کالمز

ڈاکٹر عبدالقیوم دیداری کا سانحہ ارتحال

تحریر: امیرجان حقانی

وہ بڑے انسان تھے۔گلگت بلتستان کے مشاہیر اہل علم پر لکھنے کے لیے مجھے سینکڑوں لوگوں سے اہل علم کے متعلق انٹرویو زکرنے کا موقع ملا، خود جید اہل علم سے طویل طویل انٹرویوز کیے مگر میرا دل کمال سچائی کے ساتھ گواہی دیتا ہے کہ  ڈاکٹر عبدالقیوم اہل علم کی دنیا کے بہت بڑے انسان تھے۔گلگت بلتستان کے جن اہل علم نے تحقیق اور علم کی جتنی آبیاری کی، سب میرے سامنے ہیں۔ ان سب کو ملایا جائے تو بھی  ان کی جملہ تحقیقات اور علمی کاوشیں ڈاکٹر عبدالقیوم کی سعی مسلسل اور عالمانہ و محققانہ کاوشوں تک بلکہ اس کے عشرعشیر تک نہیں پہنچ سکتی، البتہ بابا چلاسی کی بات سوِا ہے۔
ڈاکٹر عبدالقیوم صرف اور صرف کتاب و قلم کے آدمی تھے۔وہ بہت کم سخن تھے۔ اگر یہ کہوں کہ خطابت کی مروجہ ملمع سازیوں سے مکمل ناآشنا تو غلط نہ ہوگا،کم سخنی کیساتھ ساتھ وسیع النظری ان کی خاص پہچان تھی۔وہ سمندر کی طرح تھے  جس میں مکمل سکوت ہوتا ہے  لیکن اسکا دامن اور اندرونی سطح بیش بہاذخائر اور موتیوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔اگر ایک جملہ میں ڈاکٹر عبدالقیوم کی شخصیت بیان کرنا چاہوں تو  وہ  سادہ لوحی میں  اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے،علوم حدیث اورتحقیق کی دنیا کے شناور اور زہد و تقویٰ میں کامل ہونے کے ساتھ جدید و قدیم عربی کے مایہ ناز محقق لکھاری تھے۔ وہ عوامی انسان نہیں تھے بلکہ اپنی ذات میں مکمل علمی اور تحقیقی دنیا سے وابستہ انسان تھے۔
جولائی 2016ء کی بات ہے۔ ڈاکٹر صاحب گلگت تشریف لائے تھے۔جامعہ نصرۃ الاسلام کی جامع مسجد کا افتتاح کیا۔چونکہ مجھے اپنی کتاب کے لیے ڈاکٹر صاحب سے انٹرویو کرنا تھا۔ حضرت کی خدمت میں گزارش کی تو کہنے لگے کوئی ترتیب بناتے ہیں۔ اگلے شام قاضی نثاراحمد نے انہیں رات کے کھانے پر اپنے ہاں مدعو کیا تھا۔اس سے بہتر موقع کوئی نہیں تھا ، میں بھی قاضی صاحب کو اطلاع کرکے وہی پہنچ گیا اور اپنا کھاتہ کھول بیٹھا۔ڈاکٹر صاحب نے جس سادگی کیساتھ انٹرویو دیا، وہ انہی کا خاصہ تھا، کہیں پر بھی بڑائی یا پھر بناوٹ کا شبہ بھی نہیں ہوا۔ورنا تو آج کل لوگ سلام کے جواب میں بھی خشوع و خضوع کے ساتھ تصنع فرمارہے ہوتے ہیں۔
دکتور عبدالقیوم کے ساتھ  مرحوم لکھتے ہوئے ہاتھ کی انگلیاں تھر تھر کانپنے لگی ، اس لیے پہلا پیراگراف بغیر مرحوم کے لکھ دیا۔ وہ  28 دسمبر 1946ء کو ضلع غذر گلاپور گلگت بلتستان عبدرب البنی کے گھر میں پیدا ہوئے،ڈاکٹر صاحب کے والد صاحب نیک دل اور سادہ لوح انسان تھے۔ اپنی مسجد کی خدمت اور آذان اپنے اوپر لازم کیا ہوا تھا۔آپ نے ابتدائی تعلیم گلاپور میں ہی حاصل کی ، گلگت شہر میں بھی کبار اہل علم سے استفادہ کیا۔مزید تعلیم کے لیے کراچی کا رخ کیا اور جامعہ دارالعلوم کراچی سے  اپنی پوری تعلیم کی تکمیل کی جہاں انہیں مفتی اعظم مفتی شفیع عثمانی، شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان ، مولانا سحبان محمود، مولانا شمس الحق نوراللہ مرقدہم اور مفتی رفیع عثمانی و مفتی تقی عثمانی جیسے اساطین اہل علم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا موقع ملا۔1388ھ میں جامعہ دارالعلوم کراچی سے سندفراغت کے بعد مزید تعلیم کے لیے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کا رخ کیا جہاں انہیں  کبار علماء کرام میں علامہ محمد امین شقیطی،شیخ حماد انصاری اور ڈاکٹر ناصر فقیہی جیسے اساتذہ  سے استفادہ کا موقع ملا۔1392ھ میں مدینہ یونیورسٹی سے تعلیم کی تکمیل کے بعد جامعہ ام القریٰ   مکہ مکرہ میں  داخلہ لیا اور 1398ء میں ام القریٰ  یونیورسٹی سے   تعلیم مکمل کی ۔ ام القراء یونیورسٹی میں دکتور سید احمد صقر کی نگرانی میں ابن کیال کی ”الکواکب النیرات فی معرفۃ  من اختلط من الروات و الثقات” پر اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کی ،یہ تحقیقی کتاب دو دفعہ شائع ہوچکی ہے۔

اتنا کچھ پڑھ لینے کے بعد بھی ڈاکٹر عبدالقیوم کی علمی تشنگی پوری نہیں ہوئی، تو آپ پی ایچ ڈی کرنے کے لیے جامعہ ازہر مصر پہنچے۔جامعہ ازہر مصر سے ڈاکٹر سید محمد شوقی  خضر کی نگرانی میں  سنن امام دارمی پر تحقیقی پروجیکٹ کی تکمیل کی اور شرف اول (پہلی پوزیشن ) حاصل کی، 1405ھ میں جامعہ الازھر مصر سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔میری محدود معلومات کے مطابق ڈاکٹر صاحب گلگت بلتستان کے پہلے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں جنہوں نے جامعہ ازہر سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

ڈاکٹر صاحب مرحوم نے جامعہ ام القریٰ  میں تعلیم کیساتھ تحقیق و تدریس کا آغاز بھی کیا تھا اس لیے مسلسل 22سال  (1398 تا 1419)جامعہ ام القریٰ میں علم و تحقیق کی آبیاری کرتے رہے۔اس عرصے میں آپ کے اشہب قلم سے  کئی محقق کتب منظر عام پر آئی۔جامعہ ام القریٰ سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد جامعہ دارالعلوم کراچی کی طرف سے انہیں  آفر ہوئی لیکن مرحوم نے حرمین میں رہنے کو ترجیح دی۔ان کی تحقیق و تالیف کردہ کتب درج ذیل ہیں:
1۔ الکواکب النیرات فی معرفۃ من اختلط من الرواۃ
2۔ذیل میزان الاعتدال
3۔ کسوۃ الکعبہ
4۔المشارکۃ فی تحقیق غرائب الحدیث
5۔تکملۃ الاکمال لابن نقطہ (چھ جلدیں)
6۔نہایۃ السوال فی رواۃ الستۃ  الاصول (3 جلدیں)
7۔آئمہ و خطباء الحرمین و الشریفین
8۔بحث لطیف  فی  مشروعیۃ غسل الکعبۃ وتاریخہ
9۔حرمین شریفین خادم الحرمین کے عہد میں (اردو ترجمہ)
10۔ ذیل تکملۃ الاکمال  لاسکندری(2 جلدیں)
ان کے علاوہ بھی کئی کتابوں کی تخریج کی،مخطوطات حرم  کی فہارس مرتب کی، لمحات بیت اللہ الحرم کی تقویم و تحکیم کی۔اور بہت سارے علمی و تحقیقی مضامین لکھے۔اور علمی لیکچر دیے۔
ڈاکٹر عبدالقیوم سے میری شناسائی کئی سال سے تھی۔ سال 2019ء میں مجھے اللہ تعالیٰ نے حج کی توفیق عنایت کی، والدہ مکرمہ کی حج بدل کرنے حرمین پہنچا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم اور ان کے صاحبزادوں ڈاکٹر احمد اور ڈاکٹر محمد کے ساتھ بھی رابطہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے دونوں صاحب زادے ہمیں ملنے عزیزیہ آتے رہے،ڈاکٹر احمد عبدالقیوم اور گلگت بلتستان کے ڈاکٹر عبدالسلام غیاث کی معیت ایک علمی محفل بھی جمی جو بہت دیر تک چلتی رہی،اس محفل کے رنگ میں ایک اہل حدیث صاحب نے بھنگ ڈالنے کی کوشش بھی کی تاہم ڈاکٹر عبدالسلام غیاث کے کرخت لہجے نے ان کو دور بھگایا۔ ایک دن میں حرم شریف گیا ہوا تھا ، ڈاکٹر عبدالقیوم بھی ہمیں ملنے آئے لیکن میں حرم میں تھا تو ملاقات نہ ہوسکی، پھر ڈاکٹر صاحب کے گھر ہم کچھ حجا ج کی مدعو کیا گیا۔ رات گھر لے جانے کے لیے ڈاکٹر محمد اپنی گاڑی لے کر پہنچ گئے۔ یوں ان کی جامع مسجد  ”القادر نصیر”میں ڈاکٹر صاحب کیساتھ ملاقات ہوئی۔نماز عشاء کے بعد مسجد سے گھر آئے تو دیگر مہمان دارالضیوف میں بیٹھے۔ ڈاکٹر صاحب میرے ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے” آؤ حقانی صاحب! تھوڑا وقت الگ بیٹھتے ہیں، علمی گفتگو کرتے ہیں، یہ مہمانوں کی مجلسیں تو چلتی رہیں گی، یوں مجھے لے کر اپنے کتب خانے اور کام کرنے کی جگہ پہنچے۔ اپنی تحقیقی کتابیں جو ایک شیلف میں تھی دکھایا اور پھر بہت دیر تک ہم وہی بیٹھے فن تحقیق اور اہل علم کی باتیں کرتے رہے۔یہاں تک کہ کھانا لگ گیا اور ہم عربی کھانوں سے محظوظ ہوتے رہے۔
حج سے فراغت کے دوسرے دن اہل علم وفن کے اس  عظیم سرمایہ  نے احقر کو فون کیا اور کہا کہ آپ کو عرفات، مزدلفہ  اور منیٰ دکھانا ہے۔ میری حیرت کی انتہاء  ہوئی۔ وہ حضرت خود گاڑی ڈائیورو کرتے ہوئے پہنچے اور  مجھے اور حاجی سید کریم گلاپور والے کو لے کر عرفات پہنچے۔سید کریم ڈاکٹر صاحب کے عزیز ہیں۔ہمیں عرفات، مزدلفہ اور منی کا ایک ایک چبہ دکھایا۔ حدود دکھائے۔خیموں کی تفصیلات بتائی، جبل رحمت کا وزٹ کرایا، مسجد خیف، مسجدنمرہ، مسجد مشعرالحرام اور مسجد عقبہ و مسجد دارالنحر کی زیارت کروائی۔مسجد مشعرالحرام کے متعلق کافی معلومات بہم پہنچائی،عرفات میں درخت کب لگائے گئے یہ بھی بتایا۔ یہ درخت ڈاکٹر مرحوم کی زندگی میں ہی لگائے گئے ہیں۔بہت کچھ بتایا جو شاید کتابوں میں نہیں ہے۔پانچ عشروں پر محیط  اپنی زندگی کے بہت سارے گوشے ڈاکٹر صاحب مرحوم نے بیان کردیے۔ عرفات کا یہ سفر ظہر سے مغرب تک چلتا رہا پھر ہمیں عزیزیہ میں چھوڑ گئے اور مجھے کتابوں کا ایک تھیلا پکڑا دیا جس میں کچھ کتابیں ڈاکٹر صاحب کی اپنی تصنیف کردہ تھی کچھ دیگر، حضرت نے اپنی دیگر کتب بھی پہنچا نے مژدہ سنایا اور ہم سے رخصت ہوئے۔ چھ سال پہلے بھی حضر ت ڈاکٹر صاحب نے چند کتب میرے تایا حاجی عذرخان کیساتھ مجھے مکہ سے ہدیہ کیے تھے۔اب کی بار بھی شاید ڈاکٹر صاحب کی کتب پہنچ جاتی لیکن وہ خود اللہ رب العزت کے حضور پہنچ گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
ڈاکٹر صاحب صحیح معنوں میں خادم الحجاج تھے۔حاجیوں کی خدمت میں  کچھ  تعصب  سے کام نہ لیا۔ گلگت کے اہل سنت اور اہل تشیع دونوں ڈاکٹر صاحب کے مہمان بنتے رہے۔ممبر اسمبلی دیدار نے  بتایا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے بہت عزت افزائی کی۔
ڈاکٹر عبدالقیوم گلگت بلتستان اور پاکستان کے بہت سارے مدارس و مساجد  کیساتھ خصوصی شفقت فرماتے۔ ان کی تعمیر و تزئین میں معاونت کرتے۔ اپنی ان طویل خدمات کا کبھی نہ صلہ لینے کی خواہش کی اور نہ ہی  کسی کو بتلاتے۔ ان کی سرپرستی اور معاونت کے متعلق میرے پاس کافی معلومات تھی،میرے استفسار پر بھی مسکرا کر بتانے سے گریز کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی رحلت سے جو خلا واقع ہوا ہے اس کا بھرنا ناممکن ہے۔ ان کی خاندان ، اہل علم سمیت مدارس و جامعات اور  متولیان ِ مساجد بھی حضرت کی شفقتوں سے محروم ہوئے۔ان مدارس کو حضرت کے سانحہ ارتحال پر کچھ تعزیتی نشستیں تو کرنی چاہیے جن کی عمر بھر ڈاکٹر صاحب نے مختلف شکلوں میں خدمت کی ہے۔ اپنے محسنوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔کیا وہ لوگ جن پر حضرت ؒ کی شفقتیں مسلسل رہی وہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت پر ایک سیمینا ر کا انعقاد کرسکیں گے؟ شاید مشکل ہے، ہم مجموعی طور پر کورچشم لوگ ہیں۔اپنے محسنوں کو یاد رکھنا کب ہمارا وطیرہ رہا ہے۔
مرحوم ڈاکٹر صاحب بلند پایہ محقق،خوش اخلاق اور متواضع انسان تھے۔حضرت ڈاکٹر صاحب کی ذات ایک جامع ہستی تھی۔ ایسے یکتا روزگار لوگ اب پیدا نہیں ہونگے۔اب زمانہ بدل گیا ہے۔ کتاب کی جگہ سوشل میڈیا نے لیا ہے۔اب درجنوں تحقیقی کتب قلمبند کرنے والا عالم فاضل نہیں کہلاتا بلکہ فیس بک اور ٹویٹر پر بھڑکے مارنے والے صاحب علم و فن کہلانے لگے ہیں۔اب تو فیس بکی مفتیوں اور محققوں کی بھرمار ہے۔تواضع و انکساری کی جگہ بدتمیزی اور پگڑی اچھالنا اب  خود ساختہ اہل علم اور ان کے پیرو کا شیوہ بن چکا ہےاب تو اصلاح کی بات کرنے والوں کو بھی مطعون کیا جارہا ہے۔ایسے میں دکتور عبدالقیوم جیسے لوگ ٹوٹ کر یاد آنے لگتے ہیں جو اپنوں کے ساتھ بیگانوں کو بھی سینے سے لگاتے۔سچ کہوں تو ڈاکٹر صاحب قدیم و جدید کے درمیان حلقہ اتصال تھے۔اب جو قدیم سے منسلک ہیں وہ جدید کو  کفر عین ثابت کرنے کے درپے ہیں اور اہل جدید  قدیم علمی تراث سے مکمل بیگانہ۔وہ کتاب و قلم کی دنیا کے مخصوص انسان تھے۔ہر حال میں اپنے علمی  اور تحقیقی مشاغل میں مصروف رہتے۔آپ کے اخلاف میں ڈاکٹر احمد عبدالقیوم اور ڈاکٹر محمد عبدالقیوم ہیں۔ مجھے امید ہے یہ دونوں صاحبان اور ڈاکٹر صاحب کی صاحبزادیاں  اپنے جلیل القدر باپ کے سچے جانشین ثابت ہونگے اور علم وفن کی آبیاری کرتے رہیں گے۔
حکومت پاکستان کو بہت پہلے ڈاکٹر صاحب کی علمی خدمات پر ستارہ امتیاز عنایت کرنا چاہیے تھا، نہیں کیا تو اب بھی انہیں یہ اعزاز سے نواز جاسکتا ہے۔ حکومت گلگت بلتستان وفاقی حکومت کو سفارش کرسکتی ہے کہ  ڈاکٹر صاحب کی علمی خدمات پر بعد ازموت ہی ستارہ امتیاز سے نوازا جائے۔یقینا ڈاکٹر صاحب اور اس کے پسماندگان اس طرح کے اعزازات کے متقاضی نہیں مگر اصحاب علم و تحقیق کی خدمات کا اعتراف کی ایک صورت  یہ بھی ہے۔ لہذا ان کو ستارہ امتیاز کے لیے نامونیٹ کیا جائے۔ان کی اولاد اور پسماندگان صاحب حیثیت اور ثروت ہیں۔ ان سے یہی گزارش ہوگی کہ گلاپور یا گلگت میں ڈاکٹرصاحب کے نام سے کوئی ریسرچ اکیڈمی کا آغاز کریں ۔ کچھ نہ ہوسکے تو ایک علمی لائیبریری ہی قائم ہو جہاں ڈاکٹر صاحب کی تحقیقی کاوشوں تک اہل علم کی رسائی ہو،مجھ جیسے لوگ خواب دیکھنے کے عادی ہیں۔خواب پر تو اقوام متحدہ بھی پابندی نہیں لگاتی۔ کیا میں یہ امید کرسکتا ہوں کہ ڈاکٹرعبدالقیوم کے نام پر گلگت بلتستان میں ایک ریسرچ اکیڈمی یا پھر ایک علمی لائیبریری کا قیام عمل میں آئے گا؟ اگر ہاں تو یہی سچی جانشینی ہے ۔علماء انبیاء کے وارث ہوتے اور انبیاء کے ان وارثوں کی وراثت کی  قدر ان کے علوم و افکار کی ترویج سے ہی ہوسکتی ہے۔
8 جون کی رات ڈاکٹرصاحب اللہ کے حضور حاضر ہوئے جہاں ہم سب نے جلد یا بدیر حاضر ہونا ہے۔9 جون کے وقت سحر قاضی نثاراحمد نے اطلاع دی کی ڈاکٹر مرحوم انتقال کرگئے۔دل نہیں مان رہا تھا لیکن پھر یاد آیا کہ ہر جی جان نے موت کا پیالہ پینا ہے۔ان کی اولاد سے تعزیت کی،اور حضرت کی مغفرت کے لیے ہزاروں میل دور بیٹھ  کردعا ہی کرتے رہے۔مرحوم کی وفات سے مملکت سعودیہ، پاکستان اور بالخصوص گلگت بلتستان محروم ہوا۔ علم و عرفان اور تواضع و انکساری کا یہ حسین و جمیل اور نفیس انسان  ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دارفنا سے دار بقا کو چل دیے۔اور حدود حرم کے مقبرہ ”شہدائے حرمین ” میں مدفون ہوئے۔عالِم کی موت عالَم  کی موت کا درست مصداق ڈاکٹر صاحب ہی تھے۔اللہ تعالیٰ ان کی مرقد کو روشن کرے۔اور پسماندگان کو صبر جمیل کے ساتھ نعم البدل دے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button