ابابیل کے ساتھ سفر: وادی پرسان، خوابوں جیسی حقیقت
شمس الرحمن تاجک
زمین سیم و تھو ر کا شکار، لوگ مجسم تبسم۔ سطح سمندر سے 10 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع پہاڑی علاقہ، خیالات کی بلندی علاقے کی بلندی سے کہیں زیادہ۔ مشکل ترین علاقہ، آسان ترین مسکان بھرے لوگ۔وسائل سے مکمل محروم بستی، مہمان نواز اتنے کے منہ کا نوالہ بھی مہمان کو کھلانے کی بیتابی۔علاقے کو چترال اور ملک سے ملانے کے لئے پل بھی موجود ہیں مگر پل صراط جیسے۔وادی تک پہنچنے کے لئے سڑک کچھ زیادہ ہی سیدھی بنائی گئی ہے اتنی زیادہ سیدھی کہ بہتولی پل سے آگے آپ گاڑی واپس موڑ نہیں سکتے۔ کوئی بھی ایمرجنسی ہو اس روڈ پر آنے کے بعد آپ کو گاری موڑنے کے لئے پرسان تک سفر کرنا ہی ہوگا۔وادی تک پہنچنے سے پہلے جتنے تکلیف دہ اور خوف کے ماحول میں سفر کرنا پڑتا ہے علاقے کی خوبصورتی اور جذبیت وہ تمام خوف اورتکلیف بھلانے میں سیکنڈوں کا ٹائم بھی نہیں لیتا۔شاید یہ سحر علاقے کے مکینوں کے لئے علاقہ چھوڑنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ورنہ اتنے دشوار گزار اور مصائب زدہ علاقے میں کون ذی ہوش آدمی رہائش اختیار کرنے کو تیار ہو۔
راستے اور سڑکیں اتنی دشوار گزار اور اونچائی پر واقع ہیں کہ ابابیل بھی پیدل اور سڑک کے نام پر بنے عجوبے اور نمونے سے سینکڑوں فٹ نیچے اڑ رہے ہوتے ہیں۔ مطلب! پرسان کے جفاکشوں کے سفر کو دیکھنے کے لئے اڑتے ابابیل کو بھی اوپر دیکھنا پڑتا ہے۔خستہ حال اور مشکل ترین سڑکیں خون خشک کرنے کے لئے کافی ہیں مگر یہ لوگ روز ان راستوں سے سفر کرتے ہیں۔ ان کے بچے انہی ابابیلوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے چترال شہر اور پاکستان کے دوسرے علاقوں تک پہنچتے ہیں۔ اپنا کیریئر بناتے ہیں۔ یا پھر محنت مزدوری کرتے ہیں اپنا اور گھروالوں کی زندگی کو رواں رکھنے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ سب مشترکہ طور پر علاقے کی تقدیر بدلنے میں ہر ممکن کردار ادا کرنے کو بے چین ہیں مگر راہ اور رہبر کی عدم موجودگی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ علاقے میں موجود سہولیات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ حکومت کو یا تو اس علاقے کا پتہ ہی نہیں یا پھر ان لوگوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دلچسپی دور کی بات انتظامیہ ان کو پہلے کم از کم انسان تسلیم تو کرے۔جب تسلیم کا حق ادا ہوگا تو سڑکیں بھی بنیں گی اور پل صراط سے بھی ان کو روزانہ گزارنے کا عمل بھی رک جائے گا۔
حکومتی دلچسپی اس علاقے کے عوام کے ساتھ بس اتنی سی ہے کہ یہ علاقہ پاکستان کے نقشے پر موجود ہے۔ وہ بھی ایک نقطے کی طرح۔ اس کے علاوہ اس علاقے یا اس کے باسیوں کی بہتری یا بنیادی سہولیات کی فراہمی میں حکومت سرے سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔گلہ حکومت وقت سے اس لئے بھی نہیں کی جاسکتی کہ ملک کے ترقی یافتہ شہروں کا حال بھی پرسان سے کچھ زیادہ اچھا نہیں۔اتنی دشواریوں کے باوجود یہاں بنیادی صحت عامہ کے کسی مرکز کی عدم موجودگی، پندرہ سو کی آبادی کے لئے حکومت کی طرف سے صرف تین سکول اور لڑکیوں کے لئے کسی ہائی لیول کے تعلیمی ادارے کی عدم موجودگی اس بات پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لئے کافی ہے۔ سڑکیں اے کے آر ایس پی نے بنائی ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اے کے پی بی ایس پی کے ذمے آئی۔ اے کے ای ایس پی نے اپنی بساط کے مطابق تعلیمی ادارے بنائے تو آغا خان ہیلتھ سروس نے بنیادی صحت کی فراہمی کے لئے مقدور بھر کوشش ضرور کی ہے۔ ورنہ ایک ڈسپرین کے لئے گھنٹوں کے پل صراط پر سفر کرتے ہوئے چترال شہر آنا پڑتا۔ ایک بزرگ کی بات میں کافی وزن تھا کہ اے کے ڈی این کم از کم ہم تک پہنچ تو چکا ہے۔ حکومت کہا ں ہے۔ کیا ہم اس ملک کے باشندے نہیں ہیں ہم کسی این جی او کی ذمہ داری کیسے ہوسکتے ہیں؟۔
گزشتہ کئی سالوں سے پوری وادی شدید قسم کی لینڈ سلائڈنگ کا شکار ہے۔ جہاں آپ گھر بناچکے ہوتے ہیں اگلے سال دو سے دس فٹ اپنے مقررہ مقام سے سرکنا عام سی بات ہے۔ اب تو سلائڈنگ وادی کے لوگو ں کے لئے عام سی بات ہوگئی ہے۔ کیونکہ ان کا گھر رات کو سوتے ہوئے جہاں ہوتا ہے صبح اٹھنے سے پہلے اگر فٹ نہیں تو انچ کے حساب سے سرک چکا ہوتا ہے۔ سلائڈنگ کا شکار ہونے سے پہلے علاقے کے لوگ زرعت سے منسلک تھے مگر مسلسل سلائڈنگ کی وجہ سے اب کاشت کاری بھی اس علاقے میں مشکل ہوتی جارہی ہے۔لوگ متبادل کے طور پر اب تعلیم کو اہمیت دینے لگے ہیں مگر علاقے میں حکومتی سرپرستی میں تعلیمی اداروں کی عدم موجودگی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ تین ہزار کی آبادی کے لئے حکومت کی جانب سے صرف ایک مڈل اور ایک پرائمری سکول کام کررہے ہیں۔ علاقہ کئی وادیوں اور دشوار گزار راستوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ہر بچے کے لئے سکول تک پہنچنا جوئے شیر لانے کی مترادف ہے۔