کرونا وائرس اور حکمرانوں کی حکمت عملی
تحریر: صاحب مدد شاہ
عالمی وبا کرونا وائرس کو دنیا پر حملہ آوار ہوئے غالباً یہ چھٹا مہینہ چل رہا ہے۔ ابھی بھی اس کی تباہکاریاں اپنی آب و تاب سے جاری ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا بہترین علاج سماجی دوری اور احتیاط ہے۔ جب تک اس کی ویکسین نہیں بنتی ہے تب تک اس پر مکمل قابو پانا ناگزیر ہے۔
ڈان اخبار میں شائع محمد علی باباخیل کے کالم کے مطابق اب تک سنگاپور، ویتنام، تائیوان،جرمنی، چائنہ، نیوزی لینڈ اور ساؤتھ کوریا نے کرونا وائرس پر سنجیدگی سے کام کیا ہے۔ امریکہ اور جرمنی ترقی یافتہ ممالک ہونے کے باوجود کرونا وائرس پر قابو نہیں پا سکے ہیں۔
جن ممالک نے اس وبا پر مکمل کنٹرول حاصل کیا ہے اس کے پیچھے ٹیکنالوجی کا بڑا ہاتھ ہے۔ چائنہ نے اپنے قرنطینہ سنٹروں میں روبوٹ کا استعمال کیا ہے اور سنگاپور میں روبوٹس ہسپتالوں کی صاف صفائی کا کام کرتے ہیں، ساؤتھ کوریا اور اسرائیل سمارٹ فون کے زریعے کرونا سے مشتبہ افراد کی نشاندھی کرتے ہیں، ہانگ کانک میں باہر سے آنے والے افراد کو ہاتھ میں tracking wristband باندھنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ساؤتھ کوریا اور تائیوان location tracking کا طریقہ استعمال کرتے ہیں ، جرمنی اور اٹلی نے ایک ایسا طریقہ کار متعارف کروایا ہے جس کے زریعے آسانی سے پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام نے لاک ڈاؤن کی کہاں کہاں پر خلاف ورزی کی ہے۔ چائنہ میں پولیس ڈرون پر لاؤڈ اسپیکر اور کیمرے نصب کر لوگوں کے ہجوم کو منتشر کر کے سماجی دوری کو برقرار رکھتی ہے۔
خوش قسمتی سے دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد کم ہیں ، مگر خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ معروضی حالات اور حکومتوں کی حکمت عملی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آئیندہ کچھ مہینوں میں حالات سنگینی کیفیت اختیار کرسکتے ہیں اور اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
قارئین کرام آپ خود ہی انداز لگائیں اوپر ذکر شدہ ممالک کی حکمت کے برابر پاکستان میں ایک فیصد بھی کام نہیں ہوا ہے۔ کبھی سمارٹ لاک ڈاؤن کبھی سخت لاک ڈاؤن، کبھی صبح نو سے دوپہر تین بجے تک لاک ڈاؤن میں نرمی ، کھبی پیر کو لاک ڈان اور منگل کو نرمی ۔ یہ کیا ماجرا ہے۔ سمجھ نہیں آرہا ہے۔ کیا صبح نو سے دوپہر تین بجے تک کرونا وائرس سوتا ہے یا چھٹی پر چلا جاتا ہے یا پیر کو کرونا وائرس کم زہریلا اور منگل کو زیادہ زہریلا ہوتا ہے؟
ہم مانتے ہیں پاکستان ایک غریب ملک ہے اس کے پاس وسائل کی کمی ہے مگر جو وسائل دستیاب ہیں ان کا استعمال احسن طریقے سے کیوں نہیں کر سکتے ہیں ۔ آپ سنگاپور کی طرح اسپتالوں میں روبوٹس کا استعمال نہیں کرسکتے تو آپ کے پاس ویسٹ مینجمنٹ کا عملہ موجود ہیں آپ اس کے زریعے ہسپتالوں میں صاف صفائی کو یقینی بنا سکتے ہیں ، سرکاری اسپتالوں کا حالت زار دیکھ کر تازہ بندہ بھی بیمار پڑتا ہے۔
اگر آپ چائنہ کی طرح ڈرون پر کیمرے اور لاؤڈ سپیکر لگا کر لوگوں کی نقل وحرکت پر قابوں نہیں پا سکتے تو یہ پیر کو کھلی چھوٹ اور منگل کو چڑیا پر بھی نہ مارے والی پالیسی پر غور کرے کے کوئی سنجیدہ اقدام اٹھا سکتے ہیں۔ یہ بھی مان لیتے ہیں آپ ساؤتھ کوریا اور اسرائیل کی طرح سمارٹ فون سے کرونا سے مشتبہ افراد کی نشاندھی نہیں کرسکتے تو آپ اپنی ٹیسٹنگ کیپسٹی بڑھا کر زیادہ سے زیادہ افراد کا کرونا ٹیسٹ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ہانگ کانک کی طرح باہر سے آنے والے افراد کے ہاتھوں میں tracking wristband نہیں باندھ سکتے تو ان افراد کو قرانطینہ سنٹر منتقل کر سکتے ہیں۔
ہم نہایت ہی افسوس کے ساتھ یہ بھی ماننے کو تیار ہیں کہ پاکستان میں ہسپتالوں کی حالت انتہائی خراب ہے ، مریض بچارے تو بھلک بھلک کر وینٹیلیٹر اور رسپاٹریٹر کی عدم دستیابی حتی کی ایمرجنسی میں بیڈ نہیں ملنے کی وجہ سے دم توڈتے ہیں مگر کونا وائرس سے فرنٹ لائن پر کھڑے ہو کر لڑنے والے سپاہی ڈاکٹرز بھی محفوظ نہیں ہیں۔
گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض کرونا وائرس سے مشتبہ مریضوں کی دوران سکریننگ حفاظتی کٹ کی عدم دستیابی پر اپنی جان کی بازی ہار گے اور کراچی کے بزرگ ڈاکٹر فرقان جو کروانا وائرس کی جنگ میں صف اول تھے کراچی جیسی بڑی شہر میں وینٹیلیٹر کی عدم دستیابی کی وجہ سے لقمہ اجل بنے۔ ڈاکٹر فرقان کی کہانی تو زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اس بچارے کو پورا دن ایمبولینس میں کراچی کے ہسپتالوں کے چکر لگوا لگوا کر مار دیا گیا، کسی بھی ہسپتال نے وینٹیلیٹر فراہم نہیں کیا بلاآخر راستے میں دم توڑ گے. آپ خود ہی اندازہ لگائیں اگر ایک ڈاکٹر کو بروقت علاج ملنا ممکن نہیں ہے تو ایک عام غریب انسان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا؟
کرونا وائرس نے پوری دنیا میں حکمرانوں کے پول کھول دئیے ہیں۔ کون کتنا اپنی ملک اور لوگوں کے ساتھ مخلص ہے اور کیسے کیسے پالیساں مرتب کئے جاتے ہیں؟ ممکن نہیں ہے پاکستان میں ان حکمرانوں کی حالت زار دیکھ کر کرونا اس ملک کا جان چھوڈے گا۔