دیوانِ حافظ کا حا فظ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
شاہ جی عیسیٰ ولی شاہ مر حوم کو دیوانِ حا فظ کا حا فظ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا آپ کے علمی اورصوفی ادبی حلقے میں شا مل احباب ایسا ہی کہتے تھے ضلع اپر چترال کے ہیڈ کوار ٹر بونی سے 3کلو میٹر مشرق میں واقع جو ج بوخت مو ضع آوی کا مشہور مقام ہے اور اس کی وجہ شہرت یہاں کے سادات کو قرار دیا جا تا ہے سادات کا یہ قبیلہ شا اویس کی اولاد سے تعلق رکھتا ہے جو حسینی سیّدوں کے شجرہ نسب کی اہم کڑی ہے عیسیٰ ولی شاہ نے فار سی اور عر بی کی تعلیم گھر پر حا صل کی مڈل کا امتحا ن دینے کے بعد پو لیس میں بھر تی ہوئے سپا ہی سے ترقی کر کے ڈی ایس پی کے رینک تک پہنچ گئے دوران ملا زمت میڑک سے لیکر بی اے، ایل ایل بی تک چار بڑے امتحان امتیا زی نمبروں سے پا س کئے لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ یہاں سے بات شروع ہو تی ہے آپ نے جس پو لیس سٹیشن میں ڈیوٹی دی اُس کو مدرسہ بنا دیا پیٹی، پستول، بندوق اور چھڑ ی کے ساتھ کم از کم 50کتا بوں کا پلندہ اپنے پا س رکھتے تھے اور علم و ادب سے شفف رکھنے والے احباب آپ کی صحبت سے فیض یاب ہو تے تھے، انوری، قآنی، جا می، خا قانی اور دوسرے معتبر شعراء کے کلا م کا بڑا حصہ آپ کو یا د تھا تاہم آپ کی وجہ شہرت یہ تھی کہ دیوان حا فظ پر آپ کو عبور حا صل تھا حا فظ شیرازیؒکا موازنہ شیح سعدی ؒ، مو لانا رومی ؒ اور مرزا عبد القادر بیدل سے کرتے تھے علا مہ اقبال اور مر زا غا لب کے اردو کلا م پر دونوں کے فارسی کلا م کو فو قیت دیتے تھے دیوانِ حا فظ کے کئی شروح آپ کی میز پر رکھے ہوئے ہوتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ شروح کے بغیر دیوانِ حا فظ کی گہرائی کا احا طہ کر نا آسان نہیں ہر مصرعے میں فارسی اور عربی کی خوب صورت امیزش ہے ؎
درمحفل گل و مُل خوش خواند دوش بُلبُل
ہاتی ا لصبوح حیّو ایّھا ا سُّکاریٰ
آں تلخ وش کہ صو فی اش ام الخبائث خواند
اشحیلنا واحلی من قبلۃالعذارا
انوری اور خا قانی کے قصائد میں چیدہ چیدہ نکا ت ڈھونڈ لا تے تھے امیر خسرو، اور مولا نا رومؒ کے کلا م سے یا رانِ مجلس کو محظوظ کرتے تھے مرزا غلا م قادر بیدل کو فن شعر گوئی کا امام مانتے تھے ان کی شام والی مجلس میں انسپکٹر صد برگ مر حوم اور استاذ میر فیاض مر حوم نما یاں تھے دن کی روشنی میں غلا م عمر، شہزادہ فخر الملک اور علی اکبر خان ان کی صحبت میں بیٹھا کر تے تھے ولی الرحمن ایڈو کیٹ بھی ان کے مدا حوں میں شا مل تھے جب انسپکٹر تھے تب ان کا ارادہ ریٹائرمنٹ کے بعد قا نون کی پریکٹس کرنے کا تھا لیکن 50سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے ان کو شوگر کا مر ض لا حق ہوا شوگر کے ساتھ دیگر عوارض نے آ گھیرا چنا نچہ وکا لت کا پیشہ اختیار نہ کر سکے ریٹا ئر منٹ کے بعد ان کا معمول تھا کہ صبح 9بجے زر گراندہ سے کوپ ریشت کے مقام پر نور افضل کے پاس جاتے اخبار اور تازہ رسائل لیکر خرا ماں خراماں واپس ہوتے سہ پہر کو چھڑی ہاتھ میں لیکر پو لو گراونڈ تک چکر لگا تے اور کہتے یہ میری عیا شی کی حد ہے صبح چترال کا شاہی قلعہ راستے میں پڑتا ہے شاہی مسجد راستے میں آتی ہے شاہی پیریڈ گراونڈ سے گذر تا ہوں سامنے 25ہزار بلند تریچ میر کی چو ٹی کو دیکھتا ہو ں بائیں طرف 9ہزار فٹ کی بلندی پر واقع بر موغ لشٹ کا گر مائی قلعہ نظر آتا ہے شام کو پو لو گراونڈ کے 400فٹ اونچے چنا روں کا منظر سامنے ہو تا ہے پھر حافظ اور رومی کے ساتھ نشست و بر خا ست مجھے مصر وف رکھتی ہے شہزادہ اسد الرحمن اُن کو نا یا ب او قیمتی کتب کے تحفے بھیجتے تھے علی اکبر خا ن کو سکو لوں کے انتظام وانصرام کے فر صت ملتی تو ان کو چھیڑ نے کے لئے آجا تے عمو ماً دیوان شمس پران کو گھیر لیتے تو مخصوص انداز میں مو لا نا کے اشعار سنا تے ؎
اے سرور خو بان دو عالم بحق
کز معجزاو مہ شد شقا وشقیقی
ازیراللہ لا، یر یلہ لا یریلہ لا یا ھو
وزتن تنہ نا،تن تنہ تنا زدم علم مو سیقی
بلبل ولی خان نے ایم اے فارسی میں پہلی پو زیشن حا صل کی تو شاہ جی ان کے علمی مقام کے معترف ہوئے کہا کرتے تھے استاذ کا بیٹا چھپا رستم نکلا ؎
بر بیشہ ای گمان مبر کہ خا لیست
شاید پلنگے خفتہ با شد
وقت گذر نے کے ساتھ یاران محفل ایک ایک کر کے دنیا سے اُٹھ گئے تو انہوں نے علی اکبر خان سے کہا اب تم نے اسلام اباد کا قصد کر لیا ہے میں جوج بوخت کی طرف مرا جعت کر تا ہوں پرواک کی مٹی بھی مجھے پسند ہے میرا آب ودانہ پہاڑوں کی ان گھا ٹیوں میں مجھے ملے گا 21جون 2020ء کو 79سال کی عمر میں وفات پا گئے اب چترال میں حا فظ و سعدی اور جا می و رومی پر گفتگو کرنے والوں کی صف میں بلبل ولی خا ن کا کوئی ہمنوا نہیں رہا ان کی حسرت یہ تھی کہ جنرل ضیاء کے دَور میں فارسی علم و ادب کو ہمارے علمی اداروں سے نکا ل با ہر کیا گیا حا لانکہ ہمار اسر مایہ افتخا ر یہ تھا ؎
مثنوی و معنوی و مو لوی
ہست قرآن در زبان پہلوی
غا لب نے اپنی ہمہ دانی اور لن ترانی کے باوجو د اعترف کر لیا تھا کہ ؎
طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا
اسد اللہ خان قیا مت ہے
چترال کے قدیم شعرا میں مرزا محمد سیر کے مداح تھے ان کی غز لیات کو مر زا صائب، مر زا کلیم اور سبک ہندی کے دیگر اسا تذہ کے ہم پلہ قرار دیتے تھے ؎
مستا نہ ام سیر چو کشودم لب از عدم
ما در بجا ئی شیر بکا مم شراب ریخت
ٓآپ چترال میں اردو ادب کے طا لب علموں کو اکثر چھیڑا کر تے تھے جوش، فیض،عدم اور منیر نیا زی کا کلام سنا نے کی فر مائش کرتے تھے بھٹو نے مشروبِ مغرب پر پا بندی لگائی تو مخفلوں میں صراحی اور جام کی جگہ فلا سک اور مگ کا رواج ہو ا جو ش کا مگ خا لی ہو تا تو پکار تے ادھر آؤ بھئی کا فی ٹھنڈی ہو گئی ہے، منیر نیا زی کو مشا عرے میں آ نے کی دعوت دی جا تی تو منتظمین سے کہتے میر ا گرائپ واٹر سنبھا ل کے رکھنا شاہ جی کے لئے شہزادہ فخر الملک کا یہ جملہ مجھے کبھی نہیں بھو لے گا آپ کہا کر تے تھے عیسیٰ ولی شاہ کی مثا ل پو لیس کے گہرے سمندر میں علم و ادب کے سر سبز و شا داب جزیرے کی طرح ہے پیٹی کھو لتے ہی پو لیس رولز کی کھڑ کی بند کر کے پا کستان پینل کو ڈ (PPC) اور کریمنل پر وسیجر کو ڈ (CPC) کے دروازے بھی بند کر دیتے ہیں دوسری طرف سے قو نیہ، شیراز، دہلی اور لکھنو کی طرف کھلنے والے علم و ادب کے روشن دان وا کر دیتے ہیں گویا دعوت عام ہو ؎
پھر دیکھے ِ گر می گفتا ر کا عالم
رکھ دے کوئی پیمانہ و صہبا میرے آگے