کالمز

لاک ڈاؤن اور انتظامیہ کی من مانیاں……….!!!!

تحریر : راجہ حسین راجوا
ہم وہ تحریر کرتے ہیں جو ہم محسوس کرتے ہیں، ہم تحریر عوامی فلاح کو مد نظر رکھ کے کرتے ہیں، میں ایک کالم نگر انتظامیہ کی کارکردگی پہ لکھ چکا ہوں کیونکہ نگر انتظامیہ کا کرونا کے دوران جو پرفارمنس رہا وہ لائق تحسین ہے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے ہم پرفارمنس کو مدنظر رکھ کر کسی کی تعریف کرتے ہیں تو ہمیں طرح طرح کے طعنے ملتے ہیں مثلاً  لفافی اور مفاد پرست جیسے القابات سے نوازتے ہیں. ہمارے معاشرے کا یہ المیہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے میں یہاں ایک چیز کو واضع کرونگا ہم نہ کسی کے نوکر ہیں اور نہ ہی کسی سے کچھ لکھنے کیلے ڈکٹیشن لیتے ہیں ہم اپنی قلم کو سب سے بڑا ہتھیار سمجھتے ہیں. ہم اپنی قلم کے ذریعے اس معاشرے کا اصلاح کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں. اس میں کوئی شک نہیں کہ کرونا کے دوران نگر انتظامیہ کا رول قابل تحسین رہا میرا آج کا کالم گلگت بلتستان انتظامیہ کی من مانیوں کے خلاف ہے۔
گورنمنٹ آفسر کو پبلک سرونٹ بھی کہا جاتا ہے اور اردو  زبان میں عوام کا خادم ہوتا ہے۔ وہ پبلک آفس ہولڑرز ہوتے ہیں انھیں  عوام کی فلاح کو مد نظر رکھتے ہوئے کام کرنا ہوتا ہے، انکی اس نوکری کے عوض حکومت انکو تنخواہ اور مراعات دیتی ہے تاکہ عوام کی خدمت کو بطور احسن انجام دے سکے۔اسوقت گلگت بلتستان انتظامیہ کی من مانیاں عروج پہ ہیں۔ پچھلے ہفتے میںِ گلگت سٹی میں تھا سٹی مجسٹریٹ جو 16 گریڈ کا ملازم ہوتا ہے انکی شہروں کیساتھ جو رویہ تھا وہ قابل مذمت تھا ایک بزرگ دکاندار کیساتھ بد تمیزی کر رہا تھا میں نے اسے ٹوکنے کی کوشش کی تو مجھے انگلش میں کہتا ہے ” Who you are“ میں نے جواب میں کہا ”  I am a loyal citizen of Pakistan“ جواب میں کہتا ہے آپ جیسے دو ٹکے کے سیٹیزن ہم نے بہت دیکھے ہیں یہ الفاظ تھے ایک گورنمنٹ ملازم کے جسکی تنخواہ عوام کی ٹیکسز سے بنتی ہے۔
دوسرا واقعہ نگر سے گلگت جاتے ہوئے دنیور سے پہلے سلطان آباد نالے کے پاک ایک چوکی ہے گاڑیاں رکی ہوئی تھیں گاڑیوں کی لمبی قطار تھی کہتے تھے آپلوگوں کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں خیر میں بائیک پہ تھا مجھے روکتے بھی نہیں تھے کیونکہ بائیک والوں کو چھوڑتے تھے میں تماشہ دیکھنے کیلے سڑک کنارے کھڑا ہوا ایک  معزز بزرگ منتے کر رہا تھا کہ میری گاڑی میں مریض ہے وہ کافی سیریس ہیں انھیں ہاسپیٹل پہنچانا ضروری ہے مجھے جانے دیا جائے پولیس کانسٹیبل  جواب میں کہتا ہے کوئی مرے گا تو بھی ہم کسی کو یہاں سے جانے نہیں دینگے۔تیسرا واقعہ سب نے فیس بک پہ دیکھا سٹی مجسٹریٹ گلگت ایک فروٹ پیچنے والے غریب آدمی کے تھیلے پہ لاد مار دیتے ہیں اور اس کے الٹنے سے تربوز زمین بوس ہوجاتے ہیں، ایک وڈیو سوشل میڈیا میں وائرل ہوئی تھی ہم سب نے دیکھا اے سی گلگت کس طرح ایک ضعیف شہری کو دھکے دیتے ہیں.
چوتھا واقعہ چھلت چوکی میں ایک کانسٹیبل ہوتے ہیں ایک دن میں ویگن میں تھا وہ تمام گاڑیوں کی پرمٹ چیک کرکے چھوڑتے تھے۔ میرا اعتراض اس کے پرمٹ چیک کرنے پہ نہیں ہے میری اعتراض انکے لب و لہجے سے ہے ہر چیز کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے جو بھی اسکے سامنے جاتا تھا اسکے الفاظ تھے دفع ہوجاؤ، قریب مت آؤ، اپنی شکل گھوم کرو، حتٰی کہ بیغیرت کے القابات سے بھی نوازتے تھے۔ اس سلسلے میں بات کرنے کیلے میں نے سب سے پہلے ہمارے سٹی مجسٹریٹ کو کال ملایا انکا نمبر آف جا رہا تھا۔ اسکے بعد میں نے اے سی نگر  کو دس سے زائد کالیں کی بیل جاتی تھی لیکن اس نے کال پک کرنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ پھر میں نے ڈی سی نگر کو کال ملایا اس نے بھی میرا کال نہیں اٹھایا میں انکو کال اسلیے ملا رہا تھا کیونکہ وہاں کافی گاڑیاں رکی تھی لوگوں کا ہجوم تھا پولیس کیساتھ لڑائی کا خطرہ تھا لیکن شکر ہے ایس ایچ او نے سب کو وہاں سے جانے دیا ورنہ کچھ لوگوں نے قراقرم ہائی کو بلاک کیا تھا اسوقت تک ہماری انتظامیہ سوئی ہوئی تھی کوئی بھی ٹس سے مس نہیں تھا۔ اسکے بعد میں نے ڈی سی اور اے سی نگر سے پرسنل ریکویسٹ کیا کہ اس چوکی پہ لڑائی کا خطرہ ہے اس بدتمیز پولیس کو اس چوکی سے ہٹائیں اگر یہ یہی پہ رہیگا تو کسی نہ کسی دن لڑائی کا خطرہ ہے لیکن وہ تو شاہی لوگ ہیں ہماری میسیج کی کیا اہمیت ہے ہم تو غریب لوگ ہیں انھوں نے انکے خلاف اقدام کرنا تو درکنار میری میسیج کا رپلائی بھی نہیں کیا، پبلک ڈیلنگ ہر کسی کی بس کی بات نہیں اب بھی وہ بدتمیز کنسٹیبل اسی چوکی پہ موجود ہیں اور وہی لب و لہجہ استعمال کر رہے ہیں میں اب بھی  ڈی سی اور اے سی نگر سے گزارش کرونگا اسے اس چوکی سے ہٹائیں تاکہ مہذب شہرویوں کو ذلیل کرنے کا یہ سلسلہ رک سکے۔ ہم آپ لوگوں کے اچھے برے تمام اقدامات پر نظر رکھتے ہیں آپ جہاں اچھا کرو گے آپکے ساتھ کھڑے ہونگے جہاں آپ من مانیاں کرو گے وہاں ہم اپنی قلم کے ذریعے اس کی نشاندہی کرینگے میں نے صحافت کے پیشے کو شہرت اور پیسے کمانے کیلے نہیں اپنایا ہے بلکہ اس معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی آواز بن انکی داد رسی کرنے کیلے اپنایا ہے، میں حق کیلے آواز بلند کرنا اپنا فریضہ سمجھتا ہوں اور عوام الناس کی فلاح و بہبود کیلے آواز بلند کرتا رہونگا چاہیے اسکے عوض مجھے جتنی بھی قیمت چکانی پڑے اسکے لیے تیار ہوں. اسوقت پولیس کانسٹیبل سے لے کر 22 گریڈ کے ملازم تک سب ہی عوام کی خدمت کرنے کے بجائے انھیں گالم گلوچ کرنے میں مصروف ہیں اس خطے میں پڑھے لکھے اور مہذب شہری رہتے ہیں انکے ساتھ انسانوں والا سلوک رواں رکھا جائے ان کا یہ رویہ کسی صورت ہمیں قابل قبول نہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button