان کا ایک بہت بڑا اخبار استعمال کیا تاکہ اپنے مقاصد حاصل کر سکیں خیر ایک دو دن میں اس اہم کیس کا تفصیلی فیصلہ آجائے گا تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا. مگر جن لوگوں نے خبر میں 2019 آرڈر پر ترمیم کا زکر کیا ہے وہ سماعت کے بعد اٹارنی جنرل آف پاکستان کے پاس جاکر کیا گزارشات اور منتیں کرتے رہے اس کا انکشاف بھی انشاءاللہ کھبی ضرور کروں گا.