نوائے سُرود: پورس کے ہاتھی
تحریر: شہزادی کوثر
کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیشِ نظر ملک پہ خطرہ منڈلا رہا ہے،بہت سے علاقوں کو جزوی یا مکمل طور پر سیل کیا گیا ہے لیکن متاثرہ افراد کی تعداد میں کمی دیکھنے میں نہیں ٓا رہی ،بہت سی زندگیاں منوں مٹی تلے دب گئی ہیں لیکن ہماری عقل پہ پڑا ہوا پردہ جوں کا توں موجود ہے۔یہ غفلت اجتماعی طور پر برتی گئی سنجیدگی سے اس سے نمٹنے کی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی ،کسی نے اسے ڈراما قرار دیا اور کوئی اسے پیسے بٹورنے کی منصوبہ بندی سمجھتا رہا جس کی وجہ سے لوگ اس کے خونی پنجوں میں بری طرح سے گرفتار ہوتے رہے، کسی بھی طرح کی مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے مسلہ سمجھنا اور ماننا پہلا قدم ہوتا ہے حکمت عملی بعد میں اپنائی جاتی ہے، لیکن ہمارے ملک میں ان پڑھ افراد سے بھی خطرناک پڑھے لکھے جاہلوں کا طبقہ ہےجو اپنی کم علمی اور کج فہمی کے باعث مصیبت کی جڑ بنا ہوا ہے ،اسے یہ شعور بھی ہیں کہ پوری دنیا جس بیماری کے سامنے بے بس ہو چکی ہے، ٓاسمانوں کی ہمسری کرنے کے دعوے دار اقوام اس کے اگے ریت کی دیوار ثابت ہو رہی ہیں اگر ہمارے ملک میں بے قابو ہو گئی تو کیا حال کرے گی۔ ملکی معیشت پہلے ہی بیساکھیوں کے سہارےٓاگے بڑھ رہی ہے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے ٹڈی دل کی یلغار نے فصلوں کو برباد کر دیا ہے اوپر سے وبائی صورتِحال میں اضافہ اس کی بنیادوں کو بھی لرزا سکتی ہے،اگر ہم اپنے گھروں تک محدود ہو جائیں غیر ضروری ملاقاتوں اور سفر سے اجتناب کریں تو کشیدہ صورت حال سے محفوظ رہ سکتے ہیں لیکن یہ باتیں ان کے سامنے کوئی معنی نہیں رکھتیں ۔یہ بات اپنی جگہ درست کہ گھرمیں محصور ہونے کے تصور سے ہی بےچینی بڑھ جاتی ہے لیکن اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگی کے لیے انسان بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیئے تیار ہوتا ہے، ہم سے جان کی قربانی کوئی نہیں مانگ رہا صرف چند دن کی ٓازادی کو قربان کرنے کا کہا جارہا ہے جسے قبول کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں جس کا خمیازہ ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ ہمیں خود بھی جذباتی طور پر بھگتنا پڑرہا ہے ۔روزانہ سینکڑوں افراد اپنی جان جانِ ٓافریں کے سپرد کر رہے ہیں اور ہم کچھ بھی نہیں کر پا رہے ۔۔۔۔
کوئی روکے یہاں دستِ اجل کو
ہمارے پیارے مرتے جا رہے ہیں
ان پیچیدہ اور دلخراش حالات کے ذمہ دار ہم سب ہیں اگر حالات کی نزاکت کو سمجھ کر احتیاطی تدابیر اپنا لیتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔کسی کی سہی بات کو مان کر اس پر عمل کرنا شائد ہماری جبلت کے خلاف ہے یا ایسا کرتے ہوئے ہماری انا کو دھچکا لگتا ہے۔ہر کوئی اپنی منطق کے مطابق زندگی کا ایک ہی رخ دیکھتا ہے مل کر حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بات پر متفق ہونا ہماری گٹھی میں ہی موجود نہیں ،کام خود ہی غلط کر کے اس کا ذمہ دار بڑی ٓاسانی سے دوسروں کوقرار دیتے ہیں ،ہماری مثال پورس کے ہاتھیوں کی ہے جو اپنی ہی فوج کی بربادی کی وجہ بنے۔اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور ہمارے پاس اپنے پیاروں کے بجائے صرف انکی یاد باقی رہے ہمیں خود کو ایک ذمہ دار شہری ثابت کر کے سب کی زندگی بچانا ہے۔ فرنٹ لائن پر کام کرنے والے ہمارے ہیروز اپنی جان داو پر لگا کر موت سے پنجہ ٓازمائی کر رہے ہیں ان کا دست وبازو بنیں ان کے کاموں کو ٓاسان کریں اور مزید بیماروں کی تعداد میں اضافہ نہ کریں تا کہ ہم بھی اپنے پیاروں کے ساتھ زندگی کی خوشیوں کو پھر سے گلے لگا سکیں ۔۔