کالمز

غذائی بحران اور مدینہ کا عظیم تاجر

تحریر ڈاکٹر شکیل عبداللہ شگری 

اقوام عالم اور اسلام کی تاریخ اس طرح کی غذائی بحرانوں اور قحط کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔

حضرت ابو بکر کے دور خلافت میں ایک بار مدینہ میں قحط پڑی مسلمان پریشان تھے کہ ہم کھانا کدھر سے کھائیں گے۔ اتنے میں ایک آدمی خبر لایا کہ کہ حضرت عثمان جن کا شمار مدینے کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا کا ایک ہزار اونٹ کا قافلہ گیہوں اور دیگر اشیا خوردونوش لے کر پہنچ گیا ہے۔ جب یہ بات مدینے کی تاجروں تک پہنچی سویرے ہی تاجروں نے حضرت عثمان? کی دروازے پہ دستک دی۔ اے عثمان? ہمیں اطلاع ملی ہے کہ آپ کا ایک ہزار اونٹ گہیوں اور کھانے کے اشیاء لیے پہچ گئے ہیں۔ اپ یہ ہمیں فروخت کر دیں تاکہ مدینہ میں جو غذائی قلت ہے دور ہوسکے۔ حضرت عثمان نے پوچھا آپ لوگ جو غلہ میں نے ملک شام سے منگوائی ہے اس پر مجھے کتنا منافع دوگے؟ تاجروں نے کہا ہم دس کے بارہ دیں گے۔ حضرت عثمان نے کہا اور زیادہ دو، تاجروں نے جواب دیا ہم دس کے بدلے چودہ دیں گے۔ کوئی اس سے زیادہ دے سکتا ہے۔ جواب آیا ہم مدینہ کے معروف تاجر ہیں اس سے زیادہ نہیں دے سکتے۔ حضرت عثمان نے فرمایا: میرے پاس تم لوگوں سے زیادہ دینے والا ایک ہے جو ایک درھم پر دس درہم منافع دیں گے۔ تاجر حیران ہوئے ایسا کون ہوسکتا ہے۔ پوچھا کون ہے؟ جو اتنا منافع دے رہا ہے۔ حضرت عثمان نے جواب دیا: تم سب گواہ رہنا کہ میں نے یہ جتنا غلہ میرے پاس آیا ہگ سب کے سب مدینہ کے لوگوں مفت تقسیم کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ اور فوری طور پر ان گہیوں اور اجناس کو اہل مدینہ میں مفت تقسیم کیا گیا۔

اس سے مدینہ میں جو غذائی بحران کا خدشہ تھا دور ہوگیا، بلکہ غریبوں کیلے کئی مہینوں کا راشن حضرت عثمان نے مفت فراہم کی۔ مارکیٹ میں غذائی بحران پر قابو پالیا گیا۔

اگر وہ چاہتے تو بہت کچھ کمایا جاسکتا تھا۔ مگر انہوں نے بحران میں منافع کمانے کے بجائے معاشرے کے ساتھ ہمدردی کو ترجیح دی اور اللہ کے ساتھ تجارت کر ڈالی!

صرف یہ نہیں جب جب معاشرے میں بحران اور قلت پیدا ہوا وہ اگے بڑھے اور مسلمانوں کو بحران سے بچانے کے لے اپنی تجارت، مال ودولت کام میں لائے۔ جب مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو مدینہ میں ایک ہی کنواں تھا جس کا نام بئر رومہ تھا جو کہ بنو غفار کے ایک ادمی کی ملکیت میں تھا وہ اس کنواں کے پانی کا ایک مشکیزا ۱۵ چھٹانک غلے میں بیچتا تھا۔ اس سے کمزور مسلمان کافی پریشان ہوئے اور مدینہ میں پینے کی پانی کا بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہوا تو آپ ﷺ نے لوگوں کو اس کنواں کو خرید کر وقف عام کرنے کی ترغیب دی بلکہ جو بھی اس کنواں کو خرید کر اللہ کی راہ میں وقف کرے اس سے جنت کی بشارت دی۔ جب یہ بات حضرت عثمان تک پہنچی وہ فورا اس کنواں کے مالک کے پاس پہنچے منہ مانگی دام دے کر اس کنویں کو خرید لی۔ اور سیدھا دربار رسالت? میں حاضری دی عرض کیا اے پیارے حبیب? میں یہ کنواں خرید کر آیا ہوں اور اس سے اللہ رسول کی خوشنودی کیلے تا قیامت وقف کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ اج سے اس کنواں سے جو جتنا چاہیے مفت میں پانی لے۔ آپ? خوشی سے کھل اٹھے اور عثمان? کو ایک بار پھر جنت کی خوشخبری سنا دی۔

یہ تھا مدینہ کا سب سے بڑا تاجر، داماد سردارکونیں?، خلیفہ ثالث جس کا نام عثمان، کنیت ابو عبداللہ، باپ کا نام عفان اور ذی النورین کے لقب سے مشہور ہوئے۔

آپ شروع سے ہی قریش کے نامور تاجروں میں شمار ہوتا تھا۔ اللہ تعالی نے اپ کو تجارت میں اتنی برکت دی اپ کے نام کے ساتھ عثمان غنی جڑ گیا۔

اپ? نے اپنی دور خلافت میں قدرتی آفات کی تدارک کیلے بہت سی اقدامات کئے، جن میں سے ایک مدینہ کو سیلاب سے بچانے کیلیے ایک مضبوط بند تعمیر کرایا جس سے مدینہ منورہ کو سیلاب جیسیخطرہ سے محفوظ کر دیا۔

اور ایک ہم اور ہمارے تاجر حضرات ہیں جو ہر وقت مارکیٹ میں مصنوعی بحران پیدا کرکے ناجائز منافع کمانے کی چکر میں لگے رہتے ہیں۔ جہاں دنیا لاک ڈاؤں کا شکار ہے، غذائی بحران سر اٹھانے لگی ہے ایسے میں ہمارے ہاں تاجروں کا ایک ٹولہ ہے جنہوں نے جی بھر کے منافع خوری، گندم، اٹا اور ضروریات زندگی کی بلیک میلنگ شروع کر رکھی ہے۔ ہر کوئی ضرورت کی چیزوں کو چھپا کر زر کثیر کمانے کی چکر میں لگے ہوئے ہیں۔

حکومت کی طرف سے کوئی اقدام اٹھایا جائے تو فورا تاجر حضرات کوئی ایشو لے کے سرکار کو بلیک میل کر لیتے ہیں اور حکومت اپنی کمزوریوں کے پیش نظر انکھیں بند کر لیتی ہے۔

ظاہری طور پر ایک ریٹ لسٹ جاری کیا جاتا ہے مگر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر حکومت حرکت میں آ بھی جاتی ہے تو تاجروں کی حیلوں سے کیسے نمٹ سکے گی۔ جب معاشرے کی سب سے طاقتور طبقے کی دل رحم سے خالی ہو۔

کب تک حکومت پیچھا کریگی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر ایسی صورتحال ہے تو عوام شکایت کیوں نہیں کرتی۔ بچارے عوام کو جو مزدوری سے بھی محروم ہے ان کو ریٹ لسٹ کے بجائے زیادہ ادھار کی فکر ہے۔ کہیں اگر کوئی بول اٹھے تو ادھار کی رجسٹر سامنے پیش کی جاتی ہے۔

دراصل یہ لوگ تاجر نہیں یہ سودا گر ہے جو منافع کی شکل میں تاجر بنے بیٹھے ہیں۔ تاجر تو داما مصطفی? خلیفہ ثالث پیکر صدق وحیا عثمان بن عفان? اور ان جیسے لوگ ہوا کرتے جو نا جائز منافع کے بجائے لوگوں کی کمزور معاشی حالات اور معاشرے کی ضروریات کیلے قربانی دے کر اللہ سے تجارت کر لیتے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button