دیامر کا مغوی فیض
تحریر: فیض اللہ فراق
گزشتہ دنوں ضلع دیامر کا علاقہ ہڈر سے تعلق رکھنے والے جٹیال گلگت کے رہائشی فیض الرحمان کی خون میں لت پت ٹیکسی گاڑی نومل گلگت کے علاقے سے برآمد ہوئی ہے لیکن "فیض” تا حال لاپتہ ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے یہ نوجوان ڈرائیور تھے اور ٹیکسی چلا کر پیٹ کی آگ بجھاتے تھے۔۔
سانحہ نومل کے بعد دوسرا واقعہ ہمیں سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔۔ جہاں نومل واقعہ کے پسماندگان کو انصاف کی ضرورت ہے وہاں چلاس کے فیض کا سراغ لگانا حکومت کی ذمہ داری ہے "فیض” کے لاپتہ ہونے کی وجوہات تاہم واضح نہیں البتہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اس حوالے کچھ معلومات اور فوٹیجز کا ہونا لازمی امر ہے۔ جٹیال ٹیکسی اڈے کےآس پاس لگے ہوئے سی سی ٹی وی کیمروں کے ریکارڈ میں یہ بات ضرور ہونی چاہئے کہ مذکورہ ڈرائیور کو ٹیکسی اڈے سے باہر لیجانے میں کتنے اور کس قماش کے لوگ تھے؟ انہیں معلوم بھی ہونا چاہئے کہ اس واقعے کی تفصیلات کیا ہیں؟
بظاہر فیض کے ساتھ ہونے والے ظلم و بربریت پر ہر انسان دکھی ہے۔ ایک نوجوان کا اس طرح اغوا افسوس ناک ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سوالیہ نشان بھی ہے۔ گلگت بلتستان کے گزشتہ 5 برس امن کا دور دورہ رہا۔۔ یہاں کے مکینوں نے عشروں بعد سکھ کا سانس لیا تھا اور نو گو ایریاز ختم ہو کر یہ علاقہ معاشی اعتبار سے بہت ترقی کر گیا تھا مگر افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ آنے والے الیکشن سے قبل فرقہ واریت کی بدبو محسوس ہو رہی ہے۔ گلگت بلتستان کی سیاسی فضا کو فرقہ وارانہ ماحول میں بدلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ لوگوں کے جذبات کو ماضی کی طرح اب بھی فرقہ وارنہ بنیادوں پر ہائی جیک کئے جا رہے ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نفرت کے بغیر ان کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پا رہے ہیں سو’ جان بوجھ کر نفرتوں کے کاروبار کو عروج دیا جا رہا ہے۔ گلگت بلتستان کی قوم کو چاہئے کہ ہر رونما ہونے والے واقعہ کو فرقہ واریت سے جوڑنے کے بجائے تھوڑی دیر کیلئے تحقیق کی روش کو اپنا لیں، افواہوں پر کان نہ دھریں بلکہ مکمل کھوج لگانے کی عادت پیدا کریں۔۔ چلاس کے مغوی ” فیض” کے لاپتہ ہونے کے محرکات کیا ہیں یہ قبل ازوقت ہے اسلئے پولیس، انتظامیہ اور حساس اداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس واقع کے اصل حقائق قوم کے سامنے لائیں تاکہ لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے شکوک دم توڑ سکیں۔
فیض کا لاپتہ ہونا ایک بڑی آبادی اور 3 سو کلومیٹر قراقرم ہائی وے پر بسنے والے مکینوں کیلئے صدمے کا سبب ہے۔ لوگوں میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے اور بعض افراد اس واقعے کی بنیاد پر خطے کو امتحان میں ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں۔۔۔ گلگت بلتستان کسی طور تعصبات کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے اور یہاں سیاسی عمل کو مظبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو سیاسی بنیادوں پر سوچنے کا موقع دیا جانا چاہئے تاکہ نفرت کی دکانیں بند ہوں۔۔۔۔ گلگت بلتستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ ڈلیوری، میرٹ اور کام کی بنیاد پر لوگوں سے ووٹ مانگیں نہ کہ لسانی، مذہبی اور قومی تفریق پر لوگوں کو تقسیم کریں۔۔
میں فورس کمانڈر گلگت بلتستان میجر جنرل احسان محمود خان، وزیر اعلی گلگت بلتستان میر افضل خان اور آئی جی پی گلگت بلتستان سے مطالبہ کروں گا کہ وہ دیامر کے ” فیض” کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ظلم کو بے نقاب کرتے ہوئے علاقے کو پرامن رکھنے میں کردار ادا کریں۔