کالمز

تعلیم کا درد

زندگی بہت خوبصورتی سے چل رہی تھی۔ غم روزگار اور چھوٹی موٹی بیماریاں اپنے جگہ چل رہی تھیں۔ روزانہ کے معمول پہ ایک نیا قلعہ بناتا اور پھر حرام و حلال کی تمیز میں خود ہی اسے توڑ دیتا۔ لیکن ایک دن اچانک کرونا نامی ایک وبا چین کے شہر ووھان میں پھوٹی اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میڈیا قیامت صغرابرپا کرنے لگا۔ اٹلی، سپین اور متحدہ ہائے امریکہ مکمل کرونا کی گرفت میں آگئے۔ اور پورے عالم میں ایک قیامت کا منظر رونما ہوا۔ سائنس دان اپنے جدید آلات کو بروئے کار لاتے ہوئے سائنسی تجربے کرنے لگے، چرچ کی مشعلیں مزید روشن ہونے لگیں، مساجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھنے لگی اور تو اور بازار کا رش کم ہونے لگا۔ کہیں کہیں سے دھیمی مگر مایوس کن خبریں آنے لگیں۔ اسپین کا ایک سرکاری ذمہ دار اس وبا سے پیدا ہونے والی معاشی بدحالی کا گمان کر کے زندگی کا چراغ گل کر گیا۔قرنطینہ کی یکسوئی سے دل برداشتہ ہوکر اتالوی نوجوان خودکشی کر گیا۔ وباء میں مبتلا ناکام عاشق اپنی محبوبہ پر چھینک کر بھاگ کیا۔ افراتفری بڑھنے لگی۔

یہ جو افراتفری ہے اس کے پیچھے جس بات کی مجھے سمجھ آئی وہ کچھ یوں ہے۔ ہر انسان اللہ کا لاڈلا ہے اور اپنے حساب سے انسانی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ نے رزق کا معقول انتظام کر رکھا ہے، لیکن کم عقل انسان اپنی نامعقول خواہشات کی بنیاد پہ اپنے حساب سے رزق مانگتا ہے۔ لیکن ہر انسان اللہ کا اتنا بھی لاڈلا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات کے پورے نہ ہونے کے ڈر سے چھوٹے چھوٹے مسائل کو پہاڑ بنا دیتا ہے۔ وائرس کا دباؤ بڑا شدید ہے، لیکن میرا ایمان ہے کہ برداشت کرنے کے ساتھ حالات ضرور بدل جائیں گے، بس تھوڑا سا حوصلہ اور من ہی من میں مسکراہٹ کی ضرورت ہے۔ یہ وہ راز ہے جو میں نے بڑے بھائی سے سیکھا، سکول کالج اور یونیورسٹی میں یہ کسی نے مجھے نہیں سکھایا۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدل رہے ہیں۔ سرکار انتھک کو ششوں میں لگی ہوئی ہے۔ اپوزیشن اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ عوام بھرپور تعاون کر رہی ہے۔ لوگوں میں کرونا سے لڑنے کا شعور پیدا ہو چکا ہے۔ آس جاگ چکی ہے۔ شاید رمز خداوندی کو مسلمان سمجھنے لگا ہے۔ اللہ کا کرم حال شامل ہو چکا ہے۔ کہتے ہیں اگر ڈر اپنی انتہا چھو جائے اور ناامیدی پروان چڑھنا شروع کرے تو اللہ دھیمے سے مسلمان کے کان میں امید کی کرن کی سرگوشی کرتا ہے۔ گلگت کا ماحول دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ وہ سرگوشی ہو چکی ہے۔ تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے۔شعور کا پتہ تب چلتا ہے جب اجتماعیت کسی مسئلے کا شکار ہو۔ آج کل انفرادی طور پر ہر آدمی باشعور ہے۔

کرونا کے ان حالات میں باشعوری کا عملی مظاہرہ تب ہوگا جب ہر شہری عالمی ادارہ صحت کے بتائے ہوئے اصولوں کو اپنائے گا۔ کسی بھی وباء کے پھیلاوُ کو روکنے کے لئے کچھ اصول ہیں ان اصولوں کے پیچھے پوری ایک سائنس ہوتی ہے۔ معاشرتی فاصلوں کے ساتھ گھر میں اپنے پیاروں کے ساتھ چند دنوں کے لئے مقید ہو جانا، اُس مقصد کے حصول کے لئے جس میں ساری قوم کی بقا ہو، میرے مطابق اصل ایماں ہے۔گلگت سے آنے والی خبریں بتا رہی ہیں کہ ان لوگوں نے باشعور ہونے کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔ یہ قوم جذباتی ضرور ہے لیکن بےوقوف نہیں۔ اللہ اس علاقے کو ہر شر سے محفوظ رکھے(آمین ) ان تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ کچھ دکھاوے کے مضبوط ایمان لوگ، اور کچھ خود ساختہ فیس بُک متاثر ڈاکٹر ان احتیاطی تدابیر کو برباد کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کی بیوقوفیوں کا نقصان سب سے زیادہ پہلی صف میں ہماری حفاظت کرنے والے معزز معلج صاحبان کو ہو رہا ہے۔ اور یہ وہی گھڑی ہوتی ہے جب انسان اپنی ان تھک کوششوں سے حاصل کی ہوئی تعلیم کا درد محسوس کرتا ہے۔ اس درد کا اگر عوام نے بروقت کرونا سے لڑنے والے احتیاطی اصولوں سے نہیں کیا تو ہمارا دنیا کی بہترین قوموں کی فہرست میں کہیں بھی نام نہیں ہوگا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button