کالمز
غربت مٹاو، سائنس اور ٹیکنالوجی کو پروان چڑھاو
ازقلم: محبوب حسین
1947ء سے اب تک پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے تقریبا 73 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ بدقسمتی سے ہم میں کوئی ایسی سیاسی جماعت پیدا نہ ہوئی جو جو اقتصادی اور سائنی ترقی کو ریاست کی مرکزی حکمت عملی قرار دیتی، جب ہم پاکستان کے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہیں، اور ان واقعات کو دہراتے ہیں تو کہیں سے بھی ہمیں یہ نعرہ سنائی نہیں دیتا کہ ہم ہر قیمت پر غربت کو دور کریں گے، راجیو کے زمانے میں غربت ہٹاو کا نعرہ کسی حد تک تو بھارت میں سنائی دیتا رہا مگر اس کی گونج پاکستان میں نہیں ہے۔ مگر ہم نے ان مسائل کو فوقیت ہی نہیں دی ہے جو غربت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پر طرح طرح کے استحصال کے الزامات بھی لگائے ہیں مگر یہ فیصلہ کبھی نہیں کیا گیا کہ ہم غربت کو کسی قیمت پر قبول نہیں کریں گے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 1987ء تک دنیا کی 25 فیصد آبادی جو 1 عشاریہ 2 فیصد نفوس پر مشتمل ہے ترقی یافتہ ہے، اور وہ دنیا کے 2/5 حصے پر آباد ہے اور دنیا کے 80 فیصد قدرتی وسائل پر قابض ہے، جبکہ
دنیا کی 3 اعشاریہ 8 بلین آبادی کسمپرسی کے عالم میں ہے، وہ مستحقیق پر مشتمل ہے اور دنیا کے بقایا 3/5 حصے پر آباد ہے۔
جو شے اس ترقی یافتہ گروہ کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے ۔ "قوت عمل ” ہے یہ ایک قوت ہے ایک حیاتیاتی توانائی(Elan ) ہے جو بنیادی طور پر ان کی قوت فیصلہ سے ابھرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا تعلق سائنس اور ٹیکنالوجی کے استعمال میں بھی ہے، بنیادی طور پر یہ اس گروہ کا سیاسی فیصلہ ہے، جو ترقی پذیر دنیا یعنی جنوب کے سیاہ و سفید کا مالک ہے، وہ چاہے تو اس بے توائی کو توانائی بنا دے مگر اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو کام میں لائے۔
جنوب کے کچھ ممالک بے حسی کے اس عمل سے مستشنی ہیں، مثلا سنگاپور، جنوبی کوریا اور ملائشیا، باقی تمام ممالک میں اس عزم کی کمی ہے جس کو ڈاکٹر عبدالسلام نے ارمان کا نام دیا یے یعنی تیسری دنیا کے ممالک کا وہ عزم جو غربت کا خاتمہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اگرچہ ہندوستان میں جب کانگریس برسر اقتدار میں تھی تو اس نے بھی غربت مٹانے دور کرنے کے لیے زبانی گفتگو تو بہت کی ہے مگر عملی طور پر کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا، حالانکہ آزادی حاصل کرنے کے 45 برس کے بعد وہاں خواندگی کی شرح 70 فیصد ہوچکی تھی۔ پاکستان کی صورت حال آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں یہاں شرح خواندگی شاید 45 برس پہلے کی شرح سے بھی نیچے جاچکی ہے، روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے تو بہت لگے ہیں مگر غربت دور کرنے کے کوئی سنجیدہ کوشش سوائے پہلے پانچ سالہ منصوبہ کے اور کہیں نظر نہیں آتی۔ اس منصوبے پر بھی عملدرآمد نہیں ہو پایا ، اس کے بعد تو دیوار ٹیڑھی ہی ہوتی چلی گئی ہے۔ اب موجودہ حکومت نے کسی حد تک غربت مٹاو سکیم کا اجرا کیا ہے، اب ان سیاسی بندوں پر انحصار ہے کہ یہ اسکیم کس حد تک ملک میں کامیاب کرپاتے ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کو ترقی دینا گویا زمین پر جنت بنانے کی ایک خواہش ہے مگر ہم شاید بعض درویش صوفیا کی طرح اپنے حال میں مست ہوگئے ہیں، تیسری دنیا کے ممالک کا ایک المیہ یہ بھی یے کہ انہوں نے اپنے قدرتی وسائل کو ہمسایوں کے ساتھ مل کر سردیاگرم جنگ میں ضائع کیا ہے۔ لہذا اب انکے پاس وہ وسائل بچے ہی نہیں ہیں جن کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی پر صرف کیا جاسکے، پھر اس پر یہ اضافہ بھی ہے کہ یونیورسٹیوں کا نظام بھی بے حد ناقص ہے، سائنس کے تحقیقی مراکز نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ اگر ہے بھی تو انکا آپس میں اور پھر یونیورسٹیوں سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ ایسی فضا قائم کردی گئی ہے کہ سائنسدانوں کو ملک کے اندر رہنا ناممکن ہوگیا ہے۔ وہ لوگ جو اپنی وطن کی تقدیر کو بدل سکتے تھے اب باہر کے ممالک میں اپنے خاندانوں کے لیے دولت کما رہے ہیں۔
مصنف شہزاد احمد اپنی کتاب سائنسی انقلاب میں کچھ یوں لکھتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران خوش قسمتی سے ہم نے مستریوں اور کاریگروں کی ایک جماعت پیدا کرلی تھی، یہ اس وجہ سے ہوا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران مغربی ممالک سے درآمدی بند ہوگئ تھی، پاکستان بنے کے بعد یہ لوگ بھی صنعتی دنیا کے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوسکتے تھے مگر ان کو بھی عرب ممالک میں دولت کمانے کے لیے بیھج دیا گیا اور جو کچھ زرمبادلہ کی شکل میں انہوں نے کمایا اس سے کاریں اور سامان تعیش درآمد کیاگیا،جب یہ لوگ واپس آتے ہیں تو ان کی خدمت سے فائدہ اٹھانے کی کوئی فضا ملک میں موجود نہیں ہوتی لہذا یہ عظیم وسیلہ جو اتفاق سے پیدا ہوا تھا ضائع کیا جاچکا ہے۔
ان حالات میں اگر کوئی محب وطن دانشور یا سائنس دان مایوسی کا شکار ہوتا ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے، کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلا سوال جو ہماری نسل سے کیا جائے گا یہ ہوگا کہ تم نے اپنے رب کے عظیم عطیے کو ضائع کیوں کر دیا؟ کیا ہم اس قدر بے حس ہیں کہ ہم کو آئندہ نسلوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی، ہم روز کنواں کھودتے ہیں، اس میں سے پانی پیتے اور شام ہونے سے پہلے پہلے اس کو پھر سے بند کر دیتے ہیں، کیا ہم اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھ سکتے۔ خدا کی رحمت سے امید ہے کہ وہ گناہ تو معاف کر دے گی ، مگر مجھے معلوم نہیں کہ ناشکری معاف ہوسکتی ہے یا نہیں، ” تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
غربت کی ایک وجہ بڑھتی ہوئی آبادی بھی ہے، پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہیں اور اسکی آبادی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اس پر قابو کرنے کی سنجیدہ کوشش ابھی تک نظر نہیں آتی۔ ہمارے اداروں کو بھی چاہے کہ عوام کو شعور دے اور آبادی کے بڑھنے کے اثرات ان تک پہنچائے۔ آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے بہت سارے بنیادی ضروریات میں کمی ہو سکتی ہیں ان میں خوراک کا فقدان، کھانے پینے کے بنیادی ضروریات کی کمی، رہنے کے لیے جگہ کے مسلہ، وغیرہ شامل ہے۔ اور ان کی وخہ سے بہت سارے مسائل بھی ہو سکتے ہیں ، ماحول کی آلودگی میں اضافہ، بے روزگاری، اور یہ سارے مسائل زیادہ آبادی کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں، موجودہ صنعتی دور سے پہلے دنیا کی آبادی کبھی ایک ارب سے زیادہ نہیں ہوئی مگر اب وہ 7 اعشاریہ 5 ارب سے تجاوز کر گئی ہے، یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ انسانی آبادی اصولی طور پر آلودگی پیدا کرتی ہے اور اس کی وجہ سے قدرتی وسائل میں کمی پیدا ہوتی ہے۔ اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ مفلسی کا دوسرا نام کفر ہے ، جارج برنارڈ شاہ Geroge Barnad Shah نے کہا تھا کہ روحانی اقدار خالی پیٹ، بے چھت اور بے لباس لوگوں میں نہیں پنپ سکتیں ” ۔ جو مذہب بھی جائز جسمانی ضروریات کا خیال کیے بغیر روحانیت کی بات کرتا ہے وہ گمراہی پھیلاتا ہے، کارل مارکس نے ایسے ہی مذہب کو افیون کہا تھا اور نطشے نے اسے غلامانہ اخلاقیات قرار دیا تھا۔
اگر دیکھا جائے تو ہماری موجودہ صورت حال خاصی مایوس کن ہے خصوصا اس وجہ سے کہ ہم ابھی تک نہ مسائل کو پہچاننے کو تیار ہیں نہ ہی ہم کسی عزم کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ ہم نے بہت وقت پہلے ہی ضائع کر چکے ہیں اور اب بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ کاش ہم خواب غفلت سے بیدار ہو سکیں۔