کالمز

مافیا کون ؟

عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی قسم کی "پیشن گوئی” کرے یا حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے مستقبل کے ممکنہ واقعات کی طرف اشارہ کرے اور بعد میں وہ باتیں سچ ثابت ہوں تو اسے خوشی ہوتی ہے کہ تجزیہ درست تھا. مگر مجھے آج یہ بات لکھتے ہوئے بالکل خوشی نہیں ہو رہی ہے کہ جب چند ہفتے پہلے مارچ میں جب پاکستان میں کرونا کے حوالے سے ابتدائی رپورٹس آنی شروع ہوئیں تھی کہ مختلف کیسز سامنے آرہے ہیں تو میں نے اپنی ایک ویڈیو میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ اگر فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ہسپتال میدان جنگ بن جائیں گے اور بپھری ہوئی عوام کسی کے قابو نہیں آئے گی. گزشتہ ایک ہفتے کے اندر گلگت بلتستان کے تین مختلف ہسپتالوں میں یہ لواحقین کی توڑ پھوڑ اور دوسرے واقعات رونما ہوئے ہیں. یہ بہت ہی عامیانہ بحث ہوگی کہ آپ "جاہل عوام ” یا "سنگدل ڈاکٹرز” کہہ کر بات کو ہی گول مول کر دیں اور اصل ذمہ داروں کے چہروں سے نقاب نہ کھینچا جائے.

سب سے پہلے تو یہ دیکھنا اہم ہے کہ ہسپتال کی املاک پر غصہ نکالنے والے لوگوں کا مدعا کیا ہوتا ہے ؟ ان کی expectations کیا ہوتی ہیں جن کے پورا نہ ہونے پر وہ بپھر جاتے ہیں ؟ چلیں کرونا کے مسلے کو سائیڈ پہ رکھ دیں آپ اس کے علاوہ کسی روٹین ایمرجنسی کی بات کر لیں. ہر قاری یہ تصور کر لے کہ وہ ایک اٹینڈنٹ ہے اور اس کے کسی قریبی عزیز کو خدا نخواستہ کسی نے گولی مار دی ہے یا کسی حادثے کا شکار ہوا ہے . رات 12 بجے کا وقت ہے اور ہر لمحہ بہتے ہوئے خون کیساتھ وہ عزیز موت کے قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے. اگر یہ واقعہ بڑے ڈوژنل ہسپتال کے گرد و نواح میں ہوا ہے تو کم از کم ایک گھنٹہ لگ چکا ہے اسے ہسپتال منتقل کرتے ہوئے . ہسپتال پہنچنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ڈیوٹی پر صرف ایک میڈیکل آفیسر موجود ہے جو اپنی ابتدائی assessment میں پندرہ سے بیس منٹ لگا کر ڈرپ , خون کے ٹیسٹ لکھ کر آپ کو بتاتا ہے کہ ان کا فوری آپریشن کرنا ہوگا. پھر وہ رات ساڑھے بارہ بجے سرجن اور بے ہوشی کے ڈاکٹر کو فون کر کے مطلع کرتا ہے جو کہ خود ہسپتال سے کئی میل دور رہتے ہیں. گاڑی بھجوائی جاتی ہے , قریب ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں متعلقہ افراد ہسپتال میں جمع ہوتے ہیں , اور یوں "تیز ترین” رسپانس پر بھی حادثے کے 3 سے چار گھنٹے بعد سرجری شروع ہوتی ہے.

اس بیچ اگر گاڑی خراب ہوجائے جو کہ معمول ہے , یا متعلقہ لوگوں کو جمع کرنے میں وقت لگ جائے , رابطہ نہ ہو پائے , تو زخمی شخص پڑے پڑے دم توڑ دیتا ہے. کچھ ماہ پہلے لوکل گورنمنٹ کے آفیسر حسنین کی موت اس بات کا ثبوت ہیں , جو کہ ہسپتال سے پندرہ منٹ کی دوری پر گولی کا شکار ہوئے تھے اور سرجن کو لانے والی گاڑی راستے میں خراب ہوگئی. اب ایسی صورتحال کا کون ذمہ دار ہے ؟ ڈیوٹی پہ بیٹھا میڈیکل آفیسر , ہسپتال کا عملہ , سرجن, ہسپتال انتظامیہ , اقتدار اور ان گنت اختیارات کو اپنی ذات پر مرتکز کر کے کرسی کے جھولے لیتی بیورکریسی یا سیاسی حکومت ؟ عوام کا نزلہ کس پر گرنا چاہئیے , وہ جو بالکل بے اختیار ہے , جو اپنی رکی ہوئی تنخواہ تک دوبارہ جاری کروانے کیلئے مہینوں سیکٹریٹ کے چکر کاٹتا ہے یا وہ جن کے ایک دستخط سے کڑوڑوں کے فنڈز , سیکیمیں , پالیسیز کا اجرا ہوتا ہے ؟

ان ایمرجنسی کیسز کو بروقت نمٹنے کیلئے کیا اقدامات ہونے چاہئیں؟ سب سے پہلے تو اپنی توقعات کا افرادی قوت یا ہیومن ریسورس سے موازنہ کر کے دیکھیں. آپ کے PHQ میں ٹوٹل سرجنز یا میڈیکل سپیشلسٹ یا کسی بھی سپیشلسٹ کی تعداد کتنی ہے ؟ 24 گھنٹے ہسپتال میں ان کی ہمہ وقت کنسلٹنٹ cover کیلئے آپ کو کنسلٹنٹس کے علاوہ جونئیر ڈاکٹروں کی کتنی ٹیم درکار ہے ؟ وارڈز میں داخل لوگوں کی نگرانی کیلئے کتنے ڈاکٹرز درکار ہیں ؟ ان سب کی موجودگی کیلئے شعبہ صحت میں پوسٹیں کتنی ہیں ؟ وغیرہ

اس حوالے سے ہیلتھ مینیجرز , جیسے MS اور DHOs کا بھی انتہائی سنگین کردار ہے جب وہ حکام بالا کو یہ رپورٹ دیتے ہیں کہ ہمارے پاس ڈاکٹروں کی تعداد کافی ہے , "سب اچھا ہے ". ان سے جا کے پوچھیں کہ کتنی بار انہوں نے مطالبہ کیا کہ "آن کال” کے فرسودہ نظام سے لوگوں کی جانیں خطرے کا شکار ہوتی ہیں. دو پہر دو بجے کے بعد دو جونیئر ڈاکٹروں کے سر پر ایمرجنسی , ان ڈور اور چوبیس گھنٹے چلنے والی او پی ڈی سراسر زیادتی ہے critical patients کے ساتھ اس لئیے مزید افرادی قوت فراہم کی جائے. کتنی بار ایسے مطالبات ذمہ داران تک پہنچائے گئے ؟ آپ کو ان سوالوں کے جواب میں طویل خاموشی سنائی دے گی.

پھر آجاتے ہیں ” بارہ مسالوں سے تیار کیئے جانے والے برہمن بابو” . ان بابو لوگوں کا شوق ہوتا ہے کہ ہر کسی کے خلاف تادیبی کاروائی کریں , اور صحت کے حوالے سے جب مسائل ابھرتے ہیں , تو یہ سارے خوفناک زمینی حقائق جانتے ہوئے کوئی شکار ڈھونڈتے ہیں , جس پر یہ سارا ملبہ ڈال سکیں. 70 سالوں سے کینسر کا پھوڑا بننے والے نظام صحت کا ذمہ دار کسی فرد کو یا عملے کو قرار دیکر خود علاقے کے "سنگھم بھیا” بن جائیں. ایسے ہی ایک "سنگھم” نے ایک سال پہلے کریم آباد ہسپتال کو سیل کرکے انسانی تاریخ کا پہلا کارنامہ سر انجام دیا تھا کہ ہسپتال کو چلانے کے بجائے اسے سیل کر دو. یہ ان کی ٹوٹل معامہ فہمی ہے. اب خبر آئی ہے کہ دیامر میں ایک اور "سنگھم بھیا” اترے ہیں جو عید کے بعد مافیا سے ٹکرائیں گے. تو ان کی مدد کیلئے مافیا کے چند ٹھکانوں کی نشاندہی لازمی ہے. سب سے پہلے تو خود کو شامل تفتیش کریں کہ چلاس ہسپتال میں 24 گھنٹے ایمرجنسی سروسز دینے کیلئے جو افرادی قوت اور specialities درکار ہیں , اس کیلئے آپ نے کتنے خط سیکٹری ہیلتھ کو لکھے ؟ پھر سوال پوچھیں ہیلتھ انتظامیہ سے کہ سالوں سے چلنے والے ان مسائل کے حل کیلئے کیا کچھ کیا گیا ؟ کیا رکاوٹیں ہیں ؟ ان رکاوٹوں کو ہٹانے کیلئے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے.

آپ ایک ریجن میں دو سپیشلسٹ رکھ کر ان سے یہ توقع کریں کہ وہ ہر روز 12 12 گھنٹے کی ڈیوٹی کریں , ہسپتال سے نکلیں ہی نہیں , تو اتوار والے دن کیلئے کیا متبادل ہے ؟ اتوار کے دن ہونے والے حادثے کو کون دیکھے گا ؟ تو یہ بچگانہ حرکتیں نہ کریں. ڈاکٹروں کے ڈی سپلن میں ہزار مسائل ہیں , اور اس کا حل یہ ہے کہ 8 گھنٹہ ایک دن کی ڈیوٹی لگائی جائے , شام اور رات کی ڈیوٹی اسی کے درجے کے سپیشلسٹ کی ڈیوٹی ہو , پھر آپ مجاز ہیں اس آٹھ گھنٹے کا حساب کتاب لینے پر ورنہ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ آپ انسانی capacity سے زیادہ کی ڈیوٹیاں لینے کی توقع کریں اور ناکامی پر چراغ پا ہوں.

اور ڈاکٹروں کی تنظیموں پر بھی یہ لازم ہے کہ اپنی ذات سے باہر نکل کر سسٹم کو بہتر کرنے والے ٹھوس مطالبات لیکر چلیں. سب سے پہلے تو اس آن کال سسٹم کو ختم کرنے کا مطالبہ کریں , اور یہ تحریک چلائیں کہ 2 لوگوں سے دس لوگوں کے برابر ڈیوٹیاں کرانے کا اور ذمہ داریاں سر پر ڈالنے کا سلسلہ ختم کریں. عوام کی شکایات اور دادرسی کیلئے Health Care Comission قائم کیا جائے , اور دانستہ طور پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے والے ڈاکٹروں کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہو. اور یاد رہے health care comssion کا قیام بھی اسی صورت قابل قبول اور منطقی ہوگا جب افرادی قوت , وسائل اور ڈیوٹی آورز کا تعین مروجہ عالمی قوانین کے تحت یقینی بنایا جاتا ہے .

آگے وقت بہت مشکل آرہا ہے , اگر اپنا قبلہ درست نہیں کیا تو ہر گزرتے دن کے ساتھ عوامی غصے کا شکار آپ ہی ہونگے.

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button