مظلوم یا امن پسند، تعلیم یافتہ؟
تحریر: فیض اللہ فراق
مجھے نہیں معلوم کہ بعض لوگ میری تحریروں سے کیا اخذ کرتے ہیں مگر میرے مقاصد اعتدال پسند معاشرے کی تشکیل اور تفرقے سے پاک خوبصورت گلگت بلتستان کا خواب ہے جہاں ہر فرد خود کو اپنی قابلیت کے ترازو میں تولے اور میرٹ و انصاف کے جذبے سے لبریز ہو۔
ستر سے زیادہ برس بیت گئے آج تک ہم قومی وحدت کی زنجیریں مظبوط کرنے کے بجائے محدود دائروں کے مسافر بنے بیٹھے ہیں۔ انسانی معاشروں میں یک رنگی ہونا کمال نہیں بلکہ کئی رنگوں کو یکجا کر کے ایک دوسروں کے دکھ درد مشترک رکھنا کمال ہے۔
گلگت بلتستان بھی مختلف النوع مسالک، ثقافتوں اور زبانوں کا گلدستہ ہے مگر ہم سب آج تک اس تنوع کو موقعے میں بدلنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں کیونکہ ہم نے کبھی بھی اپنی کھڑکی سے جھانک باہر گلی کی خبر نہیں لی ہے بلکہ انفرادی روایات کا چلن عام رہا ۔ کبھی ہم اعلی عہدوں کے حصول کیلئے مسالک کا کوٹہ مقرر کرتے ہیں اور کبھی انسانی جانوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔۔۔ چونکہ اس جنت ارضی میں صرف دو طبقات نہیں بستے بلکہ دوسرے طبقات بھی مکین ہیں اور گلگت بلتستان ان سب کا گھر ہے۔ اس گھر کا تحفظ سب پر لازم ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم گلگت بلتستان کے وارث بننے کے بجائے اپنے اپنے طبقوں کی نمائندگی میں مشغول ہیں. ایسے میں ایک باوقار گلگت بلتستان کا خواب شرمندہ تعبیر کیسے ہوگا؟
میرے گزشتہ کالم کا مقصد صرف اتنا تھا کہ گلگت بلتستان کے دونوں بڑے مسالک کو اسماعیلی کمیونٹی سے سبق لینا چاہئے جو امن پسند ہیں اور ان کے شعور کی سطح اتنی بلند ہے کہ وہ اعلی عہدوں کو مسلک کی سی وی لیکر مطالبہ نہیں کرتے بلکہ میرٹ کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ تعلیم یافتہ ہیں ، ان کی تعلیمات میں صبر ہے اور آج تک اس خطے کو مذکورہ طبقے نے امتحان میں نہیں ڈالا ہے۔ ملک پاکستان اور گلگت بلتستان کیلئے اس طبقے کی ان گنت قربانیاں بھی ہیں مگر کبھی بھی انہوں نے اپنی قربانیوں کو نہیں جتایا۔۔ اس طبقے کے مذہبی اکابر نے کبھی بھی منبر کو سیاسی مقصد کیلئے استعمال نہیں کیا بلکہ یہ لوگ اپنی تعلیم، ڈگری، قابلیت اور میرٹ کے ذریعے اپنی ذہانت کا لوہا منواتے ہیں۔۔
میرے گزشتہ کے آرٹیکل میں ” مظلوم” کا مطلب شعور کی بلند سطح اور امن پسندی تھی جس کا بعض افراد نے منفی تاثر لینے کی کوشش کی۔۔۔ میرے خیال میں اس خطے کے تمام طبقات کو حکمرانی کا حق ملنا چاہئے اور سب کے ساتھ انصاف کا معاملہ ہونا چاہئے۔ اگر ایک طبقہ امن پسند ہے تو اس کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے بلکہ اس کو مزید مواقع اور پلیٹ فرام مہیا کرنا چاہئے۔ گلگت بلتستان کا مستقبل بہت شاندار ہے اور اس تابناک مستقبل کو مزید نکھارنے کیلئے آج کے نوجوان بہت اہم ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنی آنے والی نسل کو میرٹ، انصاف جیسے اصول سکھائیں اور بہتر تعلیم اور ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ان کی معاونت کریں۔۔
فرقہ پرستی، تعصب پرستی اور لسانیات کے جھگڑوں کی تربیت آنے والی نسل کو تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں دے گی اور مستقبل کا مورخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔