کالمز
غلام معاشرہ اور حکمران (خاص) طبقہ
سو شل میڈیا میں ان دنوں ایک تصویر وائرل ہے جس میں ایک گھوڑے کو ایک چھوٹی سی کرسی کے ساتھ باندھا ہوا دکھایا گیا ہے۔ یہ محض ایک تصویر نہیں بلکہ ایک سبق آموز کہانی ہے۔ بظاہر یہ جانور جتنا طاقتور دیکھائی دیتا ہے نفسیاتی اعتبار سے اتنا ہی کمزور ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نفسیاتی قید یا غلامی جسمانی قید کی نسبت کئ گناہ زیادہ با اثر ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ نفسیاتی غلامی میں مبتلا فرد کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کس حد تک قید و بند میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہ فرد بھی ہوسکتا ہے اور معاشرہ بھی ہوسکتا ہے۔ فرد اور معاشرے کو اس نہج تک پہنچانے میں بلاشبہ طاقتور قوتوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔ جن کو عام الفاظ میں حکمران یا تسلط قائم رکھنے والے بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس اہم معاشرتی مسئلے کو مشہور فلاسفر انٹو نیو گرامچی نے انیسویں صدی میں اپنے ایک مشہور تھیوری hegemony cultural یعنی ثقافتی تسلط میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ گرامچی بیان کرتا ہے کہ حکمران کلاس ثقافت، مزہب، تدریسی عمل اور میڈیا کو ہتھیار کے طور پر اپنی تسلت قائم رکھنے اور نفسیاتی اعتبار سے غلام معاشرہ تشکیل دینے کے لیے استعمال کرتا یے۔ ثقافت اور مذہب کے تمام پرانے اقدار جن میں عقائد، عام لوگوں کی سمجھ کی سمت اور روایات کو نئے انداز سے ترتیب دیا جاتا ہے۔ اور پھر آہستہ آہستہ ان نئے اقدار، عقائد اور سوچنے کے انداز کو ثقافت میں زم کیا جاتا ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ ثقافت یا پھر عقائد کا حصہ بن جاتے ہیں اور یوں ایک نیا معاشرہ جو نفسیاتی اعتبار سے غلام ہو وجود میں آتا ہے۔
گرامچی مزید لکھتا ہے کہ اس معاشرے میں عام اور خاص میں ایک واضح فرق رونما ہوتا ہے۔ یہ معاشرہ عام لوگوں کے سوچنے سمجھنے سمیت فہم اور شعور پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔عام لوگوں پہ نفسیاتی دباؤ برقرار رکھنے کے لیے مذہب، ذات پات کا بھر پور استعمال ہوتا ہے اور ان نئے روایات کو عقائد کا حصہ بنایا جاتا ہے جیسے کہ ایک مخصوص خاندان کے کسی بھی فرد کا ہاتھ چوم کے استقبال کرنا، رہنمائی کا حق صرف اسی مخصوص گروہ کے پاس ہونا یا پھر عزت و وقار کا منبہ بھی یہی مخصوص گروہ کا حق ہونا ثقافت کا حصہ شمار ہونے لگتا ہے۔ اور یوں یہ عام طبقہ جو کہ نفسیاتی طور سے غلام ہوتا ہے اس مخصوص گروہ یا پھر مخصوص خاندان کی عزت، تکریم اور تعبیداری کرنا اپنے ثقافت کا ایک اہم جز سمجھنے لگتا ہے. تب یہ معاشرہ مکمل طور پر نفسیاتی غلامی میں داخل ہو جاتا ہے۔ اور یوں ان بااثر لوگوں کے لئے اپنی موروثی حکمرانی کو قائم رکھنا انتہائی آسان عمل ہوجاتا ہے۔
گرامچی کے اس نظریے سے اختلاف ہو سکتا ہے کیونکہ یہ دور جمہوری دور ہے۔ جمہوریت، جمہور کو آزادی سے اپنے معمولاتِ زندگی بسر کرنے کا حق دیتی ہے۔ لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ عام طبقے اور ان موروثی حکمران گروہوں میں ایک واضح تبقاتی فرق ہے؟ آج کے اس دور تک اس گروہ کے رہن سہن, میل ملاپ میں کبھی عام لوگ شامل نہیں ہوئے۔ اور کیا ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے اپنے خاص ہونے کا برملا اظہار نہ کیا ہو؟ اگر ایسا نہیں تو کب اور کہاں ایسا ہوا کہ اس خاص نے عام کے حق میں کسی بھی معاملے میں دستبردار ہوا ہو چاہے وہ سیاست کا معاملہ ہو یا پھر کوئی اور وجہ۔ اور یہ کہاوت "رہنما بننے کی کوشش نہیں کرو بلکہ رہنما چننے کی کوشش کرو” اس بات کی دلیل ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا۔
یہ جمہوری نظام محض ایک دکھاوا ہے۔ درحقیقت یہ جاگیردارانہ نظام کا ہی تسلسُل ہے. اس جمہوریت نے ثقافتی تسلط کے جڑوں کو مذید گہرا کردیا ہے۔ اسی خاص طبقے نے عام کے گلے میں لٹکے غلامی کی اس زنجیر میں ایک نئی کڑی کا اضافہ کردیا ہے۔ اب عام لوگ رُعب و دبدبہ، خاندانی پس منظر، شہرت اور دولت کو دیکھ کر ہی رہنما کا انتخاب کرتے ہے۔ اور یقیناَ یہ تمام خصوصیات کا مالک وہی شخص ہوسکتا ہے جو سونے کا چمچ منہ میں لئے پیدا ہوتا ہے یا پھر پرچی دکھا کر بغیر جدوجہد کسی سیاسی جماعت کا لیڈر بن جاتا ہے۔ اور یہ مظلوم عام شخص ہزار کوشش بھی کرے تو یہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اگر خدا نخواستہ اس عام گروہ میں سے کوئی یہ غلطی کر بھی لیتا ہے یعنی کہ اپنے جیسے عام لوگوں کا رہنما بننے کا تو یہ نفسیاتی اعتبار سے غلام معاشرہ اسکے ساتھ انصاف نہیں کرتا۔ طاقت کے اس بے رحم کھیل میں وہ ان ظالموں کے بیچ اکیلا رہ جاتا ہے چاہے وہ ایک مضبوط اعصاب والا شیر دل جوان ہی کیوں نہ ہو لیکن اکیلا پن، اور مسلسل نفسیاتی دباؤ اور ان طاقت کے بڑے کھلاڑیوں سے آئے دن لڑائی لڑ کر کمزور پڑ جاتا ہے۔ یہ شخص اس نفسیاتی اعتبار سے غلام معاشرے کا ایک باشعور شخص ہوتا ہے اور کسی حد تک اس غلامی سے آزاد ہوچکا ہوتا ہے۔ اور جب وہ یہ سارے حالات دیکھتا ہے تو انتہائی مایوس ہوجاتا یے۔ وہ مایوس کیوں نہ ہو جبکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ اسکے راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے اسکے جیسے وہ تمام ہوتے ہیں جن کے گلے میں غلامی کے زنجیریں ہوتی ہیں۔ وہ مایوس کیوں نہ ہو جب کہ وہ ان بے باک بہادروں کو دیکھتا ہے جو اسے ہر موڑ پے للکارتے ہیں اور وہ پھر ان مخصوص گروہوں یا بااثر خاندان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ وہ مایوس کیوں نہ ہو جب کہ یہ بہادر اور بے باک عام لوگ ان خاص لوگوں کے ہاتھوں خود کو چند پیسوں یا معمولی مفاد کے عوض بیچ دیتے ہیں۔
اس بات سے غالباََ ہر کوئی اتفاق کرے گا کہ انسان نظریات کے تابع ہوتا ہے نہ کہ نظریات انسان کے۔ تشویش کی بات یہ کہ ان نظریات اور عقائد پر عمل پیرا ہونا کسی حد تک درست ہے جو نفسیاتی غلامی کو پروان چڑھاتے ہیں. وقت کا تقاضہ ہے کہ اس پاور پولیٹکس کو سمجھا جائے اور اس بات کو ذہن نشین کر لیا جائے کہ اس سامراجی نظام میں کوئی بھی گروہ تب تک کمزور ہے جب تک اس گروہ کے پاس مشترکہ جدو جہد نہ ہو۔ جب تک انکے پاس حقوق کی مانگ کے لیے وہ آواز نہ ہو جو صریحاً ان کی ترجمانی کرے. جب تک وہ اس نفسیاتی غلامی کے زنجیروں کو توڑ کر اپنے آزاد ہونے کا احساس نہ کرے تب تک اس گروہ کی یہ سزا ہے کہ وہ غلام رہے اور نفسیاتی اعتبار سے غلام معاشرے میں زندگی بسر کرے۔ اور یہ بھی کہ یہ مظلوم طبقہ خود کو یہ باور کرائے کہ جب تک ان کے پاس طاقت یا حکمرانی نہ ہو ان کو کوئی بھی اپنی برابری کا نہیں سمجھے گا۔