کالمز

تنازعہ شندور: ایک جائزہ  

تحریر: ذاکر حسین بیگ 

برصغیر پہ حکومت انگریزوں کی تھی۔جب کہ کشمیر, معاہدہ امریتسر کے تحت 1846 میں انگریزوں نے مہاراجہ گلاب سنگھ کو 75 لاکھ نانک شاہی کے عوض بیچ  دیا تھا۔

اب موضوع  کے اصلی پہلو کی طرف آتے ہیں۔ گلگت بلتستان اور چترال مختلف ادوار میں اکائی رہے ہیں۔ اس علاقے میں رہنے والے مختلف حکمرانوں نے مختلف ادوار میں آر پار حکومت کی ہے۔ مقامی زبانوں میں یہ حکمران مہتر, تھم اور را کہلاتے تھے۔ کچھ مورخین کے مطابق کبھی گلگت تو کبھی چترال اس راجدھانی کا دارالخلافہ رہ چکے ہیں۔  یوں دونوں اطراف کے لوگ کسی وقت میں ایک ہی جغرافیہ اور یکساں تہزیب و تمدن کے لوگ تھے۔

موجودہ مقامی قوم پرست سوچ کے حامل افراد کا بھی ریاست گلگت بلتستان اور چترال کے حوالے سے یہی سوچ ہے کہ ماضی میں کوہستان سے لے کر تبت کی پہاڑیوں تک اور پھر استور, گلگت سے لے کر کے چترال تک ایک ہی ریاست جانی جاتی تھی۔

زار روس کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے انگریزسرکار نے برصضیر میں بھی اقدامات کیے۔ اس سلسلے میں گلگت بلتستان  کو مہاراجہ کشمیر کے سپرد کیا گیا تا کہ وہ اس خطے پر حکمرانی کر سکیں، اور مقامی افراد سے مالیہ اور ٹیکس وصول کرے۔ اس اقدام کے دو رس نتائج ہونے تھے۔

یہ وہ دور تھا جب چترال میں بھی ابھی ڈوگروں کا اثرو رسوخ بڑھ آرہا تھا۔ افغانستان سے سرحدی جوڑ کی وجہ سے انگریزوں  نے چترال کو بھی برٹش سیو زرنٹی میں لایا اور1885 میں مہتر آف چترال اور انگریزوں کےمابین ہونے والے معاہدے کے  بعد سے گلگت اور چترال میں کوئی سیاسی انتظامی  یگانگت نہ رہی۔

1885  اور پھر 1947  کے درمیاں اتار چڑھاؤ آتے رہے اور آزادی کے وقت چترال نے پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ 1969 میں باقاعدہ طور پر چترال کو مالاکنڈ ڈویژن میں ضم کر کے پاکستان کے صوبہ پختونخواہ کا ڈسٹرکٹ بنا دیا گیا۔

دوسری طرف گلگت بلتستان وہ بد قسمت خطہ نکلا جو اپنی آزادی کے جنگ لڑ کے 16 ایام تک ایک خود مختار آزاد ریاست بنانے کے بعد بھی مسلہ کشمیر کی وجہ سے آئینی حقوق سے محروم رہا۔

چترال اور گلگت میں بہت ساری ثقافتی و تہذیبی مماثلتیں ہونے کے ساتھ ساتھ سرحدیں بھی مشترک ہیں۔ نئے انتظامی معاملات کے پیش نظر ان سرحدات کی ملکیت کے تنازعے کھڑے ہوگئے۔ جیسے کہ شندور پاس,  سطح سمندر سے 12149 فٹ بلندی پر واقع یہ زمین اور اس سے ملحق شندور پولو گراؤنڈ جو کہ اپی بناوٹ اور قدرتی حسن سے  پوری دنیا میں پہچانا جاتا ہے دونوں خطوں کے بیچ سال در سال تنازعے کا سبب بنتا گیا۔  اس میں دو رائے نہیں ہو سکتےکہ یہ جگہ کس کے زیر انتظام رہے ,کیونکہ شندور گلگت بلتستان کا اٹوٹ انگ ہے۔البتہ اس خطے کا کچھ حصہ  چترال میں بھی واقع ہے۔لیکن ضلعی انتظامیہ چترال, چترال سکاؤٹس اپنے سیاسی اثر و سوخ اور مقامی لوگوں کی مداخلت کی وجہ سے ایک بین الاقوامی  جغرافیہ میں بلاواسطہ مداخلت کر رہی ہے اور گلگت بلتستان کے لوگوں کی سیاسی اور جغرافیائی  ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایک تو انہیں اس تنازعے میں پختونخوا  صوبائی اسمبلی کی معاونت حاصل ہےاور  دوسری جانب قومی اسمبلی میں نما ئندگی کی وجہ سے حکومت خیبر پختونخوا  پے در پے گلگت بلتستان کے لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ جبکہ گلگت بلتستان کا مقدمہ لڑنے کے لئے اسمبلی میں کوئی نہیں ہے۔

اس ضمن میں گلگت بلتستاں حکومت کو ایکشن لیتے ہوئے اسمںبلی سے اک بل منظور کرنا چاھیے اور اعلیٰ  عدلیہ گلگت بلتستان کو چاھیے کہ وہ اس قانون کی پاسداری کے لیے اقدامات کا بھی جا ئزہ لے۔اور ساتھ ہی ضلعی انتظامیہ غذر کو ضروری احکامات, اقدامت اور وسائل فراہم کرے تا کہ وہ جغرافیائی حفاظت کو یقینی بنائے۔ اسکے علاوہ  چترال سکاؤٹس کی چیک پوسٹوں کو ختم کر کے حدود چترال اور گلگت  میں ضلع غذر پولیس کے حوالے کردیا جائے اور ساتھ ساتھ گلگت بلتستان سکاؤٹس کو بارڈر ڈیوٹی پر معمور کیا جائے۔

ایک اور تجویز یہ کہ دونوں فریقین کو چاھیے کہ وہ اس مسلے کو Alternate Dispute Resolution (ADR)  کے تحت حل کرے یا پھر بین الصوبائی  باونڈری کمیشن مقرر کر کے تاریخی اسناد اور ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلے کو منطقی  انجام تک پہنچائے۔ بصورت دیگر حریفین میں  ایک کا بین الاقوامی مسلے سے منسلک ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے  نکل جاتا ہے۔ عام معاملات میں بین الاصوبائی معاملات کا حل اور دائرہ اختیار  سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس ہے۔

اب اگرتمام تر راستے بند ہو جائے اور گلگت بلتستان  کی جغرافیائی جدود کی پا مالی جا ری رہی تو  یو این او کی مداخلت کے علاوہ اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button