کالمز

غذر، انتخابی حلقہ 1 کی سیاسی باتیں 

تحریر: دیدار علی خان 
گلی محلوں، چوک چوراہوں اور بازاروں میں ہونے والی سیاسی گفتگو، تجزیے اور قیاس آرائیوں کو قلمبند کرنے کی جسارت کی ہے۔ یقین جانیے یہ عام فہم عوام بہت ہی زیادہ سیاسی ہیں اور حالات پر گہرے نظر رکھے ہوئے ہیں۔  سب سے پہلے پی پی پی کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ  آج کے دن تک پی پی پی واحد جماعت ہے جس کے نمایندے کی جانب سے بہترین سیاسی کمپین  جاری ہے۔
 "صوبائی صدر پی پی پی امجد ایڈوکیٹ صاحب نے گزشتہ دنوں اپنی سیاسی مہم  کے دوران بھی اور باضبطہ طور پر ایک بیان کی شکل میں لوکل اخباروں میں بھی شائع کیا کہ  پی پی پی کو اگر حکومت سازی کا موقع ملتا ہے تو  گلگت بلتستان کے عوام کا ایک دیرینہ مسئلہ "حق ملکیت ” کی حصول کو باقائدہ بل کہ صورت میں اسمبلی سے منظور کرینگے۔ پی پی پی  نے اپنا منشور انتہائی آسان کر کے عوام کے سامنے رکھ دیی ہے۔ رہی بات حلقہ نمبر 1 غذر کی تو یہاں سید جلال علی شاہ کی انٹری کے بعد سیاست میں ایک ہلچل ضرور مچ چکی ہے۔ محترم پیر صاحب کے سیاست سے سبکدوشی کے بعد اس حلقے میں پی پی پی کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچ چکا تھا اور کسی حد تک  ایک خلا بھی پیدا ہوگیا تھا۔ سید جلال علی شاہ کے سیاست میں انٹری کے بعد یہ خلا کسی حد تک پُر ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پی پی پی کی خدمات گلگت بلتستان کے لئے ناگزیر ہیں اور پی پی پی کے چاہنے والوں (جیالوں)  کو سید جلال کے روپ میں ایک نوجوان لیڈر جوکہ پڑھا لکھا ہے میسر آیا ہے۔ تاہم حلقے کے عوام  پیر صاحب کے دور اقتدار میں ہونے والے ترقیاتی کاموں سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ خدشہ ہے کہ جلال صاحب کی کارکردگی بھی گزشتہ ادوار کی طرح ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ پی پی پی اور خاص کر سید جلال صاحب اپنی سیاسی کیمپین کے دوران کس حد تک ان خدشات کو دور کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
بی این ایف چونکہ حلقے کا دفاعی چمپئن ہے لیکن ابھی تک اپنے سیاسی کیمپین کا باقاعدہ آغاز نہیں کیا ہے۔ عوام میں بی این ایف کے متعلق ملے جلے رائے قائم ہے۔ نواز خان ناجی صاحب جس طرح چند سال پہلے عوام میں مقبول تھے اب شاید نہیں رہے۔ لیکن یہاں یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ قائد تحریک کے پاس سیسہ پگھلا کے موم بنانے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ اس کی ایک وجہ قائد تحریک کی قائدانہ صلاحیت ہے اور آپ نہ صرف حلقہ ایک کے بلکہ پورے خطے کے لیڈر ہیں۔ اگر غیر جانبدار ہوکے تجزیہ کیا جائے تو گلگت بلتستان میں  کوئی سیاسی جماعت ہے یا لیڈر ہے جو گلگت بلتستان کی حقیقی نمائندگی کرتا ہو تو وہ ہیں  قائد تحریک یا انکی کی پارٹی بی این اف ہے۔  قائد تحریک  کے قیادت میں بی این ایف اپنے حریفوں کو پچھاڑنے کے لئے پرعزم ہے اور بہت حد تک اس جماعت میں ابھی تک وہ سکت موجود ہے کہ وہ کسی بھی دنگل میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔  نواز خان ناجی صاحب کی کارکردگی بطور ایم ایل اے کو بھی عوامی حلقوں میں سراہا جارہا ہے۔ تاہم اشکومن کو کسی حد نظر انداز رکھنے اور زیادہ تر توجہ کا مرکز پونیال ہونے کی وجہ سے اشکومن کے عوام میں مایوسی کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔
پی ٹی آئی واحد سیاسی جماعت ہے جو آج کے دن تک ششو پنج  میں مبتلا ہے۔ جماعتی لیڈران  آج کے دن تک مردِ میدان بننے کی غرض سے انتہائی اضطراب میں مبتلا ہیں اور ایک دوسرے سے دست و گریباں بھی نظر آرہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے حامیوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ اور ایک اندازے کے مطابق بہت سے سپورٹرز جماعت میں موجود اس غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر ارادہ کر چکے ہیں کہ کسی نئے سیاسی جماعت کے موضوع امیدوار کو ووٹ دیں۔ اورخبر یہ بھی ہے کہ کچھ  نے تو خفیہ ملاقاتیں بھی کرنی شروع کی ہیں۔ آج کے دن تک پی ٹی آئی کی طرف سے کسی منشور کا بھی ذکر نہیں ہوا ہے جو خصوصاََ گلگت بلتستان کے تناظر میں ہو۔ اگر تو احتساب کے عمل کا ہی رٹ لگاتے رہے تو عین ممکن ہے کہ عوام میں پذیرائی نہ ملے۔ پی ٹی آئی میں موجود اضطراب کہ وجہ پرانا اور نیا نظریاتی کارکن ہونا ہے۔ گزشتہ دنوں پرانے نظریاتی کارکنوں کی طرف سے ایک پریس کانفرنس بھی منعقد کی جاچکی ہے۔  پارٹی ٹکٹ  نئے نظریاتی نمائندے کو ملنے کی صورت میں پرانے نظریاتی امیدواروں کا آزاد حیثیت سے الکشن لڑنے کی دھمکیاں یہ اشارہ کر رہی ہیں کہ پارٹی میں اتحاد و اعتماد کی کمی ہے.
مسلم لیگ (ن) کا حلقے میں کوئی خاص سیاسی حلچل نظر نہیں آرہا ہے۔ تاہم راجہ شکیل عوام میں مقبول رہنما ہیں۔ آپ کی قابلیت اور  خدمات کا اعتراف ہر خاص و عام کرتا ہوا پایا جاتا ہے۔ اور راجہ صاحب کے حمایتی اور مسلم (ن) کا اس حلقے میں ایک اچھا خاصا ووٹ بینک بھی موجود ہے۔ تاہم راجہ صاحب کا باضبطہ الکشن لڑنے کا اعلان نہ کرنا یا پھر سیاسی کیمپین کا آغاز نہ کرنا ایک معمہ ہے۔ اکثر و بیشتر کی یہ رائے ہے کہ آپ شاید اس دفعہ الیکشن میں حصہ نہیں لینگے۔
 حلقے کی سیاست پے اگر مزید بات کرتے ہیں تو ایک اور سیاسی نمائندہ  ظفرمحمد  شادم خیل کی صورت میں موجود ہے۔ ظفر محمد شادم خیل کی گزشتہ الیکشن میں تیسرے نمبر پہ آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ نے قلیل مدت میں عوام میں پذیرائی حاصل کی ہے۔  پی ٹی آئی میں  شمولیت کے بعد ظفر محمد شادم خیل کی سیاست کو کافی فائدہ پہنچا ہے ۔ تاہم غیر یقینی کی کیفیت کے ختم ہونے تک کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے۔ اگر ظفر محمد شادم خیل اس الکشن میں  پی ٹی آئی کی طرف سے میدان میں اترتے ہیں تو ایک مظبوط امیدوار کے طور پر اپنا لوہا منواسکتے ہیں اور حریف جماعتوں کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں.
بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ الیکشن 2020 میں سخت مقابلہ پی پی پی اور بی این ایف کے بیچ ہوگا۔ تاہم وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور خان  صاحب کو بھی عوام میں خوب پزیرائی حاصل ہے۔ اگر تو پی ٹی آئی اپنے صفوں میں موجود نااتفاقی کے عنصر کو نکال پھینکنے میں کامیاب ہوتی ہے تو عین ممکن ہے پانسہ پلٹ جایے۔
  آخر میں یہ کہنا مناسب سمجھوں گا کہ ووٹ آپ کے اور آپ کے ضمیر کا فیصلہ ہے۔ ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ اپنا ووٹ ذات پات، رنگ نسل اور خصوصاََ مذہبی تعصب سے بالاتر ہو کر اپنے آنے والی نسلوں کی بہتر مستقبل کے لئے کاسٹ کریں۔ علاوہ اس کے یہ عمل انتہائی غلط ہے کہ اکثر و بیشتر خواتین و حضرات الکشن کے دن ووٹ کاسٹ ہی نہیں کرتے۔ یہ عمل آپکے لئے اور آپکے آنے والی نسلوں کی  مسقبل کے لیے انتہائی نقصان  دہ ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button