کالمز

ای سی ڈی: ابتدائی بچپن کی تعلیم (قسط اول)

 تحریر: دیدار علی شاہ

کامران گاوں میں نہایت ہی قابل اور ہونہار بچہ تھا۔ہمیشہ کلاس میں اول درجہ حاصل کرتا تھا۔اس کا بھائی اور بہن بھی پڑھائی میں اچھے تھے اسی لئے ان کے والدین، خاندان اور گاوں کے لوگ اُن سے بہت خوش تھے۔جب کامران نے کلاس ہشتم پاس کیا تو والدین نے بچوں کی تعلیم اور بہتر مستقبل کے لئے گلگت شہر منتقل ہوئے۔ یہاں پر شروع کے کچھ مہینوں میں کامران کی پڑھائی اچھی ہو رہی تھیں پھر آہستہ آہستہ گلگت شہر کے ماحول نے اسے اپنے لپیٹ میں لے لیا،حالانکہ اسکول داخلہ سے پہلے کامران کے والد نے اُنہیں شہر میں رہنے کے حوالے سے کچھ نصیحت اور اصول بتائے تھے۔ اُس نصیحت میں یہ بھی شامل تھا کہ اُسے رات کو فلاں وقت تک گھر آجانا چاہیے۔

مگر آج پھر کامران ابھی تک گھر واپس نہیں آیا تھا۔اُس نے تیسری با ریہ حرکت کی تھی۔گلی سے گزرنے والی ہر گاڈی کی آواز سُن کر والدین کو یوں لگتا تھا کہ وہ آگیا ہے،آخر وہ کہا رہ گیا ہے؟، کہیں وہ کسی مصیبت میں تو نہیں پھنس گیاہے؟ کیا اُس کو اس بات کی پرواہ ہے کہ ہم والدین اس کی وجہ سے کتنی پریشان ہے۔آخر کار جب وہ گھر آیا تو والدین کا ردعمل بہت شدید تھا۔

اگر آپ کے بچے ہیں تو کیا آپ نے بھی کھبی ایسا محسوس کیا ہے جیسا ان والدین نے کیا؟ اگر آپ اُن جیسے صورتحال میں ہوتے تو کیا آپ اپنے بچوں کی اصلاح اور تربیت کرتے؟ اور اگر کرتے تو کیسے؟ بچوں کی تعلیم و تربیت کتنا اہم ہے؟

اپنے ملکی منظرنامے پر اگر نگاہ دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ملکی تاریخ میں تعلیم کے حوالے سے حکمرانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ شعبہ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔اگر اس کا موازنہ دوسرے ملکوں کے تعلیمی نظام سے کیا جائے تو عقل دنگ رہ جاتا ہے۔ابتدائی تعلیمی درسگاہوں سے لے کر یونیورسٹی تک کے طالبعلموں کو جو میعاری سہولت اور نصاب آج کے دور کے مطابق میسر ہونی چاہئیں وہ نہیں ہے۔ جبکہ دنیا کے دوسرے ترقی پذیر ممالک میں دورجدید کے مطابق نصاب موجود ہے۔ پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 25اے” تعلیم کے حق کے مطابق“ ”اب یہ ریاست کی زمہ داری ہے کہ وہ 5سے 16سال تک کے بچوں کومفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے“ یہ فقرہ آئین میں تو درج ہے لیکن حقیقت میں ایسا نظر نہیں آرہا۔

پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں کی تقریباً 44فیصد تعداد ایسی ہے جن کی ابتدائی عمر میں بہتر نشونما نہیں ہوپاتی۔اور ان کی دماغی اور ذہنی صلاحیت و صحت دنیا کے باقی ممالک کے بچوں کے مقابلے میں کافی پیچھے ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان اور وزیر تعلیم شفقت محمود نے اپنے تقاریر میں کئی بار اس کا ذکر کر چکے ہیں۔وزیر تعلیم نے اس بات کو نہ صرف محسوس کیا ہے کی بچوں کی ابتدائی نشونما و تربیت تو بچے کے پیدا ہونے سے پہلے ہی ماں کے بطن میں ہی شروع ہوجاتی ہے۔ جس میں خصوصاً ماں کی ذہنی و جسمانی حالت خاص طور پر زیر بحث آتی ہے۔

اقوام متحدہ کے رپورٹوں کے مطابق دنیا میں برطانیہ بچوں کے لیے سب سے محفوظ اور بھارت اور پاکستان بچوں کے لیے سب سے کم محفوظ ملکوں میں سرفہرست ہیں۔یہ سب ہمارے ملک کی عکاس پیش کرتا ہے کہ اس سے پہلے لوگوں کی تعلیم و تربیت کیسے ہوئی ہیں اور آج کے دور میں کیسے ہورہے ہیں۔یعنی اس دور میں آپ اپنے بچوں کے ساتھ کیسے سلوک کررہے ہو جنھوں نے آنے والے دور میں اپنے معاشرے اور اس ملک کو آگے لے کے جانا ہے۔

بچوں کی تعلیم و تربیت اور بہتر مستقبل کے لیے بہت سے عوامل کا عمل دخل ہے۔ جس میں سب سے پہلے والدین کا کردار اور گھر کا ماحول، دوسری چیز اساتذہ اور سکول کا ماحول، تیسری چیز نصاب یعنی بچے پڑھ کیا رہے ہیں، چوتھی چیز اسکول کمیٹی اور حکومت کا کردار۔ اور بھی ایسے بہت سارے عوامل ہے جن کی عمل دخل سے بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کو یقینی بنا کر ایک اچھے انسان کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ان تمام مراحل میں استاد کا کردار بہت ہی اہم ہے۔ کیونکہ ایک استادبچے کی نفسیات اور مزاج کو سمجھ کر اس کی منزل کا تعین کر رہا ہوتا ہے۔اسی لیے ضروری ہے کہ حکومت اور دوسرے نجی تعلیمی ادارے اساتذہ کے انتخاب میں احتیاط سے کا م لے۔اور ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ اساتذہ کرام کو جدید رطریقہ ہائے تدریس سے روشناس کرانے کے لیے خصوصی تربیت دی جائے۔

اساتذہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کا ایک مشہور واقعہ ہے، ہٹلر کو بتایا گیا کہ ہماری قیمتی ترین لوگ جنگ میں ضائع ہو رہے ہیں تو اس وقت ہٹلر نے یہ تاریخی جملہ کہا ”اگر ہوسکے تو میری قوم کے اساتذہ کو کہیں چھپالواگر اساتذہ سلامت رہیں گے تو قیمتی لوگ پھر سے تیار ہوجائیں گے “

ابتدائی بچپن ایک بچے کی جسمانی، فکری، جذباتی، ذہنی اور سماجی ترقی کے لحاظ سے زندگی کا ایک انتہائی اہم مرحلہ ہیں۔ ایک بچے کی قد اور جسامت میں اضافہ بالیدگی کہلاتا ہے، جسم کی بڑوھوتری کے ساتھ اس کا دماغ اور جسم کی اندرونی کیفیات میں بھی تبدیلی رونماہ ہوتی ہے یہ نشونماکہلاتی ہیں۔اسی دوران ماں باپ کی تربیت اور دونوں کا ایک جگہ پر ہونا بچے کی زندگی میں استحکام لاسکتا ہے جس کی وجہ سے صحت مندانہ نشونما ممکن ہوتی ہے۔

ابتدائی بچپن کی تعلیم (Early Childhood Development ECD)ایک ایسا تصور ہے جس میں بچوں کی پرورش کے مختلف پہلوں پر تکنیکی لحاظ سے کام کیا جاتا ہے۔ جس میں بچوں کی تعلیم، صحت، نشونما، توجہ، یعنی انھیں ذہنی، جسمانی،جذباتی، معاشرتی، لحاظ سے تیار کیا جاتا ہے، اور اس کی شروعات بچے کی پیدائش سے پہلے ہی ہوجاتی ہے یعنی ماں کے پیٹ سے، اور ماں کی صحت، دیکھ بھال اس ابتدائی بچپن کی تعلیم کا لازمی جزو ہے۔

اس ای سی ڈی پروگرام کا مقصد پیدائش سے لے کر آٹھ سال کے بچوں کے تعلیم میں تعمیری عمل کے لئے نئے طریقہ کار کو اپناتے ہے،وہ طریقہ کا ر جو آج کے زمانے کے ساتھ سائنسی بنیادوں پر ہو، یعنی وقت اور حالات کے مطابق ایک ایسے نسل کو تیار کرنا جو آنے والے وقت کے مطابق علم اور ذہانت رکھتا ہو۔

بچے اپنے خاندان، معاشرے اور ثقافتی اقدار سے جڑے ہوتے ہیں۔ انہیں طبعی، اخلاقی، جذباتی اور معاشرتی صلاحیتوں کی نشونما میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے جو آئندہ زندگی میں ان کی کامیابی اور بقا میں مددگار ثابت ہوں۔ (جاری ہے۔۔)

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button