تیری چوائس ہی میری چوائس ہے پاپا
ہدایت اللہ اختر۔گلگت
ہمارا ہینڈ سم وزیر آعظم تقریر بڑی شاندار کرتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ان کی تقریروں کا نتیجہ مختلف آتا ہے ۔ عمران خان کی اسمبلی والی تقریر سننے کے بعد مجھے عمران پر ترس سا آنے لگا ہے۔ بے چارہ ہینڈ سم وزیر آعظم ۔ ۔ تقریر تقریر ہوتی ہےاور پاکستانی تاریخ میں جانے والے وزیر آعظموں کی تقاریر ایسی ہی ہوتی ہے ۔ ۔کرسی مضبوط ہے سے لیکر پانامہ کیس تک سارے احوال ہمارے سامنے ہیں ۔مجھے پہلے یقین نہیں تھا کہ عمران اتنی جلدی جانے والے ہیں اب تو سو فیصد یقین ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ بہت جلد سب کو دکھائی دیگا ۔کامران خان اینکر پرسن ایک پروگرام کرتا تھا عجب کرپشن کی غضب کہانی یا غضب کرپشن کی عجب کہانی جو بھی ہے اس ملک کے لئے دونوں ہی سوٹ کرتے ہیں عجب کو پہلے لکھو یا غضب کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔کیونکہ یہ ملک غضب اور عجب طریقے سے ہی وجود میں آیا ہے ۔غضب اس لئے کہ ہندو مسلمانوں پر غضب کے ستم ڈھاتے تھے اور اس غضب سے بچننے کے لئے مسلمانوں نے قائد کی سربراہی میں عجب اور ناقابل یقین قربانیاں دی تھیں ۔اس لئے ابھی تک غضب اور عجب ساتھ ساتھ چلتے ہیں اس ملک کے ساتھ پہلا عجب واقعہ اس وقت پیش آیا جب بیمار قائد کو کوئٹہ سے کراچی لانے والی گاڑی کا پیٹرول راستے میں ختم ہوا۔پھر بے چارے قائد کس حال میں کراچی پہنچے وہ بھی غضب کہانی ہی ہے۔اس کے بعد لیاقت باغ کا واقعہ بھی بڑا عجیب ہی ہے لیاقت علی خان مُکہ لہراتے دنیا سے چلے گئے اور غضب یہ ہوا کہ گولی چلانے والا بھی بچ نہ پایا۔نہ رہے بانس نہ بجے بانسری قصہ ختم ۔قصے ختم کہاں ہوتے ہیں ایک قصے کو ختم کرو تو ایک اور کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔اسمبلیاں ختم کرنے اور توڑنے اور بحالی کی بھی عجب اور غضب کہانیاں اس ملک کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ تاریخ سے ہی اندازہ یا سمجھا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں وزیر آعظم کو نکالنے اور رکھنے کا عمل یکسر مختلف ہے۔ ۔لیاقت علی خان کے بعد خواجہ ناظم الدین دوسرے وزیر آعظم پاکستان کو غلام محمد گورنر پاکستان نے دودھ سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا۔ محمد علی بوگرہ کی بھی گورنر سے نہ بن سکی یوں ان کی اسمبلی غلام محمد گورنرکے ہاتھوں شہید ہوئی ۔اس شہید اسمبلی کو کچھ وقت کے لیئے سندھ ہائی کورٹ نے بحالی کا گلوکوز لگا دیا تھا مگر پھر کیا ہوا اس عجب پر جسٹس منیر نے غضب ڈھایا اور سندھ ہائی کورٹ کی اسمبلی بحالی کا قصہ تمام کر دیا ۔یوں جن لوگوں نے اپنی ضرورت پوری کرنی تھی انہوں نے نظریہ ضرورت کو ایجاد کیا۔ ۔چودھری حسین شہید سہروردی اور اسماعیل چندریگر وزراء آعظم پاکستان سب ہی غلام محمد گورنر پاکستان کے دور میں ایک ایک ہوکے رخصت ہوتے گئے اور ایک دن وہ بھی آیا کہ اسی نظریہ ضرورت کو بروئے کار لاتے ہوئے اسکندر مرزہ اور جنرل محمد ایوب خان نے غلام محمد گورنر پاکستان کو علاج کے بہانے یورپ بھیج دیا۔ یوں غلام محمد گورنر کا جانشین سکندر مرزہ پاکستان کے پہلے صدر بن گئے اور آئین میں گورنر کا عہدہ ختم کر دیا گیا اور پھر 1958 میں سکندر مرزہ نے ملک میں پہلا مارشلا لگا دیا ۔۔ایک تقریر کے حوالے سے بات کہاں سے کہاں پہنچی اور کیسے نہ پہنچے تقریریں ہی ایسی ہوتی ہیں ان تقریروں کو سن کر بہت سے واقعات اور قصے ذہن میں گھوم جاتے ہیں جن کو بیان کئے بغیر بات نہیں بنتی اب جب کہ میں یہ بات لکھ رہا ہوں ایک اور قصہ مجھے یاد آرہا ہے اسے بھی بیان کر ہی دیتا ہوں ۔1977 میں قومی اتحاد کے سربراہ نوابزادہ نصر اللہ خان اور اس کے ساتھی ٹیلی ویژن پر بھٹو کی تقریر سن رہے تھے اور جب بھٹو نے یہ کہا کہ میں کمزور ہو سکتا ہوں لیکن کرسی میری مظبوط ہے ۔ اس پر نواب زادہ نصر اللہ خان نے اپنے ساتھیوں کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا تھا مبارک ہو بھٹو کا اقتدار چھوڑنے کا وقت بہت قریب آیا ہے۔۔پاکستانی تاریخ میں سیاست جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ کا چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے جہاں تم وہاں ہم اور جہاں کوئی نہیں وہاں مارشلا۔چاہئے وہ سول مارشلا ہو یا اصلی۔جنرل ایوب خان اور سکندر مرزہ صدر پاکستان اپنے دور کے یار غار تھے لیکن کیا ہوا ایوب خان نے سکندر مرزہ کو معزول کرکے اصل مارشلا لگا دیا اور خود کو فلیڈ مارشل کہلوایا ۔جس دور کو آپ اٹھائیں بلی اور چوہے کا کھیل ہی ہمیں نظر آتا ہے اور جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت پاکستان کی تاریخ میں نظریہ ضرورت نہیں بلکہ نظریہ اندھیر ثابت ہوا ہے اور آج کے دن تک اسی نظریہ کو بروئے کار لایا جا رہا ہے بس طریقہ کار ذرا مختلف ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو سچی بتائیں کہ نیازی جیسا شخص آج پاکستان کا وزیر آعظم ہوتا ہر گز نہیں بس یہ تو تبدیلی لانے والوں کی مہربانی ہے کہ انہوں نے زنگ آلود ورلڈ کپ 1992 کو قلعی اور پالش کرکے نمائشی طور پر عوام کے سامنے رکھ دیا ہے ۔ اب وقت کے ساتھ جب ورلڈ کپ کا پالش اترتا جا رہا ہے تو کپ کو پالش کرنے والے سوچ رہے ہیں کہ اب اس ورلڈ کپ میں مزید پالش کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے اس لئے اس کو تاریخی نودرات میں رکھا جائے ۔ جیسے پہلے سے ہوتا آیا ہے۔ اصل اصل ہوتا ہے چاہئے وہ ظاہر ہو یا پردے کے پیچھے اور پر دے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے سب کو معلوم ہو یا نہ ہو۔جاننے واے تو جانتے ہی ہیں کہ پردے کے پیچھے کام کرنے والے اپنے کام میں جُتے ہوئے ہیں میرے اور آپ کے کہنے لکھنے اور تقریر کرنے سے ان کی دم بھی نہیں ہلنی والی ۔بھٹو کی پھانسی سے لیکر جونیجو کی اسمبلی کی فراغت ہو یا جمالی کا استعفا اور شوکت عزیز کا وزیر آعظم کے عہدے پر فائز ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ متبادل تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں اور جس دن وہ حالات ہونگے اس دن ثابت ہو جائیگا کہ پاکستانی تاریخ میں ایک پیج پر جو لکھا ہوا ہوتا ہے اس میں اضافہ یا کمی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے اور اگر کوئی اس پر مزید کچھ لکھنا چاہئے توایسے میں اس پیج کو پھاڑ دیا جاتا ہے یا لکھنے کے لئے نیا پیج درکار ہوتا ہے ۔ لگتا یہی ہے کہ نئے پیج کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے ۔یہ اتنا مشکل کام بھی نہیں کہ یہ پیج نہ لکھا جائے یا اس کے لیئے بڑے جتن کرنے پڑ جائیں ۔ یہ نیا پیج تو بس ایک ٹیلیفون ہی کی دوری پر ہے اور جب ٹیلفون کی گھنٹی بج جائیگی تو خواہ اپوزیشن ہو یا حکومت سب کے سب اچھے بچے بن جاتے ہیں اور اچھے بچے ضد نہیں کرتے اور اپنے بڑوں کا کہا مان کر روٹی بھی کھاتے ہیں اور پاپا کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں اور ساتھ میں کہتے ہیں "تیری چوائس ہی میری چوائس ہے پاپا۔