کالمز
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام بحثیت محسن اسلام
ازقلم:محبوب حسین
اقوام عالم کے تمام ادیان میں اسلام پروردگار عالم کا ایک پسندیدہ دین ہے، جس کا اظہار پروردگار عالم نے بذریعہ سن 10 ہجری کو حجتہ الوداع کے موقع پر کیا اور اسی دین حنیف پر اپنی رضاعت اور پسندیدگی کی مہر لگادی۔دین اسلام کو بہت سے مشکل اور کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا اور شروع سے لیکر رسول پاک کے وصال تک” چمن اسلام” کی آبیاری اپنے خون سے اگر کسی نے کی ہے تو وہ ہے خاندان مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام جن کے اسلام پر بے شمار احسانات ہیں اور رہتی دنیا تک قائم و دائم رہیں گے ان میں اگر تاریخ اٹھا کے دیکھا جائے شب ہجرت بستر رسول پاک پر اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر سو کر بانی اسلام کی جان کی حفاظت کی اور پھر تین دن تک جان جوکھم میں ڈال کر غار میں آپ کے لیے کھانا پہنچاتے رہے۔جنگ بدر میں جب مسلمان تعداد میں 313 تھے آپ نے جنگ کا آغاز نہایت دلیری اور شجاعت سے کیا اور اپنے مدمقابل ولید کو تہہ تیغ کرنے کے بعد شببہ جو حضرت حمزہ سے لڑرہا تھا ، اسے بھی شکست کر ڈالا اور عتبہ کو بھی جو ابو عبیدہ ابن کو گھائل کر چکا تھا اسے بھی فی النار کیا اور اس طرح اسلام کی پہلی جنگ شروع ہوئی جو مسلمانوں کی فتحیابی پر ختم ہوئی۔حضرت علی دین فطرت پر پیدا ہوئے اور ایسے ماحول میں تربیت پائی جو پوری طرح فطرت سے ہم آہنگ حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں خود فرماتے ہیں کہ میں دین فطرت پر پیدا ہوا اور ایمان و ہجرت میں سبقت لے گیا۔
آپ اوائل ہی سے پیغمبر کے ساتھ ستاھ رہے ہیں۔ انہی کی آغوش میں پرورش پائی اور الہی کے عقائد و نظریات پر اپنے عقائد و نظریات کی بنیاد رکھی اور کبھی کفر و شرک سے واسطہ ہی نہ رہا۔ لہذا جس کی ولادت اسلام پر اور تربیت بانی اسلام کے زیر سایہ ہو اور تمام افعال و اعمال میں نبی کا تابع رہا ہو ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا ہو ۔
حضرت علی علیہ السلام اس عظیم خاندان کے چشم و چراغ ہیں، جو تمام کائنات میں افضل و اعلی ہے، خواہ چاہے وہ حلم ہو خلق، مہمان نوازی یا بندہ نوازی، عبادت ہو یا شجاعت، ابتدا سے لیکر اس خاندان کا نام ہمیشہ بہترین اخلاق ، آداب ، علم میں اعلٰی ترین نہج پر تھا اور اس کے ڈنکے چہاردانگ بجتے تھے اور ان سب میں حضور اکرم کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا نام سب سے درخشاں ستارے کی مانند ہے۔آپ خندہ جبیں، شگفتہ مزاج، بے غرضی و اخلاص کا پیکر، غریبوں کے ہمدرد، یتیموں کے غمخوار اور اخلاق نبوی کا مکمل نمونہ تھے۔ اعلی و ادنی سے یکساں خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے۔ غلاموں سے عزیزوں کا سا سلوک کرتے مزدوروں کو کو بوجھ اٹھانے میں مدد دیتے، خود بینی اور خود نمائی سے نفرت کرتے، انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے، عام لوگوں کی طرح سادہ اور معمول خوراک کھاتے اور انہی کی طرح کپڑے اور عام لباس پہنتے تھے۔ اکثر کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتے تھے۔ اپنی جوتیاں خود گانٹھتے، کپڑوں میں پیوند لگاتے اور بازار سے سودا خود سلف کرتے۔ایک مزدور کی طرح کام کرتے ، اپنے ہاتھ سے چشمے کھودتے درخت لگاتے اور انکی آبیاری کرتے میرے علی اعلی اخلاق کے پیکر تھے۔
مشہور مستشرق گبرئیل انکری Gabriel Enkiri اپنی مشہور زمانہ کتاب ‘ شہوار اسلام میں Evalierdel Islam میں علی علیہ السلام کے بارے کچھ یوں لکھتاہے۔حضرت علی علیہ السلام جیسی عظیم اور بلند ہستی اس کائنات میں ایسی ہے، جس میں دو متضاد صفتیں اپنے درجہ کمال پر ہیں اور یہ صفات تمام عالم میں کسی اور میں دکھائی نہیں دیتیں کہ ان کی زات ، جس میں ایسا اجتماع ضدین واقع ہواہو۔ یہ حضرت علی کی زات مبارک ہے کہ قہر مان جنگ ، فاتح اور سپہ سالار جنرل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زبردست عالم دین ، فصیح و بلیغ ترین خطیب بھی تھے۔ مولائے کائنات خود ارشاد فرماتے ہیں۔” اگر میرے سامنے دین نہ ہوتا تو میں دنیا کا سب سے بڑا سیاست دان ہوتا”۔
بیروت ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور مشہور مسیحی ادیب و شاعر Paulas Salama اپنے اول ملحمہ عربیہ عیدالغدیر میں لکھتا ہے کہ نہج البلاغہ مشہور ترین کتاب ہے، جس سے امام اول حضرت علی کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ سوائے قرآن مجید کے کوئی کتاب فصاحت و بلاغت اور قدرو قیمت میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
مولائے کائنات امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی زات اقدس اس اعتبار سے منفرد یگانہ اور عجوبہ و نابغہ روزگار ہے کہ ان میں وہ تمام فضائل و کمالات جو نہ کسی میں جمع ہوئے اور نہ ہوں گے پوری آب و تاب کے ساتھ خمع تھے۔ گو دیکھنے میں آپ ایک شخصیت تھے مگر مختلف صفات اور کمالات کے اعتبار سے متعدد شخصیتوں کا مجموعہ نظر آتے تھے اور آپ کی زات اقدس میں تمام فضائل و محاسن اپنی تمام تر دل آویزیوں کے ساتھ سمٹ کر جمع ہوگئے تھےاور یہ ہی وہ طغرائے امتیاز ہے، جس نے آپ کی عظیم شخصیت کو رفعت انسانی کا شاہکار اور کمالات و محاسن کے پھولوں کا گلدستہ صد رنگ و چمن صد بہار بنا دیا۔
رسول اکرم نے فرمایا کہ جو شخص آدم علیہ السلام کے علم کو، نوح علیہ السلام کے فہم کو، ابراہیم علیہ السلام کے حلم کو، یحیی کے زہد کو، اور ہیبت موسی کو، اور تمام انبیاء کے چہرے سمیت دیکھنا چاپتا ہے تو وہ علی علیہ السلام کے چہرہ انور کو دیکھے۔ ہمیں اللہ تعالی ہمارے پیارے مولا حضرت علی علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ” امین "
کتابات؛ وجود کائنات مالانا علی اور غدیر خم،مولف” میجر(ر)افتخار حسین زیدی۔
علی تو علی ہے،” مولف” پروفیسر علی نقی”